احمد پور شرقیہ میں المناک حادثہ

ایڈیٹوریل  پير 26 جون 2017
حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد 80فیصد سے زائد جھلس گئے اور ان کی لاشیں ناقابل شناخت ہو گئیں . فوٹو : سوشل میڈیا

حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد 80فیصد سے زائد جھلس گئے اور ان کی لاشیں ناقابل شناخت ہو گئیں . فوٹو : سوشل میڈیا

عیدالفطر سے ایک روز قبل اتوار کے روز پنجاب کے ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے قریب انتہائی افسوسناک حادثہ پیش آیا جس میں ان سطور کے لکھے جانے تک 140افراد جاں بحق اور 200سے زائد زخمی ہو گئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ہزاروں لیٹر آئل سے بھرا ٹینکر کراچی سے بہاولپور جا رہا تھا کہ احمد پور شرقیہ کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے الٹ گیااور اس میں موجود تیل بہنے لگا۔ ارد گرد آبادیوں کے لوگ آئل ٹینکر سے بہنے والا پٹرول اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس دوران اچانک آگ بھڑک اٹھی جس سے وہاں موجود لوگ بری طرح جھلس گئے جب کہ قریب سے گزرنے والی درجنوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بھی حادثے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔ متاثرین حادثہ کی مدد کے لیے آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز بھی موقع پر پہنچ گئے اور آرمی کے تمام اسپتالوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا۔

اس حادثے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے، عیدالفطر سے ایک روز قبل پیش آنے والے اس حادثے نے سیکڑوں خاندانوں کو ہی نہیں بلکہ ملک بھر سوگوار کر دیا ہے ۔ یہ حادثہ بحیثیت مجموعی ہماری قومی لالچی ذہنیت اور بے حسی کے رویے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

ہمارے ہاں یہ افسوسناک کلچر رواج پا چکا ہے کہ جائے حادثہ پر جہاں کچھ لوگ متاثرین کی مدد کرتے ہیں وہاں ایک تعداد لوٹ مار میں مصروف ہو جاتی ہے اور کسی حادثے میں جاں بحق یا زخمی ہونے والے افراد کی قیمتی اشیاء پر ہاتھ صاف کر کے فرار ہو جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جائے حادثہ پر پولیس یا دیگر حکومتی ادارے پہنچ کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تاکہ متاثرین حادثہ مزید کسی پریشانی سے محفوظ رہ سکیں۔

احمد پور شرقیہ کے قریب پیش آنے والے اس حادثے میں لوٹ مار‘ لالچ اور بے حسی کی یہی ذہنیت اتنے بڑے سانحہ کا محرک بنی۔ لوگ الٹنے والے آئل ٹینکر سے بہنے والے پٹرول کو لوٹنے میں مصروف ہو گئے‘ اسی دوران کسی شخص کی بے وقوفی یا جہالت کے باعث پٹرول نے آگ پکڑ لی جس نے پلک جھپکتے ہی وہاں موجود تمام افراد کو لپیٹ میں لے لیا۔

حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد 80فیصد سے زائد جھلس گئے اور ان کی لاشیں ناقابل شناخت ہو گئیں، زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن طبی سہولتوں کی کمی اور وہاں برن یونٹ نہ ہونے پر زخمیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد متعدد کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ملتان میں منتقل کیا گیا تاکہ ان کا علاج کیا جا سکے۔

اس حادثے سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ حکمران عوام کی خدمت کرنے اور ملک کو ترقی دینے کے دعوے کرتے تھکتے نہیں کہ انہوں نے عوام کو بھرپور سہولتیں فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن احمد پور شرقیہ کے قریب پیش آنے والے اس افسوسناک حادثے نے حکمرانوں کی ترقی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی‘ جنوبی پنجاب کے علاقے میں موجود اسپتالوں میں طبی سہولتوں کا فقدان اور بہاولپور میں برن یونٹ کی عدم موجودگی نے متاثرین حادثہ کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا، اگر ان اسپتالوں میں برن یونٹ موجود ہوتا تو زخمیوں کو ملتان منتقل کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔

جنوبی پنجاب میں احساس محرومی کی یہی وجہ ہے اور اس احساس محرومی کو جنوبی پنجاب کے جاگیردار اور گدی نشین سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تشویشناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے افراد ہر سال ٹریفک حادثوں میں جاں بحق یا زخمی ہو جاتے ہیں اتنے افراد دہشت گردی یا کسی اور سبب سے ہلاک نہیں ہوتے۔ اکثر اوقات ان حادثوں میں خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں، لیکن کبھی کسی حکومت نے ان حادثات کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے‘ متاثرین حادثہ کو معمولی رقم دے کر حکمران اپنے آپ کو ہر قسم کی ذمے داریوں سے بری سمجھتے ہیں۔

اگر ان حادثات پر بھی قابو پا لیا جائے تو ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہونے سے بچ جائیں۔ حادثات کی ایک بڑی وجہ ڈرائیورز کی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور تیز رفتاری بھی ہے۔ لہٰذا حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حادثات پر قابو پانے کے لیے ڈرائیور حضرات کو ٹریفک قوانین کی تعلیم و تربیت دے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے۔ عوام کو قدرتی آفات اور آتشزدگی کے واقعات سے نبرد آزما ہونے کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جانی چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔