ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت!

ایڈیٹوریل  پير 23 مئ 2016
حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا اور افغان حکومت طاقت کی پالیسی میں تبدیلی لائیں کیونکہ ہلاکتیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ فوٹو؛ فائل

حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا اور افغان حکومت طاقت کی پالیسی میں تبدیلی لائیں کیونکہ ہلاکتیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ فوٹو؛ فائل

امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کے مارے جانے کی اطلاع  ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ملا محمد اختر منصورکو نشانہ بنائے جانے کی تصدیق کی ہے ۔

افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ملا منصور کو پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے میں ہفتے کی صبح اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک ڈبل کیبن گاڑی میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جا رہے تھے۔

اس حملے کا حکم صدر اوباما نے خود دیا تھا۔۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار کے حوالے سے میڈیا کی اطلاع ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس حملے کے بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا۔ادھر قطر میں طالبان کے دفتر سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ ان کے بہت مشکل سے ملا منصور سے رابطے ہوتے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے کہا کہ ملا منصور کابل اور افغانستان بھر میں تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں بہت فعال حصہ لیتے رہے۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز اور امریکی عملے کے ارکان اور اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے رہے۔

انھوں نے طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لینے سے روک رکھا تھا۔ ملا اختر منصور 60ء کی دہائی میں افغانستان کے صوبے قندہار میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا تعلق اسحاق زئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ ملا اختر منصور نے سابق سوویت یونین کے خلاف ایک مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اور اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے۔ 90ء کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد منصور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ طالبان دور حکومت کے دوران سول ایوی ایشن کے وزیر اور کچھ عرصہ تک قندہار ہوائی اڈے کے انچارج بھی رہے۔

اکتوبر 2001ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی روپوش ہو گئے۔ جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندہار صوبے کے لیے طالبان کے ’شیڈو‘ گورنر کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔ ملا اختر منصور طالبان کے سابق امیر ملا عمر کے دور میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔وہ  ملا عمر کی موت کے بعد جولائی 2015ء میں طالبان کے امیر بنے۔ تاہم طالبان کے بعض دھڑوں نے انھیں اپنا امیر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ملا منصور کی ہلاکت ایک بڑا واقعہ ہے‘ لیکن یہ کہنا کہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا ‘ درست نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں بڑھیں گی ‘ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان متوقع مذاکرات کا کامیاب ہونا بھی مشکل ہے۔یہ بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب طالبان میں دھڑے بندیوں میں اضافہ ہو گا۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا اور افغان حکومت طاقت کی پالیسی میں تبدیلی لائیں کیونکہ ہلاکتیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔