انتخابی اصلاحات اور افغان سرحد پر ویزا کا فیصلہ

ایڈیٹوریل  بدھ 8 فروری 2017
  فوٹو؛ پی آئی ڈی

فوٹو؛ پی آئی ڈی

منگل کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 33 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا جس میں وفاقی کابینہ نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی سفارشات اور افغان مہاجرین کے لیے واپسی کی پالیسی کی منظوری دی ہے۔ کابینہ نے غیر ملکی قرضوں پر واجب الادا سود کی رقم پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری کے علاوہ ورکنگ باؤنڈری کے متاثرین کے معاوضوں، پاکستان اور روس کے درمیان عسکری تربیتی معاہدے کے مسودے پر مذاکرات شروع کرنے، کمیٹی برائے توانائی، ای سی سی اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے فیصلوں کی بھی منظوری دی گئی۔

افغان سرحد پر امیگریشن کے قوانین نافذ کیے جانے اور آمد و رفت کو ویزا سے مشروط کرنے کا جو صائب فیصلہ کیا گیا ہے وہ مستقبل میں خوش کن نتائج کا حامل ہوگا۔ اس سے پیشتر افغان سرحد سے بلاروک ٹوک آمد و رفت کے سنگین نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑے ہیں، افغانستان سے بلاتخصیص مہاجرین کی آمد نے جہاں ایک طرف کثیر جہتی مسائل پیدا کیے وہیں دہشت گردی و لاقانونیت کا عنصر بھی ملک میں داخل ہوا۔

واضح رہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک عرصے سے ہر فورم پر آواز اٹھائی جا رہی تھی اور سال گزشتہ دسمبر 2016 ء تک مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی جسے بعد ازاں افغان مہاجرین کی مجبوریوں کے پیش نظر بڑھا دیا گیا تھا، لیکن صائب ہوگا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں افغان مہاجرین کی واپسی کو بتدریج ممکن بنایا جائے، کیونکہ مہاجرین کی آمد سے نہ صرف ملک پر معاشی بوجھ قائم ہوا بلکہ امن و امان کے سلسلے میں جو ہشت پہلو مسائل سامنے آئے اس کے مضمرات سے قوم اب تک مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائی ہے۔ کابینہ میں پیش کیے گئے بل کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے دسمبر 2017 ء تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے، اس عرصے میں ان کی رجسٹریشن مکمل کرنے کے لیے وزارت داخلہ اقدامات کرے گی، افغان سرحد پر امیگریشن قوانین کا نفاذ اور ویزا کی شرط کچھ انہونی بات نہیں، کیونکہ ہر ملک میں سرحدی قوانین نافذ کیے جاتے ہیں، راست ہوگا کہ جو مہاجرین پاکستان میں بس چکے ہیں انھیں بھی اس ویزا پروسیس سے گزارا جائے۔

یہ بھی خوش آیند فیصلہ ہے کہ پارلیمنٹ کو افغان مہاجرین کی واپسی کا نگران بنا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب انتخابی معاملات میں پھیلے اسقام کی درستی اور مستقبل میں ممکنہ تنازعات سے نمٹنے کی خاطر بھی مستحسن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں وزیر قانون نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی سفارشات کی منظوری دی۔ الیکشن کمیشن کو انتظامی اور معاشی طور پر خودمختاری دینے کی منظوری دی ہے۔ الیکشن میں مس کنڈکٹ پر اتھارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ضروری کارروائی نہیں ہوسکتی تھی، اب الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے اختیار حاصل ہوں گے۔ الیکشن کمیشن انتخابات سے 6 ماہ پہلے تفصیلی اور جامع انتخابی پلان تیار کرے گا جسے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ کسی بھی اعتراض کا پہلے ہی جائزہ لیا جاسکے۔

اب امیدوار اور جماعتیں کسی غلط کارروائی کے حوالے سے شکایت کرسکیں گے۔ یہ بھی ایک صائب فیصلہ ہے کہ جیسے ہی نادرا کوئی نیا شناختی کارڈ جاری کرے گا تو الیکشن کمیشن اس کا اندراج انتخابی فہرست میں کرے گا۔ جب کہ ہر انتخابات پر حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات کا سدباب کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر 10 سال بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ ہر پولنگ اسٹیشن ایک کلومیٹر کی حد میں ہوگا، حساس پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے لگائے جائیں گے، اگر جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے درمیان 5 فیصد یا  10 ہزار سے کم فرق ہو تو دوبارہ گنتی لازمی ہوگی۔ معذور افراد پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔

سیاسی جماعتوں کے اندراج کے طریقہ کار کو مزید سخت کردیا گیا ہے، ایک دو لوگوں کی حامل جماعتوں کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کا بوجھ کم ہوگا اور کسی بھی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے اس کے کارکنان کی تعداد کا تناسب مقرر کردیا گیا اور فیس بھی بڑھا دی گئی ہے۔ کابینہ اجلاس میں براہ راست انتخابات میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے لیے ہر جماعت پر خواتین کے لیے 5 فیصد کوٹہ مختص کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، اس طرح نہ صرف پارلیمنٹ میں خواتین کی معقول شمولیت ہوسکے گی بلکہ خواتین کے مسائل کی نمایندگی بھی پارلیمنٹ میں بہتر انداز سے کی جاسکے گی۔

اسی طرح بل کے مطابق انتخابات میں خواتین کے کم سے کم 10 فیصد ووٹ پول ہونا ضروری ہوگا تاکہ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں میں خواتین ووٹروں کو ووٹ سے روکنے کے کسی ممکنہ غیر قانونی معاہدے کی روک تھام ہوسکے۔ یہ بات گزشتہ انتخابات میں بھی رپورٹ کی جاچکی ہے کہ قدامت پرست اور قبائلی علاقوں کی پروردہ سیاسی جماعتیں اب بھی خواتین کے ووٹ کی مخالف ہیں، بلکہ اس نکتے کے بعد ایسی جماعتوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی  جو انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت بہ جبر رکواتی آئی ہیں۔ کابینہ اجلاس میں منظور کی جانے والی حالیہ سفارشات پر عمل کے بعد افغان مہاجرین اور انتخابی عمل کے معاملات بخوبی حل ہوتے نظر آرہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔