متعصبانہ اقدامات ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے پڑ گئے

سید بابر علی  اتوار 12 فروری 2017
تنقید سے مظاہروں اور استعفوں تک امریکی صدر کو احتجاج کا سامنا۔ فوٹو: فائل

تنقید سے مظاہروں اور استعفوں تک امریکی صدر کو احتجاج کا سامنا۔ فوٹو: فائل

امریکی تاریخ کے سب سے متنازعہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی کچھ ایگزیکٹیو آرڈرز پر دستخط کیے، جن کے ذریعے میکسیکو اور امریکا کے درمیان سرحدی دیوار کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا اور سات مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق یہ حکم نامے پینٹاگون میں وزیر دفاع جمیز میٹس کی تقریب حلف برادری کے فوراً بعد جاری کیے گئے۔ غیرقانونی تارکین وطن اور مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 4 ماہ کے لیے معطل کردیا گیا ہے۔

پابندی کا شکار ممالک میں لیبیا، عراق، ایران، سوڈان، صومالیہ، یمن اور شام شامل ہیں، جن کے شہریوں کو تین ماہ تک امریکی ویزے بھی جاری نہیں کیے جائیں گے، جب کہ اس ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت شامی مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

نومنتخب امریکی صدر کے ان متعصبانہ اقدامات نے امریکا میں ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے اور ملک بھر میں ایک بار پھر ٹرمپ مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ گذشتہ ماہ ایک امریکی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا،’’ہم ایسے تمام افراد پر پابندی لگادینا چاہتے ہیں جو دہشت گرد ہیں اور وہ آسان امریکی امیگریشن قوانین کی بدولت امریکا میں داخل ہورہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغانستان، پاکستان اور سعودی عرب سے آنے والی ویزا درخواستوں کی بھی کڑی جانچ پڑتال کے بعد ہی ویزا جاری کریں گے، اور معمولی سے شک کی بنیاد پر بھی ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سیکڑوں تارکین وطن کو امریکی ہوائی اڈوں پر روک لیا گیا جب کہ کچھ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

اس پابندی کا شکار ان ممالک کے گرین کارڈ رکھنے والے ہزاروں افراد بھی ہوئے ہیں۔ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیوریٹی کی ترجمان گیلیان کرسٹینسن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کا گرین کارڈ رکھنے والے افراد پر بھی اس پابندی کا اطلاق ہوگا۔ ترجمان کے مطابق امریکی پناہ گزین پروگرام معطل کرنے اور شام سے آنے والے پناہ گزینوں پر تاحکمِ ثانی پابندی کا مقصد ’انتہاپسند مسلمان دہشت گردوں کا امریکا میں داخلہ روکنا ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے بھی امریکی صدر سے اپنے حکم نامے پر نظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ جنگ کے ستائے لاچار لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکم جاری ہونے کے بعد امریکا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر 2 ہزار سے زاید افراد نے مظاہرہ کیا، جب کہ دنیا بھر میں بھی اس فیصلے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس حکم نامے کے بعد سے اب تک 60 ہزار ویزوں کو معطل کیا جا چکا ہے۔

یکے بعد دیگرے متنازعہ فیصلے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے حکم نامے نے بھی ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ امریکی صدر اس ایگزیکٹیو آرڈر میں نہ صرف دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے لینے بل کہ ان غیرقانونی تارکین وطن کا گڑھ سمجھے جانے والے امریکی شہروں کی فنڈنگ روکنے کے احکامات پر بھی دستخط کیے ہیں۔

ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکا اور میکسیکو کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی ہے۔ میکسیکو کے صدر ایزک پینا نے احتجاجاً اپنا دورہ امریکا منسوخ کرتے ہوئے قوم سے خطاب میں سرحدی دیوار بنائے جانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت منقسم نہیں متحد ہونے کا ہے، لیکن ٹرمپ کی پالیسی امریکا کو دنیا بھر میں تنہائی کا شکار کردے گی۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم میں ان کا ایک اہم انتخابی نعرہ میکسیکو کی سرحد پر 2000 میل طویل دیوار تعمیر کرنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19جون2015کو نیویارک میں تقریر کے دوران میکسیکو اور امریکا کے درمیان سرحدی دیوار بنانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اچھے لوگوں کو امریکا نہیں بھیجتا۔ وہ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو ان کے لیے دردسر بنے ہوئے ہیں، اور وہ لوگ اپنے تمام مسائل کے ساتھ آکر ہمارے لیے بھی مسئلے پیدا کرتے ہیں۔ وہ جرائم پیشہ اور ریپسٹ ہیں۔‘‘

دستخط کے موقع پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کوئی ملک سرحد کے بغیر نہیں ہوتا اور اس فیصلے سے امریکا اپنی سرحدوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دیوار کی تعمیر کا تخمینہ 8ارب ڈالر ہے جو کہ میکسیکو ادا کرے گا۔ تاہم اس رقم کے لیے ایک طریقۂ کار وضع کیا جائے گا جس کے تحت ہم میکسیکو سے درآمدات پر بیس فی صد ڈیوٹی عاید کریں گے جس سے ہونے والی آمدنی اس دیوار کی تعمیر میں استعمال ہوگی۔

٭ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

٭ شام سے آنے والے پناہ گزینوں پر اس وقت تک پابندی عائد رہے گی جب تک اس قانون میں اہم ترامیم نہ کرلی جائیں۔

٭ امریکا کا پناہ گزینوں کے لیے بنایا گیا پروگرام چار ماہ کے لیے معطل کیا جائے گا۔

٭ایران ، صومالیہ، یمن، سوڈان، عراق، شام اور لیبیا سے آنے والے افراد کے امریکا آنے پر تین ماہ کے لیے پابندی ہوگی۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی درخواستوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔

٭ 2017 میں صرف 50 ہزار پناہ گزینوں کو امریکا میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے متعصابانہ فیصلے پر رد عمل

٭ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی: دنیا کی سب سے کم عمر امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پاکستان کی ملالہ یوسف زئی نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے، کیوں کہ خانہ جنگی اور جنگ سے متاثرہ خواتین اور بچوں پر امریکا کے دروازے بند کرنے کا فیصلہ درست نہیں ہے، کیوں کہ ان تارکین وطن کا امریکا کی ترقی میں ایک اہم کردار ہے۔ ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے،’’صدر ٹرمپ کے اس فیصلے نے ان بچوں، ماؤں اور والدین پر امریکا کے دروازے بند کیے ہیں، جو اپنی جان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر امریکا آرہے تھے، اس بات نے مجھے انتہائی دل برداشتہ کردیا ہے۔ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی مدد تو امریکی تاریخ کا سنہرا حصہ ہے اور آج امریکا اپنی تاریخ سے انحراف کر رہا ہے۔ ‘

٭گوگل اور فیس بک پریشان: سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ فیس بک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار تشویش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے اس فیصلے سے امریکا ذہین تارکین وطن کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہوجائے گا۔ اپنے ایک بیان میں فیس بک کے بانی مارک زیکر برگ کا کہنا تھا کہ میں اور میری اہلیہ بھی تارکین وطن ہیں۔ انہوں نے ایک طویل پیغام میں لکھا ہے کہ وہ صدر کے اس حکم نامے پر کافی ’پریشان‘ ہیں کیوںکہ وہ بھی کئی دوسرے امریکیوں کی طرح پناہ گزینوں ہی کی اولاد ہیں۔

امریکی کمپنی گوگل نے ابھی اس حکم نامے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفر کرنے والے اپنے سو سے زاید ملازمین کو امریکا واپس بلا لیا ہے۔ گوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے ہر حکم نامے پر تشویش ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا بھر کے باصلاحیت افراد کو امریکا بلانے سے قاصر رہیں۔ نہ صرف گوگل بلکہ ٹیکنالوجی کی بہت سی کمپنیاں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی، کیوںکہ وہ دنیا بھر کے ہنر مند افراد کو امریکا کے خصوصی ویزے ’ایچ ون- بی‘ پر بُلاتی ہیں۔

٭ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈر شدت پسندی کو فروغ دے گا، انجلینا جولی: ہالی وڈ کی معروف اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر برائے مہاجرین انجلینا جولی بھی ٹرمپ کے خلاف بول پڑیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت اس متعصبانہ فیصلے سے نہ صرف شدت پسندی کو فروغ ملے گا بل کہ اس سے ان ممالک کے غیرمحفوظ مہاجرین اور تارکین وطن کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں ان کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر تعصب برتنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ کسی قوم کے مفاد میں فیصلے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کرنے چاہییں، خوف اور شک کی بنیاد پر نہیں۔ کیا امریکا کی حفاظت عام لوگوں اور معصوم بچوں پر پابندی عائد کیے بغیر ممکن نہیں؟ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم 41 سالہ انجلینا جولی نے مزید لکھا ہے کہ میرے چھے بچوں کا تعلق کمبوڈیا، ویت نام، ایتھوپیا، فرانس، نمیبیا سے ہیں لیکن وہ سچے محب وطن امریکی ہیں۔

٭امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر عمل روک دیا: امریکا کی ایک مقامی عدالت نے دنیا بھر میں ہلچل مچانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ امریکی صدر کے متنازعہ حکم نامے کے خلاف ایک غیرسرکاری تنظیم ’دی امریکن سول لبریشن یونٹ (اے سی ایل یو) نے نیویارک کی مقامی عدالت میں ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس کے بعد ضلعی جج این ڈونیلی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تارکین وطن کو نکالنے اور مسلمان ممالک پر عائد عارضی پابندی پر عمل درآمد روکنے کا عبوری حکم جاری کیا۔

اپنے تحریری حکم نامے میں جج این ڈونیلی نے حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایسے تمام تارکین وطن کی فہرست مرتب کرے جنہیں ایئرپورٹس پر حراست میں لیا گیا اور جو ان احکامات کی بنا پر امریکا سے واپس اپنے ملک چلے گئے ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کو اس فیصلے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن کی ایک عدالت میں بھی اس فیصلے کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ ریاست واشنگٹن کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن نے اس پابندی کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی پابندیوں سے لوگوں میں مذہبی تفریق پیدا ہوگی۔

٭ایگزیکٹیو آرڈر تسلیم نہ کرنے پر اٹارنی جنرل برطرف:  ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں عاید کرنے کے حکم نامے کو نہ ماننے پر امریکی اٹارنی جنرلSally Yates کو برطرف کردیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکیریٹری کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اوباما انتظامیہ دور میں بھرتی کی گئی سیلی کو سرحدوں اور امیگریشن کے قوانین کے بارے میں معلومات بہت کم تھیں اور اس وقت ہمیں امریکا کے مفاد کے لیے زیادہ سنجیدگی سے کوششیں کرنی ہیں، جب کہ سیلی کا اس بابت کہنا ہے کہ انہوں نے محکمۂ انصاف کی جانب سے اس ایگزیکٹیو آرڈر کا دفاع کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی بنا پر انہیں اس عہدے سے برطرف کیا گیا۔

٭ سفارتی بحران کا خدشہ: ڈونلڈ ٹرمپ کے سات مسلمان ممالک کے شہریوں اور پناہ گزینوں پر پابندیوں کے لیے جاری کیے گئے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف دنیا بھر میں تقریباً ایک ہزار امریکی سفارتی اہل کاروں نے اختلافی نوٹ پر دستخط کردیے ہیں۔ خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمینٹ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختلافی نوٹ ڈیپارٹمینٹ کے ’ڈسٹنٹ چینل ‘ کے ذریعے قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ ٹام شینن کو جمع کرائے گئے ہیں۔

اس اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نئی پالیسی سے نہ صرف ان سات ممالک سے امریکا کے تعلقات خراب ہوں گے بل کہ ان کی عوام میں امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہوگا۔ اختلافی نوٹ اس صورت میں جمع کرایا جاتا ہے جب سفارتی اہل کاروں کو کسی حکومتی پالیسی سے اختلاف ہو۔ دوسری طرف وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون اسپائسر نے اختلافی نوٹ پر دستخط کرنے والے سفارتی اہل کاروں سے کہا ہے کہ اس ایگزیکٹیو آرڈر پر اعتراضات رکھنے والے تمام اہل کار اور سفیروں کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ اسے تسلیم کریں یا پھر مستعفی ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔