طیبہ کے ساتھ لاکھوں دوسرے بچے بھی خطرے میں ہیں

شاہد کاظمی  جمعـء 6 جنوری 2017
طیبہ تو چھپے ہوئے آئس برگ کی ایک ٹپ ہے۔ لیکن اگر تھوڑی ہمت ہے تو کبھی ہوٹلوں اور موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی ورکشاپس میں دیکھیے جہاں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ کام سیکھنے کے لیے گالی سہنا لازم ہے۔ فوٹو: فائل

طیبہ تو چھپے ہوئے آئس برگ کی ایک ٹپ ہے۔ لیکن اگر تھوڑی ہمت ہے تو کبھی ہوٹلوں اور موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی ورکشاپس میں دیکھیے جہاں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ کام سیکھنے کے لیے گالی سہنا لازم ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں وہ کونسا شعبہ جہاں معصوم بچوں اور مستقبل کے معماروں سے زبردستی کام نہیں لیا جارہا؟ اینٹوں کی صنعت سے لیکر قالین سازی، کوئلے کا کاروبار، کپاس کی چنائی، چوڑیاں بنانا، چمڑے کی صنعت، آلات جراحی بنانا، شوگر مل، گندم کی بوائی، کٹائی اور گوداموں میں پہنچانے اور دیگر کئی طرح کے کاموں تک بچوں سے مشقت کروائی جاتی ہے۔ اینٹوں کے بھٹے، کوئلہ، قالین، کپاس، شوگر ملز اور گندم کے کام میں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے جبکہ آلات جراحی، چمڑے اور چوڑیوں کے کاروبار میں بچوں یا اُن کے والدین کی مرضی سے مشقت کروائی جا رہی ہے۔

امریکہ کی وزارت محنت کے بعض اعداد و شمار کے مطابق چائلڈ لیبر کی بعض اقسام تو ایسی ہیں جن میں پاکستان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ جیسے کہ آلات جراحی بنانے میں بچوں کی مشقت کے حوالے سے صرف پاکستان کا نمبر ہے، کیونکہ پاکستان کے آگے پیچھے اور کوئی ملک نہیں ہے۔ سپارک ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جس کے زیرِ اہتمام کراچی میں پاکستان سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عنوان پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں یہ خوفناک انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان چائلڈ لیبر کے حوالے سے موریطانیہ اور ہیٹی جیسے ممالک کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اِس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں چائلڈ لیبر کی شرح ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں دن بدن کم ہو رہی ہے، مگر پاکستان میں اقدامات کے باجود مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔

گزشتہ روز ایڈیشنل سیشن جج کے گھر سے ملنے والی معصوم بچی طیبہ کا کیس میڈیا کی زینت بننے سے ایک طوفان سا برپا ہوگیا ہے۔ حیرانگی اِس بات پر ہو رہی ہے کہ طیبہ پر ہونے والے ظلم پر واویلا کرنے والے ناجانے اِس حوالے سے خطرناک ترین حقیقت کو نظر انداز کرکے صرف اِس ایک واقعے تک خود کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ راقم نے مثال کے طور پر ایک محدود علاقے میں نظریں دوڑائیں تو 10 سے زیادہ ایسے مقامات نظروں کے سامنے آئے جہاں کم عمر بچے مشقت کرتے پائے گئے۔ لیکن صورت حال صرف مشقت تک محدود نہیں ہے بلکہ اِس سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے ہم سب بے پر کی اُڑانے کے ماہرہیں۔

ہم ہر بچے کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو چائلڈ لیبر کا رونا ڈال دیتے ہیں حالانکہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی وضح کردہ تعریف کے مطابق بچوں کا کام کرنا کسی بھی طرح سے چائلڈ لیبر کے ضمرے میں نہیں آتا۔ یاد رہے ILO اقوام متحدہ کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اِس ادارے کی بیان کردہ تعریف کے مطابق

’ایسا کوئی بھی کام جس سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما، تعلیم، صحت متاثر نہ ہو وہ چائلڈ لیبر کے ضمرے میں نہیں آتا، اور نہ ہی ایسا کوئی کام چائلڈ لیبر قرار دیا جا سکتا ہے جس میں بچے اپنا خرچ یا اپنے خاندان کے چھوٹے کاروبار یا اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہے ہوں‘

یعنی سادہ الفاظ میں بچوں سے اُن کا بچپن چھین لینا چائلڈ لیبر ہے۔

طیبہ تو چھپے ہوئے آئس برگ کی ایک ٹپ ہے۔ لیکن اگر تھوڑی ہمت ہے تو کبھی ہوٹلوں میں جھانکیے، چوراہوں پر دیکھیے، موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی ورکشاپس میں دیکھیے جہاں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ شاگردی میں آنے کے لیے ماں بہن کی گالی سہنا لازم ہے، اور بچے مجبوری میں یہ سب کچھ سہتے بھی ہیں۔ کسی مکینک کی دکان پر دیکھیے، کسی کباڑ خانے میں دیکھیے، کیسے بچپنا چھینا جا رہا ہے۔ چائے لینے بھیجنا ہے تو ایک بھاری گالی دے کر مخاطب کیا جاتا ہے اور بچہ دوڑ کر جاتا ہے۔ ابے تیری ماں کی۔۔۔ اتنے نمبر کی چابی پکڑا ذرا، چابی پکڑاتے ہوئے وہ جوانی میں قدم رکھنا شروع کردیتا ہے چاہے عمر آٹھ سال ہی کیوں نہ ہو۔ اوئے چھوٹے تیری بہن کی۔۔۔ جا ذرا دودھ پتی کا آرڈر دے آ۔ دودھ پتی کا آرڈر دینے کے ساتھ وہ اپنے بچپن کو بھی وہیں رکھ آتا ہے کیوںکہ اُسے بچپن میں بڑا ہونا ہے۔ ارے تو میسنی، کسی ۔۔۔۔ کی اولاد ۔۔۔ یہ جھاڑو لگانے کا طریقہ ہے؟ ہڈ حرام، تجھ سے اتنا سا کام نہیں ہوتا؟ ایسا کچھ ان ننھی کلیوں کے ساتھ ہر دوسرے گھر میں برتاو کیا جاتا ہے جنہیں ماں باپ یا تو مجبوری کی وجہ سے بڑے گھروں میں کام کاج کے لیے چھوڑ جاتے ہیں یا پھر لاوارث کلیاں ایسے گھروں کے کام کاج کے لیے پہنچتی ہیں۔

مجھے طیبہ سے اتنی ہی ہمدردی جتنی آپ کو ہے، سچ پوچھیں تو اُس معصوم بچی کے لیے دل آج بھی رو رہا ہے، مگر گزارش اور درخواست یہ ہے کہ اپنی توجہ صرف اِس ایک کیس تک محدود نہ رکھیں، کیونکہ یہ ایک ایسے آئس برگ کی ظاہری ٹپ ہے جو صرف ہمیں نظر آرہی ہے۔ اصل المیہ اِس سے کہیں زیادہ اور پوشیدہ ہے جو کسی بھی معاشرے کو ڈبونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نقصان بھی ایسا کہ جس کا ازالہ نہ ہوپائے گا۔ گھروں میں، ورکشاپس میں اور دیگر جگہوں پر کام کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا سہارا بننے والے بچوں کو اگر آپ جسمانی، ذہنی، تعلیمی لحاظ سے اچھا ماحول دے رہے ہیں تو اُن کے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہر بچے کو چائلڈ لیبر کا نام نہ دیجیے، بلکہ اپنا کردار ادا کیجیے اور کام کرنے والے بچوں کو اچھا ماحول دیجیے۔ ورنہ یہ خراب ماحول کا شکار ہونے والے بچے کل کو معاشرے کا ناسور بن جائیں گے اور تعمیر کے بجائے تخریب کی طرف مائل ہوجائیں گے۔ کیوںکہ اُن کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہوجائے گا کہ آگے بڑھنے کے لیے بُری زبان، بُرا کردار اور بُرا لہجہ لازم ہے، اور خدانخواستہ اگر یہ سوچ نئی نسل میں پروان چڑھ گئی تو ہم طیبہ سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔