عاشق رسولﷺ غازی علم الدین شہیدؒ

ناموس رسالتؐ پر قربان ہو کر ایک بڑھئی کا بیٹا عظیم مرتبے پر فائز ہو گیا


November 05, 2017
علم الدین اپنے حال میں مست رہتے تھے، انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ فوٹو :فائل

مسلمان کی سب سے گراں مایہ متاع حیات محبت رسول ؐ ہے اور جس شخص کا دامن اس متاع سے خالی ہے، اس کا دعویٰ اسلام و ایمان ادائے بے دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''مومن وہی ہے جو محمد ؐ کو اپنی جان سے اپنے مال سے اپنی اولاد سے اور اپنے والدین سے عزیز سمجھتا ہو''

علم الدین شہید عالم دین تھے نہ کوئی معروف صوفی و متقی یا کسی گروہ و جماعت کے قائد تھے، مگر ان کی شہادت اور حرمت رسول پاکؐ پر ان کی زندہ گواہی نے انہیں وہ بلند مقام عطا کیا جو ہزاروں اتقیاء، سلاطین اور علماء کو بھی نہیں مل سکا۔ میاں علم الدین کے والد طالع مند غریب آدمی تھے۔ شرافت انہیں ورثہ میں ملی تھی، وہ پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔

ان کی برادری کے کچھ لوگ محلہ سرفروشاں میں رہتے تھے اور کچھ خرادی محلہ میں! ان کے اجداد میں لہنا سنگھ... بعہد شہنشاہ جہانگیر مشرف بہ اسلام ہوئے، جن کا مزار موضع پڈانہ برکی ہڈیارہ بارڈر کے قریب بابا لہنو کے نام سے مشہور ہے، جہاں اب بھی ہزاروں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ بابا کے ایک بیٹے کی اولاد بھی وہیں تھی۔ دوسرے بیٹے برخوردار سے والد شہید یوں ملتے ہیں، طالع مند ولد عبدالرحیم ولد جویابرخوردار ولد عبداللہ ولد عیسیٰ ولد برخوردار اور یوں علم الدین سات پشت سے بابائے نو مسلم سے ملتے ہیں۔

علم الدین ابھی ماں کی گود میں ہی تھے کہ ایک روز ان کے دروازے پر کسی فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی۔ ان کی والدہ انہیں اٹھائے اس سوالی کو حسب استطاعت کچھ د ینے کے لئے گئیں اور جب اس فقیر نے معصوم علم الدین کو دیکھا تو ان کی والدہ سے کہا کہ ''تیرا بیٹا بڑے نصیب والا ہے، اللہ نے تم پر بڑا احسان کیا ہے۔'' ماں نے کوئی جواب نہ دیا اور علم الدین کو چومنے لگیں تو اس فقیر نے ہدایت کی کہ ''بیٹا! اس کو سبز کپڑے پہنایا کرو۔'' علم الدین جب ذرا سیانے ہوئے تو طالع مند نے انہیں محلہ کی مسجد میں داخل کر ا دیا۔ وہ کچھ عرصہ وہاں پڑھتے رہے اور پھر انہیں بازار نوہریاں اندرون اکبری دروازہ میں بابا کالو کے پاس پڑھنے کو بٹھا دیا... لیکن وہ وہاں بھی نہ پڑھ سکے، طالع مند گاہے بگاہے انبالہ' کوہاٹ اور دوسرے دوردراز مقامات پر بھی جا کر کام کیا کرتے تھے، جس دوران وہ اکثر علم الدین کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

علم الدین اپنے حال میں مست رہتے تھے، انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اس وقت تک انہیں یہ بھی علم نہیں تھاکہ شیطان صفت راجپال نامی بدبخت نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ؐ کی شان کے خلاف ایک دل آزار کتاب شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا اور عاشقان رسولؐ نے حکومت پنجاب سے اس کے خلاف مقدمہ د ائر کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر اس مقدمہ کا جو نتیجہ نکلا وہ بھی مسلمانوں کے نزدیک قابل اطمینان نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی عبدالعزیز اور اللہ بخش کو راجپال کے خلاف دو مختلف مقدمات میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا سنا دی تھی۔

علم الدین ان حالات سے بے خبر تھے، ایک روز وہ حسب معمول کام پر گئے ہوئے تھے، غروب آفتاب کے بعد جب وہ واپس گھر جا رہے تھے تو دلی دروازہ میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ ایک جوان کو تقریر کرتے دیکھ کر وہ رکے... کچھ دیر کھڑے وہ سنتے رہے، پھر ایک صاحب سے انہوں نے دریافت کیا تو انہوں نے علم الدین کو بتایا کہ راجپال نامی بدبخت نے نبی کریم ؐ کے خلاف کتاب چھاپی ہے، اس کے خلاف تقریریں ہو رہی ہیں۔ علم الدین پڑھے لکھے تو تھے نہیںاور تقریریں اردو میںکی جا رہی تھیں، ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا وہ آگے کو بڑھے... اور بہت دیر تک ان لوگوں کی باتیں بھی سنتے رہے۔ اس دوران ایک اور مقرر آئے وہ پنجابی میں مخاطب ہوئے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے راجپال کو واجب القتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانو! اپنی جانیں قربان کر دو اور اس بدبخت راجپال کو اس کے انجام تک پہنچا دو۔ وہ مقرر نجانے اور کیا کچھ کہتے رہے لیکن علم الدین کی قوت سماعت سے صرف یہی الفاظ ٹکرا رہے تھے۔ ''راجپال واجب القتل ہے، اپنی جان کا نذرانہ دینے والو راجپال کو اس کے انجام تک پہنچا دو'' تقریروں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ علم الدین اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچنے پر علم الدین بہت تھکے ہوئے تھے، لہذا جلد ہی سو گئے۔

عشق رسولؐ کے جذبے سے سرشار علم الدین پر اب ہر لمحہ کوہ گراں کی طرح گزر رہا تھا، انہیں کسی پل چین نہیں تھا' ہر وقت گستاخ رسولؐ کو جنم واصل کرنے کے بار ے میں سوچ میں ڈوبے رہتے۔ آخر کار 4 اپریل 1929ء کو وہ گھڑی آ گئی' علم الدین گھر سے نکلے' گمٹی بازار سے ایک چھری خریدی اور اسے اپنی ڈھب میں چھپا کر راجپال کے دفتر کی طرف روانہ ہو گئے۔ انار کلی میں ہسپتال روڈ پر راجپال کا دفتر تھا، جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا۔ علم الدین کھوکھے کے ساتھ لگے ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ وہ کس وقت آئے گا؟ علم الدین نے کھوکھے والے سے دریافت کیا تو اس نے لا علمی کا اظہار کیا۔ وہ ابھی انہی باتوں میں مصروف تھا کہ اتنے میں ایک کار راجپال کے دفتر کے سامنے آ کر رکی۔ دروازہ کھلا... جونہی راجپال باہر نکلا' اس جوان نے علم الدین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا''یہی راجپال ہے جس نے کتاب چھاپی ہے۔''

راجپال کو دیکھتے ہی علم الدین کی آنکھوں میں خون اتر آیا... اور پھر ان کی قوت سماعت سے وہی الفاظ ٹکرائے''علم الدین دیرنہ کرو' یہ کام تم نے کرنا ہے، اٹھو! جلدی کرو''۔ اس کے سات ہی وہ اٹھے اور تیز تیز قدم اٹھاتے راجپال کے دفتر کی طرف چل دیئے۔ راجپال دفتر میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے ٹیلی فون کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں علم الدین دفتر کے اندر داخل ہوگئے، اس وقت راجپال کے دو ملازم بھی وہاں موجود تھے۔ کدارناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو دفتر میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ موت اس کے اتنے قریب آ چکی ہے۔

علم الدین نے راجپال کو پہچاننے کے بعد پلک جھپکنے میں ڈھب سے چھری نکال لی... ان کا ہاتھ نظر ٹکنے کے مقام پرضرب لگانے میں مشاق تھا... ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور چھری کا پھل راجپال کے جگر پر جا لگا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ''ہائے'' کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا پڑا۔ کدارناتھ بھی آواز سن کر وہاں پہنچ چکا تھا، علم الدین کو چھری پھینکتے دیکھ کر کدارناتھ نے ہاتھ میں پکڑی کتابیں علم الدین پر اچھال دیں اور انہیں پکڑ لیا۔ ا تنے میں اور لوگ بھی آ گئے اور علم الدین چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے۔''میں نے رسول اللہ ؐ کا بدلہ لے لیا... میں نے رسول ا للہ ؐ کا بدل لے لیا۔'' پولیس تھانہ لوہاری گیٹ نے علم الدین کو گرفتار کر لیا اور راجپال کی نعش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دی گئی۔

10 اپریل کو علم الدین کو زیر دفعہ 302 تعزیرات ہند مسٹرلوئس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، استغاثہ کی طرف سے ایشروداس کورٹ ڈی ایس پی پیروکار تھا جبکہ علم الدین کی طرف سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا۔ ازاں بعد علم الدین کی طرف سے خواجہ فیروز الدین بیرسٹر پیروکار تھے اور ان کی امداد کے لئے ڈاکٹر اے آر خالد تھے، پھر بیرسٹر فرح حسین نے ذمہ داری سنبھال لی۔ سیشن جج نے 22 مئی کو علم الدین کو قتلِ راجپال کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔ 31اکتوبر1929ء کا دن میانوا لی کی تاریخ میں مہتم بالشان روز ہے، کیوں کہ اس دن میانوالی کی جیل میں رسول اللہ ؐ کی حرمت پر قربان ہونے والے عاشق رسولؐ شیر دل علم الدین کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔

غازی علم الدین کو جب پھانسی کے لئے لایا گیا تو تختہ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ پولیس کے جوان کھڑے تھے، سب کی نظریں آپ پر جمی تھیں، ان کی نظروں نے اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختہ دار تک پہنچتے دیکھا تھا لیکن جس شان قوت ارادی سے انہوں نے علم الدین کو تختہ دار کی جانب بڑھتے دیکھا تھا، وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے...لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جو ''حیات'' علم الدین کو نصیب ہونے والی تھی اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند ہو گا۔ سب اپنے اپنے مقام پر ساکت ہو گئے تھے... لیکن علم الدین کے قدم تختہ دار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اور پھر وہ اس مقام پر جا کر رک گئے جہاں تک پہنچنے کی آرزو ان کے دل میں تھی... مجسٹریٹ نے آپ سے آخری خواہش پوچھی تو آپ نے کہا ''میں چاہتا ہوں کہ پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈالوں'' لیکن داروغہ جیل نے کہا کہ علم الدین یہ خود کشی کے مترداف ہو گا تو آپ نے بھی اصرار نہ کیا۔ تختہ دار پر وہ پھر گویا ہوئے کہ ''میرے ہاتھ اور پاؤں نہ باندھے جائیں تاکہ میں شدید اذیت سے دو چار ہوں اور اس کے صدقے مجھے اگلے جہاں محبوبؐ خدا کا قرب حاصل ہو سکے'' لیکن متعلقہ حکام نے آپ کی اس خواہش کومسترد کر دیا اور آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے... آنکھوں پر سیاہ پٹی اور سر پر ٹوپی چڑھا دی گئی۔

اس دوران آپ نے وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''میں نے حرمت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے راجپال کو قتل کیا ہے، تم گواہ رہو کہ میں عشق رسول ؐ میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوا جان دے رہا ہوں۔'' آپ نے کلمہ شہادت باآواز بلند پڑھا۔ آپ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا... مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا... اور خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا... چند لمحوں ہی میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے جسم کو پھانسی کے تختہ سے اتار لیا گیا۔ جیل کے باہر علم الدین کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ جیل حکام نعش ان کے حوالے کریں لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھاکہ علم الدین کی نعش مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے کیوں کہ انہیں خطرہ تھا کہ لوگ جلسے جلوس نکالیں گے جس سے حالات خراب ہو جائیں گے۔

اور یوں اس خدشہ کے پیش نظر جیل حکام نے علم الدین کو بنا غسل دیئے قیدیوں کے قبرستان میں ایک گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ جیل کے باہر غازی علم الدین کی نعش حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے لوگوں کو جب علم ہوا کہ علم الدین کو جیل حکام نے قیدیوں کے قبرستان میں ہی دفن کر دیا ہے تو وہ مشتعل ہو گئے۔ نعرہ رسالتؐ، غازی علم الدین شہید زندہ باد کے نعرے گونج اٹھے۔ اس سے پہلے کہ پولیس اس ہجوم کو منتشر کرتی ڈپٹی کمشنر زمان مہدی نے مسلمانوں کو اپنے طور پر مطمئن کیا اور یوں ہجوم منتشر ہو گیا۔

حرمت رسول ؐ کی خاطر قربان ہونے والے علم الدین کے اس بیکسی سے دفن ہونے کی خبر جب مسلمانوں نے پڑھی تو اک طوفان اٹھا۔ جلوس نکلے' ہڑتالیں ہوئیں' جلسے منعقد ہوئے' قراردادیں پاس ہوئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ شہید کا جسم مبارک صندوق میں بند کر کے لاہور پہنچایا جائے، اس دوران ہزاروں لوگ میانوالی پہنچ چکے تھے، جیل حکام نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں مشتعل ہجوم علم الدین کا جسم مبارک نکال کر نہ لے جائیں، لہذا پولیس کے مسلح دستے قبرستان میں متعین کر دیئے گئے۔ قبرستان میں گیسوں کی روشنی کی گئی۔ شہید کے مزار پر جو چراغاں مسلمانوں نے کرنا تھا اس کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکام کے ہاتھوں میانوالی ہی میں کروا دیا۔

لاہور میں شاعر مشرق علامہ اقبال' سرشفیع' میاں عبدالعزیز' مولانا غلام محی الدین قصوری پر مشتمل وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی۔ کمشنر' ڈپٹی کمشنر نے مسلمانوں کے جذبات کا پاس کیا اور نعش کی حوالگی کے احکامات دے دیئے گئے۔ 13 نومبر کو غازی علم الدین شہید کی میت میانوالی جیل کے قبرستان میں کھودے گئے گڑھے سے نکلوائی گئی...۔ دفن ہونے کے 13 روز بعد یہ عمل ہوا... جسم مبارک کو لاہور لانے کے لئے سید مراتب علی شاہ گیلانی نے صندوق بنوایا۔ اگلے روز صبح 5 بجکر 35منٹ پر سپیشل ٹرین لاہور پہنچی۔ پونے سات بجے پونچھ ہاؤس کے سامنے وہ صندوق جس میں حرمت رسول اللہؐ کا فدا کار لیٹا ہوا تھا، مسلمان معززین کے حوالے کر دیا گیا۔ چوبرجی کے میدان میں قاری محمد شمس الدین نے نماز جنازہ پڑھائی اور بعدازاں انہیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

غازی علم الدین شہید نے اپنی جان قربان کر کے سب کو بتا دیا کہ یہ سر زمین حقیقی امن سے اس وقت تک شاد کام نہیں ہو سکتی جب تک اس میں بسنے والے، انسانیت کبریٰ کے اس سب سے بڑے ہمدرد اور فطرت انسانی کے سب سے بڑے راز دان کا ادب کرنا نہ سیکھیں، جس نے اپنے پیروں کاروں کو یہ تعلیم دے کر تمام انبیاء و مرسلین اور تمام مقتدیاں مذہب کی عزت و ناموس کو محفوظ کر دیا۔ حضورؐ کی اس تعلیم کی رو سے فرزندان اسلام تمام مذہبی پیشواؤں کا احترام کرنا لازم سمجھتے ہیں اور اس کے عوض وہ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے نبی آخرالزماںؐ کا احترام کریں۔ غازی علم الدین شہید ... جنہیں 4 اپریل1929ء سے پہلے ان کے عزیزوں' دوستوں اور محلے کے چند لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا، اب ہر ایک جانتا پہنچانتا ہے، اب کوئی عاشق رسولؐ، کوئی غازی اور کوئی شہید کہہ کر پکارتا ہے۔

مقبول خبریں