جسٹس فائز عیسیٰ رپورٹ نے نیشنل ایکشن پلان کا پول کھول دیا

رحمت علی رازی  اتوار 25 دسمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں ایک بات تو ثابت شدہ ہے کہ عظیم سے عظیم آدمی بھی جب تک اپنے طاقتور عہدے پر قائم رہتا ہے اس کی توقیر بھی تب تک ہی ہوتی ہے‘ جنرل (ر) راحیل شریف وطنِ عزیز کی عسکری تاریخ میں سب سے نمایاں اور متاثر کن شخصیت کے مالک رہے ہیں‘ تاریخ بھی یقینا انھیں اسی مقام پر فائز رکھے گی لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد بلوں میں دبکے ہوئے نام نہاد مدبران بھی ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے میدانِ سیاست میں نکل آئے ہیں‘ نیشنل ایکشن پلان پر جتنا عمل ہو چکا وہ راحیل شریف کے بدست ہی ہوا۔

جنرل قمرباجوہ سے قوم کو توقع تو ہے کہ وہ اپنے پیش رو کے اس مشن کو جاری رکھیں گے مگر حکومت کے انداز و اطوار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کا اب خدا ہی حافظ ہے‘ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے نئے قوانین سے زیادہ عملدرآمد اہم ہے جس پر بدقسمتی سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سنجیدہ نظر نہیں آتیں‘ مرکزی وزارت ِداخلہ بالکل ناکام ہے‘ دہشتگردی ہمارا بڑا قومی مسئلہ ہے‘ حکمرانوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عملی اقدامات کرنے ہونگے۔

نیکٹا کو ایجنسیوں کے ساتھ باہمی تعاون بڑھانا ہو گا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت وفاقی سطح پر وزارتِ داخلہ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس میں وہ ناکام رہے ہیں‘ پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں اور اسلام آباد میں کالعدم تنظیموں کے جتنے جلسے ہوئے ہیں اتنے لاہور اور پنجاب میں نہیں ہوئے‘ ہمیں منافقانہ پالیسی ختم کرنا ہو گی‘ اگر حکومت نے تنظیموں پر پابندی لگائی ہے تو پھر صبح وشام ان سے ملتے کیوں ہیں‘ جب تک نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل نہیں ہو گا ہماری کامیابیاں بھی ناکامی میں بدل جائیں گی۔

پاکستان میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور پسماندہ علاقوں کی شورش دہشتگردی میں تبدیل ہو گئی ہے‘ طالبان اور القاعدہ کی تنظیمیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی طور پر سب ایک ہیں‘ وہ ہمارے عوام اور بچوں کو مار رہے ہیں‘ ان کے تانے بانے پنجاب کے اندر موجود انتہا پسند گروپوں سے بھی ملتے ہیں‘ پاک فوج نے ہتھیار والے مسلح گروپوں کو زیر کر لیا ہے جب کہ شہری علاقوں میں موجود شدت پسندوں کا خاتمہ نہیں ہوا کیونکہ جب فوج کسی علاقے کو صاف کرتی ہے تو پھر سویلین حکومت کا کردار شروع ہوتا ہے جووہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پنجاب میں بیشمار انتہاپسند گروپ موجود ہیں جو لوگوں کا قتلِ عام کرتے ہیں‘ فوج گلی محلوں میں جا کر ان کی پیدا کردہ نفرت کو ختم نہیں کر سکتی ‘ یہ کام سول حکومت کو کرنا ہو گا‘ پاکستان سمیت دنیا بھر نے جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ہے صوبائی حکومت کا رویہ ان کے خلاف نرم ہے۔

دہشتگردی اور اس کی سرپرستی کے خاتمے کے لیے دوسال قبل نیشنل ایکشن پلان کا جرأت مندانہ اور منفرد اقدام اٹھایا گیا تھا‘ بلاشبہ یہ اقدام مستحسن بھی تھا اور پاکستان بھر کے عوام کی اُمنگوں کا ترجمان بھی، کہ ہم سب خون کے پیاسے دہشتگردوں سے کامل نجات چاہتے تھے‘ ان قاتل گروہوں نے بلااستثنیٰ پاکستان کے 60 ہزار سے زائد بیگناہ عوام اور 8 ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور افسروں کا خون بہایا‘ اغواء کاری کی جو لامتناہی وارداتیں ہوئیں، وہ اس کے علاوہ المناک اور شرمناک داستان ہے‘ دُنیا بھر میں پاکستان کا نام بدنام ہو رہا تھا، ایسے میں نیشنل ایکشن پلان کا ڈول ڈالنا مطلوب بھی تھا اور جان کو جوکھم میں ڈالنے کے مترادف بھی۔

سچی بات تویہ ہے کہ ہماری منتخب حکومت تو ملک و قوم کے لیے عذاب بننے والے ان دہشتگردوں کو لگام ڈالنے یا ان کے خلاف کوئی موثر قدم اٹھانے میں ناکام نظر آ رہی تھی‘ اعلان تو بہت ہوتے رہے لیکن ان کا عملی مظاہرہ سامنے آنے سے قاصر تھا‘ بس کمیٹیاں بننے اور مشاورتی اجلاس ہونے کی خبریں سامنے آتی تھیں‘ ایسی زبانوں کی کمی نہ تھی جو یہ کہنے سے دریغ نہیں کر رہی تھیں کہ اگر اے پی ایس پر حملہ نہ ہوتا تو شاید نیشنل ایکشن پلان بھی معرض عمل میں نہ آتا‘ ایسے سازشیوں اور بدباطنوں پر صرف ان للہ واناالیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ کالم میں ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر ہر زاویہ سے بحث کی تھی‘ اس مرتبہ یہی ضروری سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کی توسیع، کراچی میں بڑے اسکیل پر آپریشن کلین اپ، بلوچستان میں ضربِ عضبII کے آغاز اور افغان مہاجرین کی واپسی پر بھی بات ہونی چاہیے‘ یہی چار عوامل وطنِ عزیز میں امن کے ضامن ہیں‘ ایکشن پلان کے تحت ملٹری کورٹس کی بھی منظوری دی گئی اور ان کے بارے میں ہمارے ایک پونی ٹیل مقتدر سیاستدان نے فرمایا تھا کہ ہم نے دل پر جبر کر کے ان فوجی عدالتوں کے قیام پر ’’ہاں‘‘ کہی ہے اور یہ کہ اس فیصلے پر میرا دل رو رہا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان میں یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ دہشتگردوں پر عائد مقدمات ثابت ہونے پر انھیں فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائے موت دی جائے گی‘ اب تک مگر کتنے اس سزا سے گزر سکے؟ محض چند درجن! ابتدا میں سزائے موت پانے والوں کو جس طرح جرأت مندی سے پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لگتا تھا کہ یہ سلسلہ اسی طرح استقامت اور پامردی سے آگے بڑھے گا تا کہ ملک و قوم کو جہنم بنانے والے اپنے انجام کو بھی پہنچ سکیں اور ان کے سہولت کاروں پر بھی لرزہ طاری ہو سکے لیکن پھر یکدم سزا یافتگان کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے کا عمل رک گیا۔

کوئی نہیں جانتا کہ اس کے عقب میں کس کا ہاتھ بروئے کار آیا اور کیوں آیا؟ گزشتہ 4 برسوں میں وہ گرفتار دہشتگرد جنھیں مقدمات میں عدم پیروی اور ثبوتوں کے نہ ہونے پر بری کیا گیا، ان کی تعداد 14 ہزار بتائی جاتی ہے اور جنھیں عدالتوں سے ضمانتیں فراہم کی گئیں ان کی تعداد 11 ہزار کے قریب ہے، یعنی پھانسی پانے والوں کی تعداد چند درجن بھی نہیں لیکن وہ دہشتگرد جو بری ہو گئے اور ضمانت پا کر دوبارہ موجیں مار رہے ہیں ان کی مجموعی تعداد 52 ہزار ہے‘ یہ ہے ہمارا نیشنل ایکشن پلان! وہ ملٹری کورٹس جنہوں نے دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا، وہ اب کہاں ہیں؟

ہم نے کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر کرنے کے اقدامات نہیں کیے، اسلیے فوجی عدالتوں اور تحفظِ پاکستان ایکٹ میں کم از کم دو سال کی توسیع ضرور کرنی چاہیے‘ دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے تک فوجی عدالتوں کو قائم رکھنا چاہیے بلکہ اس کی شدت اور دائرہ اختیارات میں بھی اضافہ ہونا چاہیے‘ فوجی عدالتوں کو میعاد ختم ہونے کے بعد توسیع دی جانی چاہیے‘ فوجی عدالتیں بناتے وقت کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانے کی بات کی گئی تھی‘ حکومت نے کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے‘ اگر فوجی عدالتوں کو توسیع نہیں دی جاتی تو 20 سال بعد بھی دہشتگردوں کے رہا ہونے کا سلسلہ جاری رہیگا۔

وفاقی حکومت کو عدلیہ میں بہتر اصلاحات کرنا ہونگی‘ آپریشن اور فوجی عدالتوں کا دائرہ پنجاب تک بھی بڑھانا ہو گا‘ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے‘ جن لوگوں نے نئے آرمی چیف کے بارے میں جو حرکت کی وہ سب کو پتہ ہے‘ نوازشریف کے گورنر خیبرپختونخوا سیاسی انتظامیہ کے ساتھ ملکر فاٹا اصلاحات کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ گورنر خیبرپختونخوا نے نوجوان طالبعلم رہنما شوکت عزیز کو ایف سی آر کے خلاف نعرے لگانے پر ڈی سی او کے ذریعے تھری ایم پی او کے تحت غائب کروا دیا۔

عمران خان کو اپنے ڈی سی او سے اس بارے میں ضرور پوچھنا چاہیے‘ اس نااہلی کی ذمے دار یقینا ہماری وزارتِ داخلہ ہے‘ ایسے میں قوم کیسے حکمرانوں کے اخلاص پر یقین کر لے؟ کیسے مان لے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے علاوہ قوم کی جان و مال کا تحفظ بھی انھیں بیقرار رکھتا ہے۔ وزیرداخلہ کی پریس کانفرنسوں میں بھی عمل کا رنگ بھرا نہ جا سکا‘ ہم تو اس بارے ان سے صرف شکوہ ہی کر سکتے ہیں‘ کیا یہ ستم نہیں ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ نے پاکستان بھر کے اخباری مالکان کی تنظیم، اے پی این ایس، اور اخبارات کے ایڈیٹرز کی تنظیم، سی پی این ای، کو کبھی نیشنل ایکشن پلان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں بریف کرنے کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا؟

قبائلی علاقہ جات میں نیشنل ایکشن پلان کی بھرپور کامیابی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیپ کو کراچی میں پوری طاقت کے ساتھ لانچ کیا جاتا، بہ ایں ہمہ فاٹا کی طرز پر بلوچستان میں ضربِ عضب پارٹII کا آغاز کیا جاتا‘ حالانکہ ایکشن پلان میں بلوچستان سے دہشتگردی کے خاتمہ کی بطور ِخاص شق شامل کی گئی تھی‘ وعدے کے مطابق بلوچستان کو پوری طرح ’’ایمپاور‘‘ ہی نہیں کیا گیا‘ اس کوتاہی کی موجودگی میں اگر بدقسمتی سے بھارت بلوچستان میں فساد اور انارکی پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کرتا ہے اور یقینا کر رہا ہے تو اس کا بہانہ ہم بھی فراہم کر رہے ہیں۔

اس پلان کے مطابق لاریب شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف ہماری پاک فوج کو توقعات کے عین مطابق کامیابیاں ملی ہیں‘ اس کے لیے بیش بہا جانی اور مالی قربانیاں دی گئی ہیں‘ ضربِ عضب بھی اپنی منزل کی جانب کامیابی سے بڑھ رہا ہے لیکن ملک سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے میں کامیابی نہیںمل سکی‘ افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان میں اختلافات پائے جاتے ہیں‘ بعض نے افغانوں کی حمایت کی تو بعض نے مہاجرین کی واپسی تک مردم شماری نہ کرانے کا بھی مطالبہ کر دیا تاہم حکومت اپنے سلیپر سیلز برانڈ اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے باربار افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈلائن بڑھا دیتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت مہاجرین کی واپسی سے متعلق اپنی پالیسی پر کاربند اور انھیں واپس بھیجنے کے لیے پرعزم نہیں لگتی۔

اس حقیقت کے باوجود کہ افغان مہاجرین ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جن کو حساس اداروں نے گرفتار بھی کیا جب کہ بعض جماعتوں کی جانب سے ایسے افراد کی حمایت کی جاتی رہی جس سے کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں‘ پنجاب حکومت اور وفاق کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ افغان مہاجرین کو ہر صورت پاکستان سے بے دخل کر دیا جائے گا اور ایسے افراد جو کسی مسجد یا مدرسے میں پڑھا رہے ہیں یا امام مسجد ہیں انھیں بھی فوری طور پر ہٹایا جائے گا‘ اس کے پس منظر میں یہ بات ایک اجلاس میں سامنے آئی تھی کہ یہی وہ افراد ہیں جو ملک میں افراتفری پھیلانے اور نوجوان نسل کو ملک مخالف سرگرمیوں میں استعمال کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین کے خلاف منفی ایکشن کرینگے تو خیبرپختونخوا میں مسائل پیدا ہونگے جن کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا‘ سراج الحق نے کہا کہ افغانوں کے درمیان بہت زیادہ ناراضی پائی جاتی ہے جو کہ پاکستان کی ساکھ متاثر کر رہی ہے‘ اس پر وزارتِ داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا، ناراضی یہی ہے کہ ان کو پاکستان سے باہر نکالا جا رہا ہے اور یہ بہت ضروری ہے، جب یہ چلے جائینگے تو ملک میں معاملات مزید بہتر ہو جائیں گے‘ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو مہاجرین کی پالیسی بناتے وقت ایک پیچ پر ہونا چاہیے‘ جب تک افغان مہاجرین واپس نہیں جاتے اس وقت تک مردم شماری نہ کرائی جائے۔

کراچی میں بلاشبہ امن لانے اور بدعنوان عناصر کا ٹیٹوا دبانے میں نیشنل ایکشن پلان آگے بڑھا ہے لیکن اب سیکیورٹی فورسز میں نئی تبدیلیوں کے کارن بعض عناصر ان کامیابیوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں‘ ان کا انسداد کرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ نیشنل ایکشن پلان پوری طرح کامیابیوں سے ہمکنار ہوا ہے تو اس دعوے سے کم از کم ہم اتفاق نہیں کر سکتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس سلسلے میں عشرعشیر بھی کامیابی نہیں ملی تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ پچھلے دو برسوں میں اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت کا ایک دوسرے پر عدم اعتبار رہا ہے‘ اس کے جو نتائج نکل سکتے تھے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 2 برس مکمل ہو گئے مگر زخم ابھی تک تازہ اور سوال ہنوز باقی ہیں‘ سانحہ اے پی ایس نے ہی قومی قیادت کو دہشتگردوں کے خلاف حتمی لائحہ عمل طے کرنے پر آمادہ کیا تھا تا کہ کئی عشروں سے جاری دہشتگردی کو مکمل ختم کیا جائے‘ سانحہ پشاور میں ملوث دہشتگردوں کو تو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا گیا لیکن اس سانحہ میں غفلت برتنے والوں کے حوالے سے کوئی رپورٹ ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی ہے‘ آج تک ان ذمے داران کا تعین نہیں کیا گیا جن کی ذمے داری دہشتگردی کے اس حملے کو ناکام بنانا تھی‘ خیبرپختونخوا کی بنائی گئی کمیٹی نے سب کو کلین چٹ دیدی اور کسی افسر کا احتساب نہیں ہوا‘ سانحہ اے پی ایس میں قربانی دینے والے بچوں کے والدین آج بھی انصاف مانگ رہے ہیں‘ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل کیا گیا؟

اس کا اندازہ سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں نیپ پر عملدرآمد اور وزارتِ داخلہ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں‘ نیشنل ایکشن پلان کے جزوی عملدرآمد سے بھی ملک میں جاری دہشتگردی میں واضح کمی آئی ہے لیکن اس کی کئی شقیں اب بھی عملدرآمد کی منتظر ہیں‘ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے جانے والے کمیشن کی رپورٹ جو عدالت کے توسط سے منظرعام پر آئی‘ بلاشبہ نہایت سنگین اور فوری توجہ طلب انکشافات و نتائج پر مبنی ہے۔

8 اگست کو پیش آنیوالے دہشتگردی کے ہولناک واقعہ کی تحقیقات میں اطمینان بخش پیشرفت نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 6 اکتوبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے 54 دنوں میں تحقیقات مکمل کر لی‘ کمیشن کے مطابق سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزرائے داخلہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے غلط بیانی سے کام لیا ہے‘ رپورٹ میں وزارتِ داخلہ کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے کہاگیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں وزارتِ داخلہ کو اپنے کردار کاعلم ہی نہیں‘ وزارتِ داخلہ کنفیوژن اور قیادت کے فقدان کا شکار ہے‘ وزارت کی افسرشاہی وزیرداخلہ کی خوشامد میں لگی ہوئی ہے‘ نیشنل ایکشن پلان پر نہ تو عمل ہو رہا ہے نہ اس کے مقاصد کو پیش نظر رکھا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں وزیر داخلہ کو نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیاگیا ہے اور ساڑھے 3 سال میں اس ادارے کا صرف ایک اجلاس بلائے جانے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی سلامتی پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا جب کہ قومی لائحہ عمل کے اہداف کی مانیٹرنگ بھی نہیں کی جاتی۔ کمیشن نے اس امر کی نشاندہی بھی کی ہے کہ سانحہ سول اسپتال کوئٹہ کی ذمے داری جنداللہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کیے جانے کے باوجود اسے کالعدم نہیں قرار دیا گیا جب کہ وفاقی وزیر داخلہ نے احمد لدھیانوی کی تنظیم کے اسلام آباد میں جلسے میں کوئی قباحت تصور نہ کر کے ملکی قوانین کی توہین کی۔

رپورٹ میں حکومت کو دہشتگردوں کے خلاف متبادل بیانیہ تیار کرنے اور پھیلانے میں مکمل طور پر ناکام قرار دیا گیا ہے‘ کمیشن کے مطابق سول اسپتال کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائی کے بعد جائے وقوعہ کا فرانزک تجزیہ بھی نہیں کرایا گیا اور صوبے کے پولیس سربراہ بھی حملے کے بعد کیے جانے والے بنیادی اقدامات سے بھی لاعلم نکلے۔

رپورٹ میں حکومتِ بلوچستان کی کارکردگی پر بھی سخت گرفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت میں اقرباپروری کا کلچر عام ہے اور کم از کم چار سیکریٹریوں کو غیرقانونی طور پر تعینات کیا گیا ہے‘ دہشتگردی کی وارداتوں کے بار بار پیش آنے کا ایک بڑا سبب کمیشن کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اقرباپروری کا یہی کلچر ہے جس کی بناء پر نااہل افراد اہم مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔

کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ دہشتگردی کا شکار ہونیوالوں کے لواحقین کو فوری معاوضہ ادا کیا جائے‘ دہشتگرد تنظیموں کے بیانات نشر کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کی جائے‘ انسداد دہشتگردی ایکٹ کو موثر طور پر نافذ کیا جائے‘ تمام کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی فہرستیں خفیہ ایجنسیوں کی ویب سائٹس پر آویزاں کی جائیں‘ عوام کا ان ایجنسیوں سے رابطہ آسان بنایا جائے تا کہ وہ دہشتگردوں سے واقف بھی ہو سکیں اور ان کی نشاندہی میں معاونت بھی کر سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کا ڈیٹا جمع کرنا نیکٹا کاکام ہے مگر اب تک یہ کام شروع ہی نہیں ہوا لہٰذا نیکٹا کو اس کے لیے فوری طور پر متحرک کیا جائے۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے نیپ پر عملدرآمد کے لیے کمیٹی بنائی جسکا سربراہ مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کو بنایا گیا‘ کمیشن نے ناصر جنجوعہ کو خط لکھ کر سوال پوچھا کہ کیا دہشتگردی کا مقابلہ آپ کے مینڈیٹ میں آیا ہے؟ تو مشیر قومی سلامتی کا جواب تھا کہ دہشتگردی کا مقابلہ یا اقدامات براہِ راست ان کے مینڈیٹ میں نہیں آتے‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبائی حکومت کے تحت آتا ہے‘ میں بطور مشیر قومی سلامتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کرتا ہوں جس پر وزارتِ داخلہ، نیکٹا، سول وآرمڈ فورسز اور صوبائی قانون نافذ کرنیوالے ادارے عملدرآمد کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون کے تحت دہشتگردوں و مشتبہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرنا نیکٹا کاکام ہے‘ نیکٹا نے ابھی تک ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا، اسے متحرک کیا جائے‘ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ یہ حساس نوعیت کی رپورٹ ہے اس لیے اسے خفیہ رکھتے ہوئے پبلک (عام) نہ کرنے کا حکم جاری کیا جائے تاہم فاضل عدالت نے ان کی استدعا مسترد کر دی اور چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی چیز کو خفیہ نہیں رکھ سکتے‘ فریقینِ مقدمہ کی استدعا پر فاضل عدالت نے رپورٹ کی کاپیاں تمام فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتہ تک ملتوی کر دی‘ بطور جج یہ چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کا آخری کیس تھا‘ کمیشن نے اپنی فائنڈنگز میں کہا ہے کہ خودکش بمبار اور اس کے ساتھی کی شناخت کے لیے بھی کمیشن کو مداخلت کرنا پڑی۔

پولیس کو ہدایت کی کہ مزید معلومات کے لیے ان کی تصویریں اخبار میں شایع کرا کر اس پر انعام کا اعلان کیا جائے‘ اس کے نتیجے میں ایک مخبر نے خودکش بمبار اور اس کے ساتھیوں کی شناخت کے بارے میں اطلاع دی‘ یہ ان دہشتگردوں کا پہلا حملہ نہیں تھا، اگر حکومتی ادارے پہلے ہونیوالے حملوں کی فرانزک جانچ کرتے اور صحیح طریقے سے کیسوں میں پیشرفت کرتے تو 8 اگست 2016ء کا واقعہ روکا جا سکتا تھا‘ کمیشن کے مطابق اس حوالے سے 2012ء دہشتگردی کیس کے فیصلے کا تاحال نفاذ نہیں ہو سکا۔

اوپر سے احتساب شروع کیے بغیرموجودہ حالات میں تبدیلی ناممکن ہے‘ دہشتگردوں کے اس پراپیگنڈہ کا جواب دینے کے لیے عوام کو موقع دیا جائے‘ اگر پاکستان کو ایک پرامن، بین المذہب ہم آہنگی اور رواداری کا مرکز بنانا ہے جہاں لوگ قوانین پر عمل کریں اور ان کا احترام کریں‘ ہمیںقوانین اور آئین کو دوبارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے‘ ریاست کو نفرت اور قتل کرنیوالوں سے خودکو نکالنے کے لیے پھر سے زور لگانا ہو  گا‘ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا حل بالکل سیدھا سا ہے کہ قوانین کا احترام اور عملدرآمد یقینی بنایا جائے جیسا کہ اے ٹی اے، نیکٹا ایکٹ، پاکستان پینل کوڈ اور سب سے بالا آئینِ پاکستان ہے‘ قانون ہوتے ہوئے ان کا نفاذ نہ کرنا قابلِ نفرت عمل ہے۔

اے ٹی اے کا فوری نفاذ کر کے دہشتگردوں اور ان کی تنظیموں کو بلا کسی تاخیر کے کالعدم قرار دیا جائے‘ انکو اجلاسوں کی اجازت بھی نہ دی جائے‘ کالعدم تنظیموں کے ارکان ہونے کے دعویداروں کے خلاف اے ٹی اے کے تحت کارروائی کی جائے‘ افراد یا تنظیموں کے کالعدم ہونے سے متعلق پاکستان کے تمام شہریوں کو جاننے کی ضرورت ہے‘ دہشتگردوں کی کارروائیوں اور جہاں جہاں انھوں نے دعویٰ کیا ہے اس کی فہرست بنائی جائے‘ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ کالعدم تنظیموں اور افراد کے نام وزارتِ داخلہ، نیکٹا، وزارت ِاطلاعات، سیفران اور تمام صوبائی داخلہ کے محکمہ جات کی ویب سائٹس پر انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں ڈالے جائیں اور اس کی بھرپور تشہیر کی جائے‘ اس فہرست میں کسی بھی قسم کے اضافے کاعوام میں اعلان کیا جائے۔

اے ٹی اے کے تمام سرکاری اداروں میں بھی نافذالعمل کیے جانے کی ضرورت ہے اور یہ ادارے ان کالعدم تنظیموں کا کسی قسم کا ساتھ نہ دیں‘ منافقت کا خاتمہ، قومی پالیسی کا قومی سطح پر اسٹریم لائن کیا جانا انتہائی ضروری ہے‘ تمام سرکاری ملازمین اس پر عمل کریں، بصورت دیگر نتائج کا سامنا کریں‘ کمیشن کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے آئی ایس آئی کی طرف سے اہم معلومات کا دیا جانا انتہائی ضروری ہے لیکن حیران کن طور پر مشکوک اور دہشتگردی سے متعلق کارروائیوں پر معلومات کے حصول کے لیے اس سے رابطہ ناممکن ہے‘ آئی ایس آئی کی کوئی ویب سائٹ، ای میل، ایڈریس یا فون نمبر نہیں۔

کمیشن کے مطابق کیا دوسرے ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اسی طرح پہنچ سے دُور ہیں‘ سی آئی اے، ایف بی آئی، این ایس اے نے اپنی ویب سائٹس پر رابطے کے لیے معلومات دے رکھی ہیں‘ اسی طرح ایم آئی فائیو، ایس آئی ایس، نیکٹسو اور سی ٹی سی نے بھی اپنی ویب سائٹس پر رابطہ کی معلومات دے رکھی ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ تو آج منظرعام پر آئی ہے مگر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت تو چوہدری نثار کو کالعدم تنظیموں سے نرم رویہ رکھنے پر کب سے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تاہم دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کو جن کالعدم تنظیموں کی قیادت کے ساتھ چوہدری نثار علی خان کی ملاقاتوں پر اعتراض ہے‘ ماضی میں پیپلزپارٹی انھی کالعدم تنظیموں کی قیادت سے ملاقاتیں کرتی رہی اور ان سے ووٹ بھی لیتی رہی۔

مولانا اعظم طارق نے اپنی کتاب ’’میرا جرم کیا ہے؟‘‘ میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے‘ وہ لکھتے ہیں کہ نومبر1993ء میں صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو نوازشریف نے اپنے امیدوار وسیم سجاد کے لیے اور آصف زرداری نے اپنے امیدوار فاروق لغاری کے لیے ان سے ووٹ مانگے‘ اس موقع پر پیپلزپارٹی اور متحدہ دینی محاذ میں ایک تحریری معاہدہ ہوا جس پر مولانا اعظم طارق، مولانا سمیع الحق اور مولانا شہید احمد نے دینی محاذ کی طرف سے جب کہ فاروق لغاری، آصف زرداری اور آفتاب شیرپاؤ نے پیپلزپارٹی کی طرف سے دستخط کیے۔

اس معاہدے کے ضامن وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو تھے جو جونیجو لیگ میں شامل تھے اور اعظم طارق کی جماعت پیپلزپارٹی کے ہمراہ پنجاب حکومت کاحصہ بن گئی تاہم سردست ہمارا مسئلہ پیپلزپارٹی کا ماضی نہیں بلکہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے سانحہ کوئٹہ پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کرنا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ نوازشریف کے کچھ ساتھی ایک دفعہ پھر انھیں عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ چوہدری نثار نے ایک ایسے جج کی تحقیقاتی رپورٹ کو یکطرفہ قرار دیا جس کی دیانت کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ اس میں صوبائی حکومت اور کچھ وفاقی اداروں کی خامیوں کی نشاندہی ضرور کی گئی ہے لیکن اس رپورٹ میں دہشتگردی کے مقابلے کے لیے ایک نظریاتی راستہ بھی تجویز کیا گیا جو کسی بھی صورت میں مینڈیٹ سے تجاوز نہیں ہے‘ وزیرداخلہ نے اپنے اختلاف کے حق کو جس شاہانہ تمکنت سے استعمال کیا ہے وہ رعونت ایک ایماندار جج کی قلندرانہ شان میں مزید اضافہ کریگی‘ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ایماندار ججوں سے محاذآرائی کے بجائے کمیشن کی رپورٹ کو غور سے پڑھیں اور جن غلطیوں و خامیوں کی نشاندہی اس میںکی گئی ہے ان کا دفاع کرنے کے بجائے، انھیں دُور کر کے پاکستان کے مستقبل کی فکر کریں۔

ہماری نظر میں تو اس رپورٹ کی تشکیل پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ داد و تحسین کے مستحق ہیں! فی الوقت تو نیپ کے دائرہ کار سے متعلق کی گئی جسٹس فائز عیسیٰ کی چشم کشا نشان دہیوں پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سانحہ کوئٹہ رپورٹ نے نیشنل ایکشن پلان کا پول کھول کر رکھ دیا ہے‘ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ابھی جاری ہے اور آیندہ سماعتوں میں یقینا پوری رپورٹ زیرغور آئیگی، تب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوبھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ضرور ملے گا تاہم حکومتی سطح پر فوری طور پر رپورٹ میں بیان کردہ سنگین کوتاہیوں کے ازالے کا اہتمام کیا جانا بھی لازم ہے‘ اور اگر رپورٹ میں کوئی بات سہواً درست نہیں ہے تو حقائق سامنے لا کر بلاتاخیر اس کی وضاحت بھی کی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔