پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)

ایکسپریس اردو بلاگ  منگل 8 اگست 2017
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔ 


پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

دنیا کی سب سے کم عمر سرٹیفائڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ

ویسے تو پاکستان کی ارفع کریم مرحوم کو دنیا کی سب سے کم عمر ترین مائیکرو سافٹ انجینیئر کا اعزاز حاصل ہے لیکن تعلیم کے میدان میں ایک اور اہم اعزاز بھی پاکستان کے پاس ہی ہے اور وہ اعزاز دنیا کی کم عمر ترین سرٹیفائڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہونے کا ہے۔

ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائڈ اکاؤنٹنٹس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس سے سند لینے کے لیے 18 پرچوں میں کامیابی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہ امتحان بھی برطانوی ہائی کمیشن کے زیرِ اہتمام برٹش کونسل لیتی ہے۔ کراچی کی سمیرا لاکھانی یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ شہرِ قائد میں ہی ایک آڈٹ فرم کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ سمیرا نے 17 برس اور 8 ماہ میں اے سی سی اے کا امتحان پاس کیا ہے۔

یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ بلکہ اے سی سی اے کی آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ کے ذریعے اِس بات کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اگرچہ سمیرا کا خاندان سکھر سے تعلق رکھتا ہے، لیکن انہوں نے تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی ہے۔

پاکستان کی منفرد پہچان ’ٹرک آرٹ‘

یوں تو یہ جملہ ہم پاکستانی بہت ہی سنتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن یہ محض ایک جملہ ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے۔ پاکستان میں مختلف قسم کے آرٹسٹ ہیں جن کی کاوشوں اور فن کی قابلیت کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں پائے جانے والے ’ٹرک آرٹ‘ کا ٹیلنٹ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ٹرک آرٹ کے حوالے سے پاکستان کی ایک الگ ہی پہچان ہے۔ اِس فن میں فنکار مختلف رنگوں سے کھیل کر رنگ برنگے اور منفرد نفیس ڈیزائن بناتے ہیں جن کی تعریف کیے بنا کوئی بھی نہیں رہ پاتا۔

ٹرک آرٹ سے نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا بھر میں مسافر گاڑیوں اور در و دیوار کو بالکل دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔ ٹرک آرٹ کے ماہرین نہ صرف دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں بلکہ مختلف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن بھی کر رہے ہیں۔

 

ناول ’خدا کی بستی‘ کا منفرد کارنامہ

اردو ادب کا شاہکار ناول ’خدا کی بستی‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس کتاب کے اب تک 50 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ پاکستانی ادیب جناب شوکت صدیقی کی جانب سے نصف صدی قبل لکھے گئے ناول کو جو شہرت نصیب ہوئی اس کی مثال کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ شوکت صدیقی کے اِس ناول پر مختلف جامعات میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں۔ جب کہ اِس ناول کو 1960ء میں آدم جی ادب ایوارڈ کے علاوہ 2003ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

خدا کی بستی قیام پاکستان کے بعد کے دشوار حالات کی کہانی ہے جس میں ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد کاری، روزگار اور دیگر مسائل کا خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل 1969ء میں ہوئی جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ جس روز یہ ڈرامہ نشر ہوتا تھا اُس روز شہروں کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں۔ خدا کی بستی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پسند تھا یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب نے پاکستان ٹیلی ویژن سے نشررِ مکرر کی درخواست کی لیکن ڈرامہ کی ریکارڈنگ محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے 1974ء میں خدا کی بستی کی دوبارہ 13 اقساط میں ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا گردوں کی پیوندکاری کا مرکز

سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا گردوں کی پیوند کاری کا مرکز ہے، یہی نہیں بلکہ SIUT کے آفیشل اعلامیے کے مطابق 2006ء میں 370 گردوں کی پیوند کاری کے آپریشن کے بعد اِس ادارے کو دنیا میں سب سے زیادہ گردوں کی پیوندکاری کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے

SIUT کی بنیاد ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے 1970ء میں رکھی۔ ابتداء میں سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کا آغاز سول اسپتال کراچی کے ایک شعبہ کی حیثیت سے ہوا، لیکن بعد ازاں مخیر حضرات کے تعاون اور ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے گردوں کی پیوند کاری اور ڈائیلسسز کے لئے نئی عمارت کا قیام ممکن ہوسکا۔ 1991ء میں یہاں محض 10 سے 12 افراد کے گردوں کی پیوند کی جاتی تھی، لیکن اِس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور گزشتہ برس یعنی 2016ء میں یہ تعداد 370 سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ 2003ء میں SIUT کے ڈاکٹرز کی ٹیم نے پاکستان میں جگر کی پیوندکاری کا پہلا تجربہ کیا اور 2004ء چائلڈ کئیر یونٹ کا قیام بھی عمل لایا گیا۔

ملک بھر سے مریضوں کی بڑی تعداد علاج کیلئے SIUT کا رخ کرتی ہے، جہاں مریضوں کا علاج جدید طریقوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، ساتھ ساتھ یہاں ڈائلسسز، لیبارٹری کی سہولیات اور پیوند کاری سمیت گردوں کا تمام تر علاج مفت کیا جاتا ہے۔ صرف 2016ء میں یہاں پندرہ (15) لاکھ مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ انہی خدمات کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا سے مخیر افراد اور فلاحی ادارے SIUT کو عطیات دیتے ہیں اور انہی عطیات کی بدولت تمام مریضوں کو طبی سہولیات بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

 

مٹی سے بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم

یہ بات تو شاید ہر پاکستانی جانتا ہے کہ تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہے جو لگ بھگ منگلہ ڈیم سے دگنی وسعت رکھتا ہے، جس کی مدد سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہوسکتی ہے، لیکن اِس سے بھی بڑھ کر تربیلا ڈیم کی حیثیت یہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔

تاریخ کے جھروکوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر بھارت نے پانی بند کردیا یا سیلاب کے وقت پانی زیادہ چھوڑ دیا تو پاکستان کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہوسکتا ہے اور سیلاب کی کیفیت بھی طاری ہوسکتی ہے، اِنہی خطرے کے پیشِ نظر حکومت پاکستان نے بند بنانے کے لیے اٹک، کالاباغ اور تربیلا کے مختلف مقامات کا جائزہ لیا اور ماہرین سے مشورے اور مکمل تسلی کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بند تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا جائے گا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بند کی تعمیر کے لیے فنڈ کہاں سے آئیں گے؟ انہی فنڈز کے حصول کے لیے عالمی بینک سے رابطہ کیا جس نے 1967ء کو فنڈ دینے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا اور یوں بند کی تعمیر شروع ہوگئی۔ اگرچہ یہ بند 1971ء میں مکمل ہوگیا تھا لیکن اِس کا باقاعدہ آغاز 1977ء سے شروع ہوا۔

یہ مٹی سے بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم پاکستان کے لیے سب سے بڑا ہائیڈل پاور اسٹیشن بھی ہے جو ساڑھے 3 ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرتا ہے۔ اسلام آباد سے 50 کلومیڑ کے فاصلے پر ضلع صوابی، خیبر پختونخوا کے مقام پر واقع تربیلا ڈیم 485 فٹ اونچا اور 8 ہزار 9 سو 97 فٹ چوڑا ہے۔ تربیلا ڈیم کے قیام کا مقصد آب پاشی کے نظام کو بہتر کرنا اور سیلابی پانی کو روک کر ذخیرہ کرنا تھا، اور اب تک یہ ڈیم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں مسلسل کامیاب رہا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔