شمالی کوریا کا امریکا تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 29 جولائی 2017
حالیہ میزائل امریکی ریاست الاسکا تک پہنچ رکھتا ہے، ماہرین - فوٹو: بی بی سی

حالیہ میزائل امریکی ریاست الاسکا تک پہنچ رکھتا ہے، ماہرین - فوٹو: بی بی سی

پیانگ یانک: شمالی کوریا نے عالمی پابندیوں اور سیاسی دباو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کر لیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے مطابق امریکی وزارت دفاع اور جنوبی کوریا کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے بین البراعظمی میزائل کا دوسرا تجربہ کیا گیا ہے، میزائل شمالی کوریا کے صوبے جاگانگ سے فائر کیا گیا جو 3 ہزار کلو میٹر دور جاپان کی سمندری حدود میں گرا۔

بین البراعظمی میزائل کی رینج کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ میزائل امریکی ریاست الاسکا کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، حالیہ میزائل پچھلے میزائل کے مقابلے میں زیادہ اونچائی اور طویل رینج تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ شمالی کوریا نے جاپان پر بیلسٹک میزائل داغ دیا

دوسری جانب چاپان کے چیف کیبنٹ سیکریٹری نے کہا ہے کہ میزائل نے تقریباً 45 منٹ تک سفر کیا اور اس میزائل نے جولائی کے شروعات میں کیے جانے والے میزائل سے 6 منٹ زیادہ پرواز کی جب کہ میزائل جاپانی سمندر کے خصوصی اقتصادی زون میں گرا۔ جاپان کے قومی نشریاتی تنظیم کے مطابق میزئل کی پہنچ 3 ہزار کلو میٹر تھی جو پچھلے بین البراعظمی میزائل سے 200 کلو میٹر زیادہ ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائل کا ایک اور تجربہ

شمالی کوریا کے تازہ ترین میزائل تجربے کے بعد جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے ہنگامی اجلاس طلب کیا جب کہ جاپان کے وزیراعظم شنزو ابے نے بھی اہم اجلاس طلب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کی سیکیورٹی اب اہم مسئلہ بن چکی ہے لہذا شمالی کوریا پر دباو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم میزائل تجربے کے حوالے سے مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔

واضح رہے شمالی کوریا کی جانب سے 2017 میں کیا جانے والا یہ 14واں میزائل تجربہ ہے، رواں ماہ 4 جولائی کو بھی شمالی کوریا نے بین البراعظمی میزائل تجربہ کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔