بھارتی صدر کے انتخاب کے لیے معیار!

کلدیپ نئیر  جمعـء 16 جون 2017

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی مسلمان دشمنی کے زہریلے دانت چھپا نہیں سکتی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی نائب صدر حامد انصاری کے صدارتی امید وار بننے کے پیچھے اتفاق رائے کی کوشش کرتی اس کے بجائے پارٹی نے تین چوٹی کے لیڈروں کی ذمے داری لگا دی ہے کہ وہ کوئی ایسا امید وار تلاش کریں جسے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر نائب صدر انصاری میں کیا کمی ہے۔ انھوں نے راجیہ سبھا کی قیادت بے حد اچھے طریقے سے نبھائی جب کہ اس سے قبل وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے جہاں ان کی کارکردگی لاجواب رہی۔ اس بات میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ سیکولر ازم کے ساتھ ان کی وابستگی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں اور کسی بھی شبہے سے بالاتر ہے۔ بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں مشترکہ طور پر نائب صدر انصاری کی حمایت میں اکٹھا ہو گئی ہیں کیونکہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں۔

اگر ان کو اپوزیشن پارٹیاں اپنا امیدوار بنا لیتی ہیں تو یہ ان کے لیے خفت کا باعث ہو گا کیونکہ وہ ملک کے نائب صدر ہیں۔ سابقہ بھارتی صدر ڈاکٹر عبدالکلام کو دوسری صدارتی مدت کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا امیدوار بنایا تھا لیکن ان کو بھی اسی مخمصے کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا وہ امیدواری سے دستبردار ہو گئے اور بعدازاں تالیف قلب کے لیے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے ڈاکٹر عبدالکلام روڈ رکھ دیا گیا۔

بی جے پی کو بالآخر آر ایس ایس کی چوائس کو ہی ماننا پڑے گا اگرچہ اس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھی ملک کے سیکولر اقدار کی پاسداری کرے گی لیکن حقیقت میں اس کا کوئی احتمال نہیں کیونکہ جب وہ ملک کی چوٹی کی آئینی پوزیشن کے لیے کسی امیدوار کا نام انتخاب کرے گی تو مسلم امیدوار آر ایس ایس کے تصور سے بھی بالاتر ہو گا۔ بالآخر وزیراعظم نریندرا مودی کو کہا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی کا امیدوار منتخب کریں۔

بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے جو تقاریر کی ہیں‘ ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس منصب پر امیدوار مسلمان کے علاوہ کوئی بھی اور ہو سکتا ہے۔ وہ ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے رہے ہیں جن میں جنوبی ریاستیں بھی شامل ہیں اور ان کی تقاریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صدارتی امیدوار وہی ہو گا جسے حکمران پارٹی قبول کرے گی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اور ریاستی قانون سازوں نے جن پر کہ الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی ہر صورت اپنی من مانی کرے گی۔ بی جے پی نے جو تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے اس میں راجناتھ سنگھ‘ ارون جیٹلی اور وینکائیا نائڈو شامل ہیں جو وزیراعظم مودی کی کابینہ کے رکن ہیں۔

یہ کمیٹی صدارتی امیدوار کا انتخاب کرے گی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) میں کون براجمان ہو گا۔ اسپیکر سمیترا مہاجن جن کو کہ شروع میں حکمران جماعت کی حمایت حاصل تھی کو اس دوڑ سے نکال دیا گیا ہے۔ ان کو نہ تو ڈی ایم کے اور نہ ہی اے آئی اے ڈی ایم کے زیر غور لا رہے ہیں کیونکہ صدارتی امیدوار کو جنوبی ریاستوں یعنی آندھرا پردیش‘ تلنگانہ‘ کرناٹک‘ تامل ناڈو اور کیرالا کے لیے بھی قابل قبول ہونا چاہیے حتیٰ کہ ایل کے ایڈوانی بھی بی جے پی کے امیدوار بن سکتے تھے مگر چونکہ بابری مسجد کے انہدام کے مقدمے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا لہٰذا بی جے پی کو کسی اور طرف دیکھنا پڑا ہے۔ ایڈوانی پر بابری مسجد کے انہدام کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایڈوانی کا کھردرا پن ہموار ہو چکا ہے اور اب وہ ایسا شخص بن چکے ہیں جس نے کراچی جا کر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

اگر ہم ماضی کے حالات کا جائزہ لیں تو صدر اور وزرائے اعظم کے مابین اختلافات کے کئی شواہد ملتے ہیں۔ گزشتہ سات صدور میں صرف ذاکر حسین اور فخر الدین علی احمد بغیر کسی عوامی تنازعے کے اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے۔ ذاکر حسین جو اپنی صدارتی مدت کے دوران فوت ہوئے انھوں نے خود کو عملی و ادبی سرگرمیوں تک محدود کر لیا تھا جب کہ فخر الدین علی احمد جو بھارت کے تمام سربراہوں میں سب سے زیادہ حلیم الطبع نرم خو سربراہ مملکت تھے لیکن یہ انھی کے مدت صدارت کا واقعہ ہے جب اندرا گاندھی نے ملک پر ایمرجنسی نافذ کی اور صاحب صدر نے اس بات کی تصدیق کیے بغیر آیا اسے کابینہ سے منظور کرایا گیا ہے یا نہیں حکمنامے پر دستخط کر دیے۔

وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور ڈاکٹر راجندر پرشاد کے مابین بہت سے آئینی اختلافات منظرعام پر آئے۔ ڈاکٹر ایس رادھا کرشن 1962ء میں بھارت کی چین کے ہاتھوں شرمناک شکست کے نتیجے میں وزیر دفاع کرشنا مینن کی معزولی کے بعد اقتدار میں آئے اور 1967ء میں انھوں نے سوتنترا پارٹی کے اراکین قانون ساز اسمبلی کو ایوان صدر میں پریڈ کرنے کی اجازت دیکر تاکہ وہ راجستھان اسمبلی میں اپنی اکثریت کا ثبوت دے سکیں حکمران کانگریس کو شرمندہ کر دیا حتی کہ ممتاز ٹریڈ یونین لیڈر وی وی گری جسے اس وقت کی کانگریس کی صدر مسز اندرا گاندھی کی مدد سے ملک کا صدر منتخب کیا گیا وہ محنت کشوں کے خلاف قوانین پر اکثر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے تھے لہٰذا انھوں نے ہڑتالی ریلوے ملازمین کی برطرفی پر احتجاج کیا اور سپریم کورٹ کے ججوں کی معطلی پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس کے بعد قائم مقام صدر جی ڈی جٹی جو گری کے بعد عارضی طور پر ان کی جگہ پر آئے تھے زیادہ دبنگ ثابت ہوئے جب جنتا حکومت نے ان نو ریاستوں کی اسمبلیاں جن پر کانگریس کی حکومت تھی تحلیل کرنے کے آرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دلیل دی کہ مرکزی حکومت کو باقاعدہ طور پر منتخب ہونے والی ریاستی اسمبلیوں کو بلاوجہ تحلیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ تب وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کو اپنے استعفے کے دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا اگر جٹی آرڈیننس پر دستخط کرنے میں تاخیر روا رکھتے۔ اور جنتا پارٹی نے صدر کے خلاف اپنے غیظ و غضب کے اظہار کے لیے مظاہرے بھی کیے۔

جب جنتا پارٹی نے سنجیواریڈی  کو برسراقتدار کر دیا تب بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ ریڈی اور ڈیسائی اکٹھے نہ چل سکے اور بعد ازاں صدر کو تقریبات میں شرکت کے لیے غیر ملک جانے سے روک دیا۔ ریڈی کے دل میں جتنا حکومت کے خلاف بغض تھا۔ جب چرن سنگھ کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تو اس سے آئینی تاریخ بن گئی کیونکہ مرار جی ڈیسائی نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔

ریڈی نے اس وقت ایک اور مثال قائم کی جب اس نے وزیراعظم کی ہدایت پر لوک سبھا کو تحلیل کر دیا جو کہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکے تھے حتی کہ صدر ذیل سنگھ نے مسز گاندھی کے قتل کے فوراً بعد راجیو گاندھی کو وزیراعظم کے طور پر تعینات کر دیا حالانکہ اسے پارلیمنٹری پارٹی نے اپنا لیڈر بھی منتخب نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ ذیل سنگھ اور راجیو گاندھی اکثر اوقات آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے۔

میری خواہش ہے کہ مکرجی اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایمرجنسی کے دوران کیے جانے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیں۔ وہ سنجے گاندھی کے سب سے قریبی معتمد تھے اور ان کے پاس آئین سے ماورا اختیارات بھی تھے۔ لہٰذا ان کا نام تاریخ میں اچھے الفاظ سے درج نہیں ہو گا۔ اپنے پیشرو کی مانند وہ بھی تنازعات کی دلدل میں پھنسے رہے بالخصوص اس وقت جب انھوں نے عہدے پر رہتے ہوئے اپنی کتاب شایع کی۔ وہ ریٹائرمنٹ کا انتظار کرکے راشٹر پتی بھون میں اپنے تجربات کو کھل کر بیان کر سکتے تھے۔ دریں اثناء مرکزی حکومت کو لازمی طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ان کے ہندوتوا کی تحریک میں سیکولر ازم کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ بی جے پی کو انصاری کو اپنا صدر بنا کر عوام کو یقین دہانی کرانی چاہیے تھی کہ بھارت سیکولر ازم پر قائم رہے گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔