کھانا نہیں ملتا بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے، بھارتی فوجی نے اپنی ہی فوج کی پتلی حالت بتادی

ویب ڈیسک  پير 9 جنوری 2017
اناج کے اسٹور بھرے ہوئے ہیں لیکن اعلیٰ افسران سب مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں، فوجی اہلکار کا ویڈیو بیان تصویر؛ فیس بک ویڈیو اسکرین شاٹ

اناج کے اسٹور بھرے ہوئے ہیں لیکن اعلیٰ افسران سب مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں، فوجی اہلکار کا ویڈیو بیان تصویر؛ فیس بک ویڈیو اسکرین شاٹ

جموں و کشمیر: بھارتی آرمی چیف پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی بھونڈی باتیں کرنے سے نہیں تھک رہے لیکن ان کی اپنی فوج کی حالت اتنی پتلی ہے کہ گھر کے بھیدی نے ہی ان کی لنکا ڈھاتے ہوئے تمام داستان سنادی جس میں اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ہلدی اور نمک کی دال ملتی ہے اور کئی مرتبہ تو بھوکے پیٹ ہی سونا پڑتا ہپے۔

سوشل میڈیا پر بھارتی سیکیورٹی فورس ( بی ایس ایف)  کے ایک اہلکار تیج بہادر یادیو نے اپنی فوج اور اعلیٰ افسران کا راز بھی افشا کردیا ہے۔ سرحدوں پر تعینات فوجی نے اپنی ابتر حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم صبح 6 سے شام 5 بجے تک قریباً 11 گھنٹے تک برف میں کھڑے رہتے ہیں۔

فوجی اہلکار نے اپنے ادارے کی جانب سے ناقص ترین انتظامات اور افسران کا کچا چٹھا کھولتے ہوئے ویڈیو دکھائی جس میں صبح کا ناشتہ نظر آرہا ہے اور اس ناشتے میں صرف ایک چپاتی اور چائے کا ایک کپ واضح دیکھا جاسکتا ہے۔ اہلکار نے اس کے بعد دوپہر میں دی جانے والی دال کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اس میں صرف ہلدی اور نمک ملاہوتا ہے، نہ ہی اچار اور کوئی سبزی کھانے کو ملتی ہے، جب کہ ایسا کھانا کھا کر ہم ٹی بی سے مرجائیں گے۔

بھارتی اہلکار نے کہا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے با اختیار ادارے  ہم سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جب کہ ہمیں حکومت سے کوئی شکایت نہیں وہ تو سب کچھ فراہم کرتی ہے لیکن سینئر فوجی افسران تمام کھانا فروخت کرکے اس کی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور ہم تک کچھ نہیں پہنچتا۔ تیج بہادر کا کہنا تھا کہ اناج کے اسٹور بھرے ہوئے ہیں لیکن ہر شے مارکیٹ میں بیچ دی جاتی ہے، فوجیوں کا کھانا کون فروخت کررہا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

بھارتی فوجی اہلکار نے مزید بتایا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات ہے اور اس کا مقصد صرف بی ایس ایف کی کرپشن سے آگاہ کرنا ہے۔ ویڈیو میں تیج بہادر نامی اس بھارتی فوجی اہلکار کو ایک رائفل کے ساتھ کسی برفانی علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔