- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
بھارت چین سرحدی تنازعہ
1962ء کی بھارت چین سرحدی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، لیکن پچھلے کچھ دنوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا گراف تشویشناک حد تک اوپر جارہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق چین اپنی علاقائی سلامتی کے لیے ہر آپشن استعمال کرسکتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کی چینی سرحدی علاقے سکم پر فوجی کارروائی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ بھارت لمبی مدت تک سرحد پر کشیدگی برقرار رکھنا چاہتا ہے وہ چین کی طرف سے بار بار سکم سے بھارتی فوجوں کی واپسی کے مطالبے کے باوجود ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں موجود چینی باشندوں کی سلامتی کے لیے نئی دلی میں چینی سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ بھارت میں موجود چینی باشندے اپنی سرگرمیاں محدود کردیں۔ سفارت خانے کی طرف سے جاری یہ الرٹ ایک ماہ کے لیے ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سکم میں بھارتی کارروائی ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔ بھارت کے متنازع علاقے میں دلچسپی اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ چینی مبصرین کا کہناہے کہ اگر بھارت سرحدی کشیدگی میں کمی نہیں لاتا تو چین بھارت کے خلاف ہر قسم کے فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھارت کے لیے بین الاقوامی چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے نمٹنا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی فوجی صلاحیت چین کے مقابلے میں بہت کم ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت اب تک سرحدی تنازعے کا اپنی مرضی اور اپنے قومی مفادات کے مطابق حل تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بھارت تبت کو بھی ایک عرصے تک اپنا علاقہ ہی سمجھتا رہا ہے لیکن جب چین نے فوجی طاقت کے ذریعے تبت پر قبضہ کرلیا تو بھارت صرف اتنا کرسکا کہ تبت کے روحانی پیشوا کو بھارت میں پناہ دے دی۔ تبت کے دلائی لامہ اب بھارت میں اپنی زندگی کے باقی دن گزار رہے ہیں۔ ماضی کی بادشاہتوںکے دور میں بھی جنگوں کا اہم مقصد دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا رہا ہے۔ ماضی کی ان جنگوں کو آج کا ترقی یافتہ انسان جہل کے کارنامے قرار دیتا ہے لیکن آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں دوسروں کے علاقوں پر قبضہ ہی جنگوں کا اصل سبب بنا ہوا ہے۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ بھارت نے کشمیر پر جو قبضہ جمایا ہوا ہے وہ بھی دوسروں کے علاقے پر طاقت کے ذریعے قبضے کی تعریف ہی میں آتا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ کشمیر سے بھارت کے قومی مفادات وابستہ ہیں۔ قومی مفادات کا فلسفہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بڑی عیاری سے پیش کیا ہے۔ قومی مفادات کے فلسفے کی عمارت انسانوں کی تقسیم کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد قومی مفادات کے نام پر مختلف ملکوں کے درمیان جنگ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مغرب کی اسلحے کی صنعت میں کھربوں کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اس سرمایہ کاری سے سرمایہ کار اربوں ڈالر کا منافع حاصل کر رہے ہیں، اسی پر بس نہیں سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے طاقت کے توازن کے نام پر بھی ایک شاطرانہ فلسفہ پیش کیا ہے، جس کا واحد مقصد ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں اس فلسفے کو کامیاب بنانے کے لیے ملکوں کے درمیان عدم اعتماد اور خوف کی فضا قائم کی جاتی ہے یہ کام بڑی مہارت سے کیا جاتا ہے۔
دنیا کے فیصلوں کا اختیار جب تک سیاست دانوں کے ہاتھوں میں رہے گا، جنگیں جاری رہیںگی اور جنگوں کے لیے راہ ہموار کی جاتی رہے گی۔ اس حوالے سے طاقتور ملکوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معقول وجہ کے بغیر کسی ملک کے خلاف جنگ جیسی خوفناک کارروائی کا آغازکریں، ماضی قریب کی تاریخ اس قسم کی جارحانہ جنگوں سے بھری ہوئی ہے جس کی ایک بڑی مثال ویت نام کی جنگ ہے۔ جنگ اصل میں بے گناہ انسانوں کی جانوں کے زیاں کا نام ہے، ویت نام کی جنگ امریکی سامراج کے حکمران سیاست دانوں کی ایسی حماقت آمیز جنگ تھی جس میں لاکھوں ویتنامی ہلاک ہوگئے اور خود امریکی فوج کے 59 ہزار سپاہی اس جنگ کی نذر ہوگئے۔
بھارت ایک پسماندہ ترین ملک ہے جس کی آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ایسے پسماندہ ملک کا حکمران طبقہ ایک طرف کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے وہاں پر 8 لاکھ فوج کو استعمال کر رہا ہے، بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہتا ہے اور جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت کی رائے کے احترام کو پاؤں تلے روند کر ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط ہیں۔ چین کی ساری توجہ اپنی صنعتی ترقی پر مرکوز ہے، اگر چین بھارت سے سرحدی جنگ میں الجھ جاتا ہے تو منطقی طور پر اس جنگ سے چین کی صنعتی ترقی متاثر ہوگی، لیکن علاقوں پر جائز یا ناجائز قبضے کا کلچر سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اور چین بھی اب سرمایہ دارانہ نظام کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور پھر فیصلوں کا اختیار ان سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے، جو دانستہ یا نادانستہ اسلحہ سازوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔