حکومت فیصلے کے بحران سے نکلے

پانامالیکس میں جتنےبھی لوگوں کےنام آئےہیں سب کااحتساب ہوناچاہیےاوراسکا آغازوزیراعظم نوازشریف اوران کےخاندان سے ہو


Editorial May 04, 2016
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس میں وزیراعظم اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثے ظاہر کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان سے استعفٰی طلب کیا جائے گا۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: پاناما لیکس کے پینڈورا باکس کھلنے سے ملکی سیاست کو جس اعصاب شکن گرداب نے آدبوچا ہے ملکی تاریخ کا اسے انوکھا دورانیہ کہنا چاہیے ۔ اس بحرانی صورتحال کی کیمسٹری بھی حیران کن اور تہلکہ خیز ہے جس نے کسی داخلی ایشو سے نہیں بلکہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں ملکی دولت مرتکز کرنے کے اسکینڈل سے جنم لیاہے اور دنیا کے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں جس میں اپوزیشن ، سول سوسائٹی اور حکومت کے مابین کرپشن کے مسئلے پر نہ صرف حکمرانی چیلنج کی جارہی ہے بلکہ بعض ملکوں میں احتسابی عمل بھی شروع ہوچکا ہے، ادارہ جاتی سطح پر تحقیقات کے مطالبات عروج پر ہیں اور تندی باد مخالف کے باعث ہر جگہ اپوزیشن کی اڑان اونچی ہے۔

پاکستان بھی پاناما لیکس کے پیدا شدہ ارتعاش کی زد میں ہے ، اپوزیشن نے وزیراعظم نواز شریف سے تحقیقات شروع کرنے پر متفق ہوگئی ہے تاہم حکومت کے استعفے کی حمایت اور مخالفت کے باعث مزید بات چیت اور حتمی لائحہ عمل کے لیے مذاکرات کو جاری رکھنے کا فیصلے کیا، اس دوران حکومت اور اپوزیشن میں''شو ڈاؤن'' کی کیفیت نے سیاسی پنڈتوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے تاہم قومی سیاست اور ملکی بحرانوں پر قریبی نظر رکھنے والے دانشوروں ، تجزیہ کاروں اور سیاسی مدبرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ان کے دور وزارت عظمیٰ میں پہلی بار اس نوعیت کی ہمہ جہتی اپوزیشنل تحریک کی سختی اور تلخیوں کا سامنا ہے، لیکن پاناما لیکس نے آف شور کمپنیوں میں جن 1200 پاکستانیوں کے نام جاری کیے ہیں ،(ابھی مزید نام سامنے آنے والے ہیں) ان میں نواز شریف کا نام اگرچہ ان کمپنیوں کو ہولڈ کرنے والوں میں شامل نہیں لیکن ان کے دوبیٹوں اور بیٹی کے نام شامل ہیں۔

اس لیے اپوزیشن کا جائز جمہوری ڈیمانڈ ہے کہ احتساب کے لیے نواز شریف سمیت تمام لوگ احتساب کے لیے تیار ہوں، ایک اور بنیادی بات اس اسکینڈل کی یہ ہے کہ اس میں روایتی انداز میں ا سٹیبلشمنٹ یا دیگر نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارستانیوں کودوش دینے کی بلیم گیم کوکسی قسم کی تقویت نہیں مل رہی ہے ۔ سارا زلزلہ جاتی سیناریو پاناما پیپرز کے لیکس کا نتیجہ ہے۔یہ داخلی نہیں بیرونی سونامی ہے جسے عمران خان نے قدرت کی طرف سے سونامی کا دلچسپ نام دیا ہے۔

اگر بلا امتیاز جمہوری انداز نظر سے دیکھا جائے تو اپوزیشن کی مہم ، مختلف سیاسی رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس اور عدالتی کمیشن کے قیام و ٹرمز آف ریفرنس کمیٹی کی تشکیل حزب اختلاف کے جمہوری طریقہ کار سے منسلک معاملات ہیں ، اسے مہم جوئی کا نام نہیں دے سکتے،کیونکہ ایک عالمی جرنسلٹ کنسورشیم نے جن آف شور کمپنیوں کا انکشاف کیا ہے اس شامل پاکستانی شخصیات کو احتساب سے نہیں ڈرنا چاہیے ، اور اگر ان کے ہاتھ صاف ہیں تو انھیں کسی بھی تفتیش و عدالتی تحقیقات کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرنا چاہیے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔اس لیے مسلم لیگ ن کی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کے لیے یہ زریں موقع ہے کہ وہ کرپشن نہیں کی ، کمیشن بنادیا جیسی ڈنگ ٹپاؤ حکمت عملی کے خطرات اور آفات کا ادراک کرے۔ گریز پائی ، حیلہ جوئی اور اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کے بچکانہ کھیل سے کہیں سیاست کی بساط نہ الٹ جائے۔

اپوزیشن کے محتاط طرز عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے نہیں جارہی بلکہ ایک اصولی موقف کے گرد اس کی ساری سیاسی جدوجہد گھوم رہی ہے ۔ چنانچہ پاناما لیکس پر مشاورت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے پیر کے اجلاس میں وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے پر بوجوہ اتفاق نہیں ہو سکا تاہم تحقیقات کا آغاز وزیراعظم اور ان کے خاندان سے کرنے پر تمام جماعتیں متفق ہو گئیں۔اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہے' منتخب وزیراعظم ہیں' ان کا تین بار پہلے احتساب ہو چکا ہے' چوتھی باربھی تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ میڈیا کو اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے موجودہ حکومتی ٹی او آرز قابل قبول نہیں ہیں۔

پاناما لیکس میں جتنے بھی لوگوں کے نام آئے ہیں سب کا احتساب ہونا چاہیے اور اس کا آغاز وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سے ہو۔ جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے لیے ضروری قانون سازی اپوزیشن کی مشاورت سے کی جائے۔ اجلاس میں یہ اتفاق کیا گیا کہ انکوائری کمیشن 1956ء کے قانون کے تحت نہ بنایا جائے، کمیشن کی تشکیل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی جائے۔ صدارتی آر ڈیننس سے بننے والے انکوائر ی کمیشن کو پارلیمانی تحفظ مہیا کیا جائے۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی جانب سے خورشید شاہ، اعتزاز احسن، اعجاز جاکھرانی، قمر زمان کائرہ، سعید غنی، نوید قمر، شیری رحمان اور سلیم مانڈوی والا، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عارف علوی، اسد عمر، شیریں مزاری، حامد خان اور عاطف خان، مسلم لیگ (ق) سے چوہدری شجاعت، مشاہد حسین، طارق بشیر چیمہ، ایم کیوایم سے میاں عتیق، کنور نوید جمیل، خالد مقبول صدیقی، عوامی نیشنل پارٹی سے غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، جماعت اسلامی سے سراج الحق اور صاحبزادہ طارق اللہ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ اور انیسہ زیب طاہر خیلی اور بی این پی عوامی کے میر اسرار اللہ ظاہری نے شرکت کی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے تجویز کردہ ٹی او آرز پیش کیے۔

جن کا جائزہ لینے کے لیے قانونی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا وہیں اجلاس منعقد ہوا۔ کمیٹی میں اعتزاز احسن، حامد خان، اسد اللہ بھٹو، مشاہد حسین، انیسہ زیب طاہرخیلی، شیخ رشید، اسراراللہ زہری اور میاںافتخار شامل ہیں جو مشترکہ ٹی او آرز تیار کریگی۔جس کے بعد چار نکاتی اعلامیہ تیار کیا گیا۔ ذرایع کے مطابق جماعت اسلامی کے سراج الحق نے بھی استعفے کے مطالبے کی حمایت سے گریز کیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس میں وزیراعظم اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثے ظاہر کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان سے استعفٰی طلب کیا جائے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں وڈیولنک کے ذریعے رابطہ کمیٹی لندن کے اراکین بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت کنوینر ندیم نصرت نے کی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم نے بھی وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کردیا اور کہا کہ پانامہ لیکس کے تناظر میں نوازشریف بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دیدیں اور ملک کو بحران سے نکالیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس اسکینڈل کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ تو مشترکہ طور پر کیا جائے گا لیکن فی الحال حکومت ہٹاؤ مہم نہیں چلائی جائے گی اور نہ ہی اسلام آباد یا رائے ونڈ میں دھرنا دیا جائے گا جب کہ اپوزیشن کوئی ایسی احتجاجی تحریک بھی نہیں چلائے گی جس سے جمہوری نظام ڈی ریل ہونے کا خدشہ ہو۔ قرائن بتاتے ہیں کہ حکومت ابھی فیصلے کے بحران میں ہے، اس کے بعض مشیران بے تدبیر اسے ہارڈ لائن لینے پر اکسا رہے ہیں، حکومت کو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس کی پچ گیلی ہے، اور اسے وقت اور اپوزیشن کے انتہائی منجھے ہوئے اسپنرز کا سامنا ہے ، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ رات گئی بات گئی والی صورتحال ہے، نہیں ہر گز نہیں ۔ مشہور دانشوروادیب ولیم بلیک نے کہا تھا۔Opposition is true friendshipمگر یہ دوستی جمہوریت اور شفاف طرز حکمرانی کے استحکام اور بدعنوانی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کے جمہوری عہدوپیمان سے عبارت ہے۔ بس سوچنے کا فرق ہے۔

مقبول خبریں