- موٹروے پولیس اہلکار کو کچلنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
برطانوی سیاستداں سعیدہ وارثی مسلمانوں کی حمایت میں بول پڑیں
لندن: برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی سابق سربراہ اور برطانوی کابینہ کی اوّلین مسلم خاتون وزیر سعیدہ وارثی نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ برطانوی مسلمان اندر کے دشمن نہیں بلکہ اس ملک کا حصہ ہیں۔
لندن دہشت گردی سے کچھ دیر پہلے بی بی سی کو دیئے گئے اس انٹرویو میں سعیدہ وارثی کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے بنیاد پرست بننے کی مختلف وجوہ میں سے ایک ممکنہ وجہ خارجہ پالیسی کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جب ’’میرے دادا اور نانا نے اس ملک کےلیے پسینہ بہایا ہے، اور انہوں نے خود اعلیٰ سطح پر کابینہ میں خدمات دی ہیں، تو میں پوچھتی ہوں کہ کب تک مسلمانوں کو وفاداری کے امتحان دینا پڑیں گے؟‘‘
انٹرویو کے دوران سعیدہ وارثی نے بتایا کہ انہیں غزہ اور فلسطین کے حوالے سے کنزرویٹیو پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جس کی بناء پر وہ اس وقت کی کابینہ سے مستعفی ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ برطانوی وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو انہیں واضح طور پر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اس معاملے پر حکومت کے قول وفعل میں تضاد ہے۔
انہیں برطانوی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے شکایت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کو درست طور پر قومی معاملات میں شریک نہیں کررہے ہیں۔ ان کے بقول، ’’اگر ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور انہیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک کا حصہ ہیں تو حکومت کو صحیح طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے گا؛ اور تیس لاکھ برطانوی مسلمانوں کی شراکت کےلیے بیس سے پچیس افراد کو شریک کرلینا کوئی شراکت داری (انگیجمنٹ) نہیں ہوتی۔‘‘
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔