ابراہیم جلیس…ایک جائزہ

رفیع الزمان زبیری  بدھ 7 ستمبر 2016

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ابراہیم جلیس کی شخصیت اورفن کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس موضوع پر ان کا ایک سیر حاصل تحقیقی مقالہ شایع ہو چکا ہے۔ اب انھوں نے ایک کتاب میں ابراہیم جلیس کی تصانیف کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم جلیس کی تحقیقی صلاحیتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ بہ حیثیت افسانہ نویس، مزاح نگار، صحافی اور کالم نویس ادب کے بہت سے محاذوں پر سرگرم رہے۔

ابراہیم جلیس کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی، انٹرکالج گلبرگہ سے کیا اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے۔ لاء کرنے کا ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ حیدرآباد میں ترقی پسند ادب کی تحریک سے ان کی وابستگی فطری تھی۔ ان کا ذہن زمانہ طالب علمی ہی سے انقلابی بن چکا تھا ۔ 1945ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’زرد چہرے‘‘ حیدرآباد میں اردو محل کے زیر اہتمام شایع ہوا۔

ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں ’’اردو ادب کی تاریخ میں بہت سے تخلیق کار آج بھی اپنے فن کی وجہ سے زندہ جاوید ہیں۔ کچھ دانشور اور ماہرین فکروفن ایسے بھی ہوگزرے ہیں جنھیں اپنی ادبی حیثیت اور مقام و مرتبے کے مطابق اپنی زندگی میں تو شہرت حاصل نہ ہو سکی مگر وہ اپنی تخلیقات کی صورت میں ایسا قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے جس پر اہل ادب ناز کر سکتے ہیں۔ ان میں ابراہیم جلیس کا نام بھی شامل ہے۔‘‘

1948ء میں جب ہندوستانی فوج نے پولیس ایکشن کے نام سے حیدرآباد پر حملہ کیا اور محب وطن لوگوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ابراہیم جلیس ریاست سے نکل کر پاکستان آ گئے۔ ابتدا میں لاہور میں قیام کیا۔ روزنامہ’’امروز‘‘ کے ادارتی عملے میں شامل ہو گئے۔ ڈھائی برس وہاں کام کیا یہاں ہی ان کی انقلابی سوچ پروان چڑھی۔ لاہور سے پھر وہ کراچی آ گئے اور یہاں ’’امروز‘‘ کو فعال بنانے میں لگ گئے۔ ایک ناپسندیدہ کالم لکھنے کی پاداش میں چھ ماہ کی قید کی سزا بھی بھگتی۔ یہاں جو کچھ دیکھا اور جو ان پر بیتی اس کا احوال ان کی کتاب ’’جیل کے دن اور جیل کی راتیں‘‘ میں ملتا ہے یہ ایک ناول نما رپورتاژ ہے۔

ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں ’’ابراہیم جلیس نے اپنا قلم حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں اور قلم کی قوتوں کو متاثرہ انسانوں کی بحالی کے لیے استعمال کیا۔ وہ قلم کی عزت کو ہر چیز سے زیادہ مقدم سمجھتے تھے۔ وہ دکھی انسانیت کے چہرے پر مسرت انگیز مسکراہٹ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خود ذاتی طور پر جتنے دکھی تھے اتنا ہی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی مشکلات اور تکالیف کی آہ کو پس پشت ڈال کر لوگوں میں مسکراہٹ اور آسودگی کے پھول بانٹیں۔ وہ ایک حساس، خوددار اور شریف النفس انسان تھے۔ ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی۔‘‘

ابراہیم جلیس نے اپنی ایک کتاب ’’شگفتہ شگفتہ‘‘ میں ’’میری تمنا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے ’’میں ایسی زبان میں کتابیں لکھنا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر معمولی پڑھے لکھے لوگ بھی میری کتابیں پڑھ سکیں۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری کتاب کو ’’ادب عالیہ‘‘ کی الماری میں جگہ نہ ملے۔ مجھے کسی ادبی انعام کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ البتہ یہ ضرور چاہتا ہوں کہ اگر میری تحریر قاری کے ذہن میں سوچنے کے لیے ایک بھی اچھا خیال چھوڑ جائے اور کسی کے دکھ سے مرجھائے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آمیز، ایک مسکراہٹ بھی بکھیر دے تو پھر میری زندگی کا سب سے بڑا انعام مجھے مل جائے گا۔ غموں اور دکھ سے بھری اس دنیا میں روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو پونچھنا اور مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دینا نہ صرف انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے اور میں انسانیت کی خدمت ہی کو خدا کی سب سے بڑی عبادت سمجھتا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی کتاب میں ابراہیم جلیس کی تیس کتابوں، فلموں اور کالموں کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابراہیم جلیس کے افسانے حقیقت نگاری کی مثال ہیں۔ ’’زرد چہرے‘‘ میں جو افسانے شامل ہیں وہ معاشرے کے پست اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے طبقے کی ترجمانی کرتے ہیں اور قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کی معاشی بدحالی کا منظر دکھاتے ہیں۔ ’’چالیس کروڑ بھکاری‘‘ میں ابراہیم جلیس کا فن عروج پر ہے۔ ’’تکونا دیس‘‘ ابراہیم جلیس کے افسانوی طرز کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 1945ء میں حیدرآباد سے شایع ہوئی تھی۔ ان میں جو مضمون شامل ہیں ان کا موضوع بھی ہندوستان کا فاقہ زدہ معاشرہ اور پست ذہنیت کے تضادات ہیں۔

1951ء میں ابراہیم جلیس نے چین کا دورہ کیا۔ وہاں ان کا قیام چھ مہینے رہا۔ اس سفر کا حال انھوں نے اپنی کتاب ’’نئی دیوار چین‘‘ میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں کہ چین کی آزادی کے بعد چین کے بارے میں اردو میں یہ پہلا سفرنامہ ہے جو شایع ہوا ہے۔ اپنے اس سفرنامے کے تعارف میں ابراہیم جلیس لکھتے ہیں ’’اس سفر نامے کو لکھتے وقت میں نے اس طرز نگارش کو اختیارکیا ہے جو الف لیلیٰ کے چار درویشوں کا انداز بیان ہے۔ یعنی اس کتاب کو پڑھتے وقت آپ یہ محسوس کریں گے جیسے آپ میرے ساتھ پیکنگ ہوٹل میں ٹانکنگ کی بطخ کھا رہے ہیں یا شنگھائی کے پر رونق بازاروں میں میرے ہمراہ داڑھی مونڈنے والے بلیڈوں کا ایک پیکٹ خریدنے نکل آئے ہیں یا چینی ڈکوٹا میں میری ساتھ والی نشست پر بیٹھے چین کی فضاؤں میں اڑ رہے ہیں۔‘‘

’’بنگال میں اجنبی‘‘ ابراہیم جلیس کا سابق مشرقی پاکستان کا سفرنامہ ہے۔ یہ ایک اعتبار سے رپورتاژ ہے۔ ’’دو ملک، ایک کہانی‘‘ بھی اسی طرح کا ایک رپورتاژ ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں ’’رپورتاژکی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دامن میں واقعات کو فلم کی طرح چلاتی ہے۔ نئے اور انوکھے پن کا احساس قاری کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ لفظوں کی خوبصورت شیرازہ بندی کرداروں کو زندہ رکھتی ہے۔‘‘

حیدرآباد میں نوجوانی ہی کے دنوں سے افسانہ نگاری میں شہرت حاصل کر لینے کے بعد ابراہیم جلیس حمید اختر اور ساحر لدھیانوی کے مشورے پر فلمی دنیا میں آ گئے۔

بمبئی فلمی دنیا کا مرکز تھا وہاں اپنے ان دوستوں کے ساتھ ان کا اچھا وقت گزرا۔ ڈاکٹر ہارون الرشید بتاتے ہیں کہ بمبئی کے کوچہ و بازار اور گلستانوں میں ان کی ان دنوں کی یادوں کے انمٹ نقوش ان کی تحریر کردہ رپورتاژ ’’شہر‘‘ میں محفوظ ہیں۔ اس رپورتاژ میں جہاں بمبئی کے روزوشب کا تذکرہ ہے، وہاں اہل قلم کے ساتھ ان کے تعلق کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔

پاکستان آنے کے بعد اخباری سرگرمیوں کے ساتھ ابراہیم جلیس نے یہاں کی فلمی دنیا سے بھی تعلق رکھا اور عالمی شہرت یافتہ فلمی کہانیاں لکھ کر اپنے حسن تخلیق کی داد پائی۔ ان کی ایک کتاب ’’واہیات باتیں‘‘ فلمی دنیا سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے۔ ان کے کالم جو کراچی کے اخباروں میں شایع ہوتے تھے بہت پسند کیے جاتے تھے۔

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ’’ابراہیم جلیس ہر محفل میں جچتے تھے۔ بچوں کی محفل میں بچوں کی سی باتیں، ادیبوں اورشاعروں میں ادب اور شاعری کی باتیں، صحافیوں میں صحافت کی باتیں۔ سنجیدہ محفل میں سنجیدہ باتیں اور محفل طرب میں شگفتہ باتیں کرتے تھے۔ وہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کرتے تھے، درد مند انسان تھے،  رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر انسان اور انسانیت کا احترام کرتے تھے انھوں نے کبھی غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا، مظلوموں کا ساتھ دیا، ان کی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔