نظام میں خرابی کہاں ہے

پاکستان میں جہاں نظام میں خرابیاں موجود ہیں وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ سرکاری افسروں، اہلکاروں اورسیاستدانوں کارویہ بھی ہے


Editorial March 16, 2016
بالادست طبقات نے اپنی مراعات کے لیے قانون میں ایسی تبدیلیاں کیں جس سے انھیں تحفظ مل گیا. فوٹو: فائل

اعلیٰ عدلیہ کے معزز جسٹس صاحبان پاکستان کے نظام میں موجود خرابیوں کے بارے میں اکثر اوقات مقدمات کی سماعت کے دوران فکر افروز ریمارکس دیتے رہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ افسر شاہی اور سیاستدانوں نے انھیں سامنے رکھ کر اصلاح احوال کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے کوئی موثر کردار ادا کیا ہے، پاکستان میں جہاں نظام میں خرابیاں موجود ہیں، وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ سرکاری افسروں، اہلکاروں اور سیاستدانوں کا رویہ بھی ہے، عدالتی نظام میں بھی خرابیاں موجود ہیں اور یہاں بھی افراد کے رویے، نظریات اور رجحانات اہم مسئلہ ہیں۔

ہمارے ہاں جس شخص کے پاس ریاستی اختیارات ہوں، وہ بھی جاگیردارانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے، سرکاری ملازم قانون کی آ ڑلے کر تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں موجوداہم سرکاری اداروں کے دفاتر کی منتقلی کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے جو ریمارکس دیے وہ چشم کشا ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کے معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ کیا آئی جیز کے دفاتر پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ اگر دفاتر پر پاکستان کا جھنڈا لگا ہے تو پاکستانی قانون پر عمل کرنا ہو گا اور اگر پاکستانی قانون پر عمل نہیں کرنا تو بہتر ہے داعش کا جھنڈا لگا دیا جائے۔یہ ریمارکس آئی جی اسلام آباد اور آئی جی موٹرویز کے دفاتر کی منتقلی کے حوالے سے دیے گئے ہیں، حکومت ان دفاتر کی منتقلی کے لیے دو تین ماہ کا وقت چاہتی تھی لیکن عدالت عظمیٰ نے 2 ہفتے کی مہلت دی ہے۔

پاکستان کے نظام میں موجود خرابیوں کا سب کو علم ہے، قوانین بھی موجود ہیں، سرکاری محکموں کے اپنے قواعد و ضوابط کی ایک لمبی فہرست ہے، تعزیرات پاکستان بھی موجود ہے۔ کسٹمز اور انکم ٹیکس قوانین کی بھی طویل فہرست ہے۔

بینکنگ لاز کا الگ گورکھ دھندا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی ضوابط موجود ہیں لیکن ان سب کے باوجود نظام پوری طرح مستعدی سے کام نہیں کر رہا ہے، اخبارات کے صفحات مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں اور اختیارات سے تجاوز کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے ارکان کی زیادہ توجہ اپنی مراعات پر رہتی ہے، وہ قانون سازی میں دلچسپی نہیں لیتے، ارکان پارلیمنٹ ترقیاتی فنڈز اور نوکریوں کا کوٹہ لینے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ بیوروکریسی کا بھی یہی حال ہے، وہاں بھی غیرملکی دوروں کو اہمیت دی جاتی ہے یا پھر میٹنگوں کے سلسلے چلتے رہتے ہیں۔

عدالتوں میں برسوں تک مقدمات چلتے رہتے ہیں، تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے، سائل پریشان رہتے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ اگر قوانین میں خرابی ہے تو انھیں درست کیا جانا چاہیے اور اگر رویوں اور تربیت میں خرابی ہے تو اسے درست کیا جانا چاہیے، پاکستان میں برسوں کی لاپروائی نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے، یہ مسائل ایک دن میں حل ہونے والے نہیں ہیں لیکن اب ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ مزید لاپروائی کا کلچر بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اصلاح و احوال کا آغاز کر دینا چاہیے، گو اب چیزوں میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے، اس رفتار میں تیزی آنی چاہیے۔ہم کسی ایک کو خرابی کا ذمے دار قرار نہیں دے سکتے، یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ہم سب مشترکہ طور پر خرابی کے ذمے دار ہیں، اگر پارلیمنٹ اپنا کام کرے، بیوروکریسی اپنا اور عدلیہ اپنا تو نظام سیدھی راہ اختیار کر سکتا ہے،چیک اینڈ بیلنس کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں بالادست پر قانون کا چیک کمزور ہے، قانون میں ایسے لوپ ہولز موجود ہیں جو بالادست کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔اس وجہ سے طاقتور کو من مانی کا موقع ملتا ہے۔اس کی یہ من مانی بھی قانون کے دائرے میں ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ قانون کی خامیوں اور کمزوریوں کو جانتا ہے۔

کبھی اسی پاکستان میں سینماؤں کے باہر اور بسوں میں سوار ہونے کے لیے قطار بنانے کا رواج تھا، رکشاؤں میں کرایہ میٹر لگے ہوئے تھے تجاوزات قائم کرنے کا کلچر بھی نہیں تھا ،سرکاری افسر اور اہلکار بغیر سفارش اور رشوت کے بھی عوام کے کام کرتا تھا لیکن پھر بتدریج نظام خراب ہونا شروع ہوا اور آج ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، پاکستان میں بدامنی اور لاقانونیت کی بڑی وجہ نظام کی خرابی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے خود نظام کو خراب کیا تاکہ قانون کی گرفت سے آزاد ہو سکیں۔

بالادست طبقات نے اپنی مراعات کے لیے قانون میں ایسی تبدیلیاں کیں جس سے انھیں تحفظ مل گیا۔باقی جگہ ان طبقات نے بدعنوانی کو فروغ دیا۔بہر حال اب بھی ملک کا نظام اس وقت چلے گا جب ارباب اختیار اس پر عمل کریں گے اور قانون کو سب سے پہلے خود پر نافذ کریں گے۔

مقبول خبریں