بالی ووڈ اداکار اعجاز خان ہندو انتہا پسندی پر پھٹ پڑے

ویب ڈیسک  اتوار 16 اپريل 2017
گائے کی حفاظت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو مارا جارہا ہے، اعجاز خان ، فوٹو:فائل

گائے کی حفاظت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو مارا جارہا ہے، اعجاز خان ، فوٹو:فائل

 سری نگر: بالی ووڈ اداکار اعجاز خان بھارت میں گاؤ ماتا کی حفاظت کے نام پرانتہاپسندوں کی جانب سے بے گناہ مسلمانوں کوتشدد کا نشانہ بنانے پر پھٹ پڑے ہیں۔

بھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے اور اقلیتیں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے غیر محفوظ ہوگئی ہیں جب کہ ریاست اتر پردیش میں یوگی ناتھ کے وزیر اعلی بننے کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ گائے کی بے حرمتی کے نام پر مسلمانوں پر تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اب اس سب نے نامور بھارتی اداکار اعجاز خان کو بھی بولنے پر مجبور کردیا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں:گائے نہیں عورت کو تحفظ دو، جیا بچن 

اداکاراعجاز خان فلم کی شوٹنگ کے لئے مقبوضہ کشمیر کے علاقے سری نگر میں موجود ہیں جہاں سے انہوں نے فیس بک لائیو کے ذریعے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر بولے،ان کا کہنا تھا کہ  گائے کی حفاظت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو مارا جارہا ہے جس پر کسی کی بھی زبان سے مذمت کا لفظ تک نہیں نکل رہا جب کہ بھارتی ایئرپورٹس پر گائے کی چمڑے سے بنی اشیا فروخت ہورہی ہیں لیکن انہیں نہیں روکا جاتا نہ کسی قسم کا تشدد کیا جاتا ہے۔

اداکار کا کہنا تھا کہ گائے کی حفاظت کرنے والے نریندر مودی اور یوگی ناتھ سب سے پہلے گائے کی چمڑے سے بنی انٹرنیشنل برانڈ کی اشیا کی فروخت کو ملک میں بند کرائیں کیوں کہ غریب مسلمانوں کو قتل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں:بھارتی ریاست گجرات میں گائے ذبح کرنے پرعمر قید کی سزا

اعجاز خان کا کہنا تھا کہ ممبئی سے سری نگر آتے ہوئے راستے میں کئی بیمار اور کان کٹی گائیوں کو دیکھا لہذا نام نہاد گائے کی حفاظت کرنے والے مسلمانوں پر تشدد کی بجائے ان کا علاج بھی کرائیں۔

دوسری جانب اداکار اعجاز خان کے بیان کو سوشل میڈیا پر بے حد سراہا جارہا ہے لیکن بھارتی میڈیا نے اداکار کی سچ گوئی کے خلاف محاذ کھولتے ہوئے بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی شہر گجرات میں گائے کا کٹا سر ملنے پرفسادات شروع ہوگئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔