شیخ مجیب نے کہا بنگالیوں کو 56 نہ سہی 30، 40 فی صد وسائل تو دو

رضوان طاہر مبین / اشرف میمن  جمعرات 21 ستمبر 2017
سمندر دیکھنے کے لیے کراچی کے مہاجر کیمپ میں ڈیوٹی لگوائی، تحریک پاکستان کے کارکن آزاد بن حیدر کی کتھا

سمندر دیکھنے کے لیے کراچی کے مہاجر کیمپ میں ڈیوٹی لگوائی، تحریک پاکستان کے کارکن آزاد بن حیدر کی کتھا

1944ء میں بچہ مسلم لیگ میں رہے، بٹوارے کے سمے انہیں مہاجر کیمپوں کی خدمات کے لیے چنا گیا، انہوں نے واہگہ اور کھوکھرا پار پر کراچی کو ترجیح دی کہ سمندر دیکھیں گے، یہیں 18 اگست کو بندر روڈ کی عیدگاہ میں محمد علی جناح کو قریب سے دیکھا۔

انہیں پہلی بار 12 برس کی عمر میں دیکھا، جس کا ایک موہوم سا خاکہ ذہن میں تھا۔ کہتے ہیں اُس زمانے میں مسلمانیت غالب تھی، ہر سندھی کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ مہاجروں کو اپنے گھر لے کر جائے۔ ڈرگ روڈ کے مہاجر کیمپ کے لیے سندھی وبلوچ خواتین پراٹھے بناتیں، کینٹ اور سٹی اسٹیشن پر بھی کیمپ قائم تھے۔ ہندوستان جانے والے ہندوؤں کے کپڑے، برتن، چادریں اور بستر وغیرہ آرام باغ میں ڈھیر کیے جاتے، گولی مار اور لیاقت آباد میں مہاجروں کے لیے چالیس، چالیس گز کی جھگیاں بنائیں، تو یہ سامان تقسیم کیا گیا۔

یہ تذکرہ ہے تحریک پاکستان کے کارکن آزاد بن حیدر کا، جو 1948ء میں سیال کوٹ لوٹے، میٹرک کا امتحان دیا، ابھی نتائج نہیں آئے تھے، کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہوا، تو ناروال اور شکرگڑھ وغیرہ میں کشمیر سے آنے والوں کی فہرستیں بنانے کا کام کیا۔ 1952-53ء میں جمعیت علمائے پاکستان میں شامل ہوئے، کہتے ہیں کہ تب یہ  مسلم لیگ کا علما ومشائخ ونگ تھا، جس نے 1970ء میں مولانا نورانی کی سرکردگی میں  اپنا علیحدہ سیاسی تشخص بنایا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں وہ سب سے کم عمر مقرر تھے، گرفتار بھی ہوئے۔ ’کیا یہ تحریک خواجہ ناظم الدین کو کم زور کرنے کی سازش تھی؟‘ کہتے ہیں ہم تو ختم نبوت پر جان دینے والے ہیں، ہمیں اوپر کی کسی سازش کا علم نہیں۔

1950ء کی دہائی میں نیا آباد ہوٹل کی چھت پر، چاند کی چودہویں کو  سندھی اردو مشاعرے کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ماہی گیر راہ نما عمر جاموٹ اس کے منتظم ہوتے، عمر جاموٹ ماہی گیروں کے لیے ایک چھوٹا سا سندھی پرچا ’ناخدا‘ بھی نکالتے، جس کا اردو ایڈیشن وہ دیکھتے۔  1953-54ء میں لیاری میں تعلیم بالغاں کے لیے ’نائٹ اسکول‘ کھولا، جہاں تین چار سال میں میٹرک کرا دیا جاتا۔ 1956ء میں ’مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘ بنائی، جس نے واجبی فیس کے حامل 13 اسکول قائم کیے، جو 1972ء میں قومیالیے گئے، جس پر ہم نے مٹھائی بانٹی کیوں کہ ہم صرف چندے سے اسکول چلا رہے تھے۔

1964ء کے صدارتی چناؤ کو بازیافت کرتے ہوئے آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کا امیدوار طے ہونے سے پہلے خواجہ ناظم کا انتقال ہو گیا، بالآخر محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر اتفاق ہوا۔ ایوب خان کا دور بہت سخت تھا، فاطمہ جناح کے کاغذات نام زَدگی جمع کراتے ہوئے اغوا ہونے کا خوف تھا، اسی لیے حسن اے شیخ ایڈووکیٹ اور مجیب الرحمن کے ساتھ آزاد بن حیدر بھی الگ الگ کاغذات لے کر گئے۔ گرومندر (کراچی) کے قریب حسین سہروردی کی کوٹھی لکھم ہاؤس حزب اختلاف کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی تھی، شیخ مجیب الرحمن بھی وہیں ٹھیرتے۔ آزاد بن حیدر کے شیخ مجیب سے نہایت بے تکلفانہ تعلقات تھے، دونوں ایک دوسرے کے لیے چائے بناتے۔ کراچی سے لاہور ساتھ گئے، تو ریل میں دونوں تاش کھیلتے رہے۔ دو جنوری 1965ء کو چناؤ تھا، 80 ہزار ’بی ڈی‘ اراکین کا انتخاب ہونا تھا، مجیب نے کہا کہ  30 ہزار ہم دے گا، تم بس 11 ہزار دو، مادر ملت جیت جائیں گی۔‘

انتخاب کے روز شیخ مجیب کو بھی فون کرنا تھا، لیکن اُس دن مشرقی پاکستان سے مواصلاتی رابطہ منقطع رہا۔ اگلی صبح نو بجے رابطہ ہو سکا، مجیب نے فاطمہ جناح کے لیے  پیغام دیا  کہ ہم ان انتخابات کو نہیں مانتے، ہم اِس دھاندلی کے خلاف مہم چلائیں گے۔ آزاد بن حیدر نے کے بتوسط ایچ خورشید یہ سندیس پہنچایا، مادر ملت نے کہا ’نہیں، اس سے قتل عام ہوگا، ہم نے لوگوں کو جگا دیا ہے، اور اب ایوب خان کا جانا ٹھیر گیا ہے۔‘ اسی اثنا میں لیاقت آباد میں گوہر ایوب نے جلوس نکالا۔۔۔ گھر نذرآتش کیے اور گولیاں چلائیں۔ آزاد بن حیدر، زیڈ ایچ لاری کے ساتھ وہاں پہنچے، تو افراتفری کا عالم تھا، ٹائر جل رہے تھے۔ فاطمہ جناح وہاں پہنچیں اور کہا کہ ’انہیں کیوں مارتے ہو، ان لوگوں کا کیا قصور ہے؟ یہی قصور ہے کہ انہوں نے مجھے ووٹ دیا، گولی مارنی ہے تو مجھے مارو۔‘ آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ یہاں سے پٹھان اور مہاجر نفرتیں شروع ہوئیں، پہلے ایسا نہیں تھا۔

معاہدۂ تاشقند کے بعد فروری 1966ء میں چوہدری محمد علی نے گلبرگ لاہور میں تمام جماعتوں کی کانفرنس بلائی۔ یہاں شیخ مجیب نے اپنے چھے نکات پیش کیے، تو ہنگامہ ہوگیا اور اجلاس ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ شیخ مجیب یہاں سے غلام جیلانی کی کوٹھی پر چلے گئے، اور اگلے دن پریس کانفرنس کی کہ 1965ء کی جنگ آپ نے تو لڑ لی، ہمارے پاس کیا ہے؟ جی ایچ کیو، فضائی اور بحریہ ہیڈ کواٹر سب یہاں ہیں، جب کہ 56 فی صد ہم  دیتے ہیں۔ شیخ مجیب نے کہا آزاد بھائی، ہم پر بہت دباؤ ہے۔ ہماری پٹ سن کا پیسہ مغربی پاکستان کھا رہا ہے، سی ایس پی آفیسر، جوائنٹ سیکریٹری، بریگئیڈیر اور کمشنر تک 80 نوے فی صد لوگ تمہارا ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں ہمیں بھی اپنا سمجھو، ہمیں 56 نہ سہی 40 یا 30 فی صد تو دو، ہم وہاں کیا منہ دکھائے گا۔

چناؤ جیتنے کے بعد اُن کی شیخ مجیب سے بیچ لگژری ہوٹل (کراچی) میں ملاقات ہوئی۔ آزاد بن حیدر نے ازراہ مذاق کہا کہ اب تو یحییٰ نے بھی تمہیں اگلا وزیراعظم قرار دے دیا، یہ بتاؤ بطور وزیراعظم پہلا کام کیا کرو گے؟ انہوں نے بھی مذاقاً جواب دیا کہ ہر مغربی پاکستانی کو مشرقی پاکستانی سے شادی کرنی ہوگی، جس کا خرچ حکومت برداشت کرے۔ گفتگو کا موضوع سنجیدہ ہوا، تو شیخ مجیب نے کہا بھٹو اور یحییٰ ظاہراً یہ کہہ رہے ہیں، لیکن یہ مجھے وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ یہ تو ہمیں بھوکا بنگالی کہتے ہیں، پاکستانی ہی نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ شیخ مجیب بد دل تھے، لیکن پھر بھی علیحدہ ہونے کی بات نہیں کی۔

آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ 1966ء میں مسلم لیگ  کی مرکزی کونسل کے لیے جب یہ دیکھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کا نام موجود نہیں ہے، تو اپنے نام کی جگہ اُن کا نام دیا، کہ چاہے وہ نہ آئیں، لیکن اعزازی طور پر ان کا نام ضرور ہونا چاہیے، جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے پانچوں صوبوں نے متفقہ طور پر میری رکنیت کی حمایت کی۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ میں مسلم لیگ کی تاریخ میں پہلا فرد تھا، جسے یوں اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا۔ آزاد بن حیدر فاطمہ جناح کی موت کو طبعی قرار دیتے ہیں۔

آزاد بن حیدر 1968ء کو کراچی پر بھاری قرار دیتے ہیں کہ سندھ کی علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں، اس سے پہلے حیدرآباد میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے اعلامیہ نکالا کہ اگلے سال چھٹی سے میٹرک تک امتحان سندھی میں لیا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے پہلے بچوں کو سندھی سکھانی چاہیے تھی۔ اس اعلامیے کے خلاف ایم پی اے نواب مظفر حسین خان، منیر آرائیں اور عثمان کینیڈی نے ’اردو محاذ‘ قائم کیا، آزاد بن حیدر کراچی میں اس کے صدر بنے۔ ’اردو محاذ‘ کی ہڑتال کے دوران سکھر میں ایک لڑکا اسلم جان سے گیا، کراچی میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ہوئی۔ اس کے بعد کراچی میں ’اردو محاذ‘ کا بڑا احتجاج ہوا، جس میں تصادم کی صورت حال پیدا ہونے لگی، تو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لفٹیننٹ جنرل رخمٰن گل نے مذاکرات کے بعد اُس اعلامیہ کی منسوخی پر دستخط کر دیے، آزاد بن حیدر نے کہا کہ  لوگ بہت زیادہ جذبات میں ہیں، اس لیے ہم حیدرآباد کا جلسہ منسوخ نہیں کر سکتے، البتہ وہاں اس اعلامیے کی منسوخی کا اعلان کر دیا جائے گا۔

آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ ابھی یہ مسئلہ حل ہوا ہی تھا کہ ایک دن ایک اخبار میں شہ سرخی لگ گئی کہ جی ایم سید نے اقوام متحدہ میں سندھودیش کو الگ ملک تسلیم کرنے کی درخواست جمع کرا دی اور علی احمد تالپور اس کے پہلے صدر ہوں گے۔ اس کے ردعمل میں انہوں نے ’کراچی صوبے‘ کے حوالے سے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنا شروع کردی کہ پہلے کراچی وفاقی علاقہ تھا، اب یہ دارلحکومت نہیں رہا، تو اسے بھی بلوچستان کی طرح ایک الگ صوبہ بنایا جائے۔ آزاد بن حیدر ’کراچی صوبہ محاذ‘  کے سربراہ ہوئے۔ اگلے دن ’کراچی صوبہ تحریک‘ کی خبر چھپی تو علی محمد راشدی نے جی ایم سید کی طرف سے ملاقات کا پیغام بھجوایا کہ کہاں ملیے گا؟ آزاد بن حیدر نے کہا وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ہم خود جائیں گے، کہتے ہیں کہ ہم نے ’سائیں سے کہا تھا کہ آپ زرعی اِکائی ہیں، تو ہم تجارتی مرکز ہیں، اگر پانی روکا گیا، تو ہم سعودیہ کی طرح سمندر پر فلٹر پلانٹ لگا لیں گے، سبزیاں درآمد کر لیں گے۔ گفت وشنید کے بعد وہ رضا مند ہوگئے کہ وہ اس درخواست کو عام نہیں کریں گے۔ بعد میں شیخ لیاقت حسین کے ہاں ایک دعوت میں ملے، تو آزاد حیدر کو اجرک پہنائی اور کہا آپ ہمارے ساتھ ’جیئے سندھ‘ میں آجائیں۔ نبی بخش بلوچ نے بھی خط لکھا کہ آپ کی سندھ اور پاکستان کو ضرورت ہے۔

دوسری طرف ’کراچی صوبہ محاذ‘ کی کور کمانڈر اور جنرل یحییٰ خان سے ملاقات ہوئی اور کراچی صوبہ بننے والا تھا۔۔۔ غالباً 27 یا 28 جون 1969ء کو ایوان صدر سے فون آیا، وہاں گئے، تو ایک اعلامیہ تیار تھا، جس میں صرف یہ طے ہونا رہ گیا تھا کہ گورنر اگر ’اردو گُو‘ ہوگا، تو کابینہ میں دیگر لسانی گروہوں، کے کتنے ارکان ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ میرے بھروسا مند کسی شخص یا ایوان صدر سے یہ بات باہر نکل گئی کہ یکم جولائی سے کراچی صوبہ بن رہا ہے، جس پر کچھ سینئر مہاجر اکابرین جن میں احتشام الحق تھانوی، سید حسین امام، زیڈ ایچ لاری، غفار پاشا،  محمود الحق عثمانی وغیرہ یحییٰ خان کے پاس پہنچے اور کہا  کہ اگر ایسا ہوا تو سندھ میں قتل عام شروع ہو جائے گا، اس میں نواب مظفر بھی پیش پیش تھے، کیوں کہ سندھ میں ان کی زمینیں تھیں، یوں اعلامیہ رک گیا۔

آزاد بن حیدر کے بقول ذوالفقار بھٹو کے لیے ’کراچی صوبہ چڑ تھا، ہر جمعے کو ریگل چوک پر ’کراچی صوبے‘ کے لیے مظاہرہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کراچی صوبہ ’مہاجر صوبہ‘ نہیں تھا۔ لیاقت آباد میں نو شہدائے اردو  میں صرف چار مہاجر، باقی تین پنجابی اور دو پٹھان ہیں۔ رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا تھا ’ہم اردو مانگتی ہے‘۔ شیخ مجیب نے کہا اسلام آباد کے بہ جائے کراچی سوٹ کرتا ہے، کراچی صوبے کے لیے میں تمہارے ساتھ ہوں۔

کراچی صوبے کے ساتھ بہاریوں کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ وہ کراچی میں انجمن مہاجرین مشرقی پاکستان کے چیف آرگنائزر مقرر ہوئے اور اورنگی ٹاؤن میں بہاریوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔ کہتے ہیں انتخابی سیاست میرا میدان نہیں، تاہم 1958ء، 1970ء اور 1985ء کے انتخابی چناؤ میں اترے، 1970ء کی دہائی میں ایک لاکھ افراد کے جلسے کرتے۔ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے وعدے پر انہوں نے ریفرنڈم میں ضیاالحق کی حمایت میں پہلی تقریر کی۔کہتے ہیں کہ جنرل ضیا کو حساس دستاویزات دیں اور بتایا کہ ’ایم آر ڈی‘ کی تحریک اب ’را‘ اور ’سی آئی اے‘ چلا رہی ہے، جس پر جنرل ضیا الحق بہت خوش ہوئے۔

سیاست میں قائداعظم کے بعد لیاقت علی، خواجہ ناظم اور سردار عبدالرب نشتر پسند ہیں۔ موجودہ سیاست دانوں میں پسند پوچھی  تو کہنے لگے کہ پہلے یہ تلاش کرنا ہوگا کہ اس وقت کوئی سیاست دان ہے بھی؟ عدم استحکام کو وہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں، جو ایک قوم بنانے سے حل ہو سکتا ہے، ایٹم بنانے سے نہیں۔ اب ہمارے اندر قومیتیں، لسانیت اور فرقہ واریت پھیل چکی ہے۔ کتاب کلام پاک پسند ہے۔ فکشن کو وہ عیاشی قرار دیتے ہیں، البتہ مولانا محمد علی جوہر اور وقار انبالوی کے کاٹ دار اشعار پڑھ کر سناتے ہیں۔ آج کی سیاست میں اصلی مسلم لیگ کون سی ہے؟ کہتے ہیں ’کوئی مسلم ہو تو مسلم لیگ ہو گی نا۔ ‘

1948ء سے زیادہ تر سفاری سوٹ پہنتے ہیں، البتہ مذہبی تقاریب میں شیروانی زیب تن کرتے ہیں۔ کھانے میں مونگ کی دال پسند ہے۔ فلم ڈولی کا افتتاح فاطمہ جناح نے کیا، اس لیے بلیک میں ٹکٹ خریدا۔ اداکاری دلیپ کمار کی، جب کہ گائیکی غلام علی اور مہدی حسن  کی پسند ہے۔ عرب گلوکارہ ام کلثوم کے بھی معترف ہیں، جس نے ’شکوہ جواب شکوہ‘ پڑھی۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ کام یابی کے ’ک‘ پر بھی پورا نہیں اترتے، بس اسلام اور پاکستان کے خادم کی حیثیت سے تھوڑا بہت کام کیا۔ قیام پاکستان خوش کُن اور تقسیم پاکستان غمگین لمحہ تھا۔ آزاد بن حیدر کا ماننا ہے کہ نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب قرآن نے کہا کہ تمام مومنین ایک ملت ہیں۔

والدین سیال کوٹ میں رہے، لیکن میں ’کراچوی‘ ہو گیا ہوں
آزاد بن حیدر کا اصل نام ذوالفقار علی ہے، جو مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی کے بھائی سے  متاثر ہو کر رکھا گیا۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی، تو ’آزاد‘ کہہ کر پکارے گئے، والد کا نام حیدر تھا یوں ’آزاد بن حیدر‘ کہلانے لگے۔ اب خاندان والے بھی آزاد کہتے ہیں۔ محفل میلاد میں تقاریر کے سبب بہت سی جگہوں پر مولانا کا سابقہ بھی جڑ دیا جاتا تھا۔ جائے پیدایش؛ سیال کوٹ، جنم دن؛ دو جنوری 1932ء، اسلامیہ ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت تک زیر تعلیم رہے۔ 1951-52ء میں منشی فاضل کیا، جس کے بعد انگریزی کے دو امتحان کے بعد طالب علم بالترتیب انٹر اور بی اے کے مساوی قرار پاتا ہے۔ 1961ء میں ایس ایم لاکالج سے وکالت کی تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں بہ حیثیت مقرر شدومد سے مباحثوں میں شریک ہوتے۔ 1959-60 میں ایم اے فارسی کیا۔ وکالت کا آغاز ہوا، سپریم کورٹ  میں وکالت کی، اب ’چیمبر پریکٹس‘ کرتے ہیں۔

’لیگل اوپنین‘ کے لیے مقدمات آتے ہیں۔ چار چیک آتے ہیں، تو تین بیوی کو دیتا ہوں، ایک خود رکھ لیتا ہوں۔ آزاد بن حیدر کہتے ہیں ’والدین سیال کوٹ میں ہی رہے، لیکن میں کراچوی ہوگیا ہوں‘ میٹرک کے بعد سیال کوٹ میں ایک سال کثیرالقومی ادارے میں سیلز مین رہے، پھر کراچی میں ایک دوست کے توسط سے وزارت خارجہ میں اسٹورکیپر کے ساتھ کام کیا۔ کچھ عرصے بعد ’شاہین‘ کے نام سے چائے بنائی، یہ مقبول ہوئی، تو تین بڑی چائے کمپنیوں نے قانونی نوٹس بھیج دیے کہ ہم سے ملتے جلتے ڈیزائن بنائے گئے  ہیں، انہوں نے گرفتاری کے ڈر سے کام بند کر دیا۔ 1953ء میں ’نمائش‘ پر پہلی دفعہ نمائش لگی، جہاں انہوں نے سینما سلائیڈ پر اشتہار چلانے کا تجربہ کیا، اس کے بعد لاہور (انار کلی) سیال کوٹ اور فیصل آباد میں بھی یہ سلائیڈ متعارف کرائی۔ شادی 1962ء میں خاندان میں ہوئی۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ تمام مصروفیات کتابوں کے درمیان ہے، ’جناح تھنکرز فورم‘ سے نظریاتی کام کر رہے ہیں۔

پروفیسر غفور نے الطاف حسین سے متعارف کرایا
آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ 1977ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی راہ نما پروفیسر غفور احمد نے الطاف حسین سے متعارف کرایا  کہ ’یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت اچھے مقرر ہیں، کبھی انہیں بھی وقت دیں۔‘ ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق  کراچی صوبے اور بہاری تحریک میں اِن کے کارکن رہے، انہوں نے جب سلیم شہزاد کے مقابلے میں انتخاب لڑا، تو عظیم طارق نے کارکنوں کو تاکید کی کہ کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔

آزاد بن حیدر نے انتخابی دفتر بھی نہیں کھولا، بلکہ ایم کیو ایم کے دفتر میں ہی بیٹھ جاتے، جہاں کولڈ ڈرنک اورسگریٹ سے تواضع کی جاتی۔ نتائج آئے، تو سلیم شہزاد جیتے، آفاق شاہد دوسرے اور وہ تیسرے نمبر پر آئے۔ آزاد بن حیدر ایم کیوایم کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے، جس کی صدارت رئیس امروہی نے کی۔ کراچی صوبہ، اردو محاذ اور بہاریوں کے لیے جدوجہد کی وجہ سے وہ خود کو ایم کیو ایم کی مجبوری قرار دیتے ہیں۔ آزاد بن حیدر کہتے ہیں کہ پہلے اجلاس میں جب اذان ہونے پر وقفہ کرنے کے لیے کہا تو کہا گیا کہ یہ اذانیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد کبھی اُن سے تعلق نہیں رکھا۔ نواز شریف نے اپنے ساتھ نائن زیرو چلنے کا کہا، تب بھی انہوں نے انکار کیا۔

’’1972ء میں کراچی کی آبادی نصف ظاہر کی گئی‘‘
بن حیدر کہتے ہیں کہ 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی آدھی ظاہر کی گئی۔ جب انہوں نے اس حوالے سے پریس کانفرنس کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی 60 لاکھ آبادی کو سیکریٹری داخلہ سندھ محمد خان جونیجو نے 30 لاکھ کر دیا۔ کہتے ہیں کہ مارشل لا عدالت میں محمد خان جونیجو نے اس ردوبدل کا اعتراف بھی کیا تھا۔ آزاد بن حیدر بھٹو دور میں اکثر گرفتار رہے، ایک مقدمے سے رہا ہوتے، تو دوسرے میں دھر لیے جاتے۔ کہتے ہیں کہ بھٹو انہیں کہتے کہ جو چاہیے لے لو، مگر میرے خلاف تقاریر نہ کرو۔ ڈائریکٹر انٹیلی جینس راؤ رشید علی خان کو بھٹو نے لکھا کہ سندھ میں میرا دشمن نمبر ون آزاد بن حیدر ، ممتاز بھٹو نے انہیں جی ایم سید سے سو گنا زیادہ ’خطرناک‘ کہا۔ جب ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے ’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘ کے تحت انہیں رہا کیا۔

’’75 فی صد پاکستان پر ہندوستان کا قبضہ ہے!‘‘
آزاد بن حیدر ان دنوں ایک کتاب لکھ رہے ہیں کہ کس طرح قائداعظم کی فکر کے ذریعے باقی ماندہ 25 فی صد پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ باقی 75 فی صد پر ہندوستان کا قبضہ ہے۔ 56 فی صد مشرقی پاکستان، چھے فی صد جونا گڑھ (جو پہلے آئین میں ہمارا پانچواں صوبہ تھا)، چھے فی صد حیدرآباد دکن (جس کے 20 کروڑ روپیے سے پاکستان شروع ہوا) سات فی صد مقبوضہ کشمیر ہے۔ کہتے ہیں کہ  یہاں بھی چار صوبوں میں ہندوستان کے چار ایجنٹ بیٹھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔