ٹرمپ کا فلسطین کو آزاد ریاست قرار دلوانے کےلیے اسرائیل پر دباؤ نہ ڈالنے کا فیصلہ

ویب ڈیسک  بدھ 15 فروری 2017
اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی غیرمعمولی نرمی کسی بڑے اور عالمگیر سانحے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی غیرمعمولی نرمی کسی بڑے اور عالمگیر سانحے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے ایک تازہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس میں دو قومی حل شامل بھی نہ ہو اور نہ امریکہ اس معاملے پر اپنا کوئی پسندیدہ حل اسرائیل پر مسلط کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو امریکی دورے پر ہیں۔ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد یہ اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ ہے۔ پروگرام کے مطابق نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقات 15 فروری کو وائٹ ہاؤس میں ہوگی جس میں امریکا اسرائیل تعلقات سے لے کر فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر تک کئی معاملات پر گفتگو ہوگی۔

نیتن یاہو پہلے ہی اپنے سفارتی ذرائع سے وائٹ ہاؤس کو پیغام بھجواچکے تھے کہ وہ اپنے دورہ امریکہ میں فلسطین کے مسئلے پر بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وائٹ ہاؤس کا بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے ذریعے بین السطور میں اسرائیل کو یہ مسئلہ اس کی خواہشات کے مطابق حل کرانے یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن، دونوں جماعتوں کی حکومتیں مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطی میں قیامِ امن کےلیے ’’دو ریاستی فارمولے‘‘ کی بھرپور حمایت کرتی رہی ہیں جس کے تحت فلسطین کو اسرائیل سے علیحدہ اور آزاد ریاست قرار دینے کا مطالبہ سرفہرست ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس حل پر زور نہ دینے کا اعلان تشویش کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایک متنازعہ معاملے پر طے شدہ ریاستی مؤقف میں تبدیلی سے کئی امریکی اتحادی ممالک ناراض ہوسکتے ہیں جن میں اکثریت مسلم ملکوں کی ہے جو اس وقت داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ شریک بھی ہیں۔

خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین قیامِ امن کےلیے مذاکرات کی ذمہ داری اپنے داماد جیئرڈ کشنر کو سونپ دی ہے جبکہ اسرائیل میں امریکی سفیر کے امیدوار کی حیثیت سے ڈیوڈ فرائیڈمین کو ٹرمپ کا پسندیدہ قرار دیا جارہا ہے جو فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے زبردست حامی ہونے کے علاوہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی غیرمعمولی نرمی کسی بڑے اور عالمگیر سانحے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔