گزرے زمانے میں شادیوں کی یادیں

میاں عمران احمد  بدھ 20 دسمبر 2017
پرانی روایات کو ختم ہونا ہوتا ہے اور نئی روایات کو جنم لینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پرانی روایات کو ختم ہونا ہوتا ہے اور نئی روایات کو جنم لینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج ہم جہاں نئی روایات کو اپنا رہے ہیں، وہیں پرانی روایات دم توڑتی جارہی ہیں۔ آپ شادی بیاہ کی تقاریب کی ہی مثال لے لیجیے۔ پاکستان میں شادی بیاہ کے موقعوں پر پہلے بھی دل کھول کر خرچ کیا جاتا تھا اور آج بھی خرچ کرنے کی روایت برقرار ہے، لیکن بہت سی روایات اور یادیں معدوم ہو کر رہ گئی ہیں۔

پرانے وقتوں کی شادیوں میں دعوت نامے انتہائی اہتمام کے ساتھ گھر گھر جا کر تقسیم کیے جاتے تھے۔ کھانا پکانے والے باورچی بڑی اہمیت کے حامل ہوتے تھے، ان کا انتخاب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ بیاہ شادیوں پر کھانے پکانے والے باورچی بڑے ماہر خانساماں ہوتے تھے۔ جہاں پلاؤ اور قورمہ پکایا جاتا تھا وہاں زردے کی دیگیں ضرور پکائی جاتی تھیں۔ دیگیں پکانے والے عام طور پر نائی ہوتے تھے۔ وہ آتے ہی ایک مطالبہ ضرور کرتے کہ زردے کی پچھ یعنی ابلے ہوئے زردے کا پانی نکالنے کےلیے ایک چارپائی لا دیں۔ وہ اپنی طرف سے لائی ہوئی کسی بوری کا چوڑا ٹکڑا چارپائی پر الٹا کرکے یا ویسے سیدھی چارپائی پر ہی بچھا دیتے۔ جب دیگ میں زردے کے چاول خوب کھولنے لگتے تو دیگ کو چارپائی پر الٹا دیا جاتا۔ زردے کا زرد پانی بوریئے کے ٹکڑے میں سے چھن کر نیچے بہہ جاتا اور زرد چاول بوری کے اوپر رہ جاتے۔

دوسرے روز اگر بارات دن کے وقت آنی ہوتی تھی تو باورچی صاحب رات کو ہی آجاتے۔ مکان کے صحن اور باہر گلی میں بجلی کا بڑا بلب یا گیس بتی روشن کر دی جاتی۔ آمنے سامنے دو تین چارپائیاں بچھ جاتیں، گھر کے چند مدبر آدمی باورچی کے پاس چارپائی پر بیٹھ جاتے۔ باورچی صاحب اپنے شاگرد کو لہسن پیاز کاٹنے پر لگا دیتے اور خود بریانی یا پلاؤ اور قورمے کا مصالحہ تیار کرنے میں لگ جاتے۔ دوسری چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے مدبر بڑے بوڑھے لوگ حقہ پیتے ہوئے کسی بھانجے یا اپنے بچوں کی شادی پر پکنے والے کھانوں کی تفصیل بیان کرنا شروع کر دیتے۔

نوکر اینٹیں جوڑ کر بنائے ہوئے چولہے میں لکڑیاں خاص ترتیب سے لگا کر آگ روشن کرتا۔ اس پر پانی گرم کرنے کے واسطے دیگ چڑھا دیتا۔ جب پانی خوب گرم ہو جاتا تو بڑے سے ٹب میں ڈالی ہوئی پلیٹیں اور کراکری وغیرہ کا دوسرا سامان گرم پانی سے دھو دھو کر ایک دوسرے صاف ستھرے ٹب میں یا بڑی میز پر لگا دیا جاتا۔ زردے اور پلاؤ کی دیگیں بارات کے آنے پر دم کی جاتیں۔ اگر زردے کے ساتھ باراتیوں کی تواضع آلو بخارے کے مربے اور فیرنی سے کی جانی ہوتی تو فیرنی کی ٹھوٹھیاں ورق لگا کر گھر کے کسی کمرے کے فرش پر رکھ دی جاتیں اور اس کی خاص طور پر حفاظت کی جاتی۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک چیز بڑی دلچسپ ہوتی تھی۔ نائی، دم پر رکھی ہوئی دیگوں کی گردن میں بڑے کھانچے سے چولہے کے انگارے بڑی چابک دستی سے ڈالتا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد جب دیگ کی گردن میں پڑے ہوئے آگ سے سرخ انگارے بجھ جاتے اور ان کی راکھ باقی رہ جاتی تو انہیں دیکھ کر یوں لگتا جیسے دیگوں نے سفید پھول کے ہار ڈال رکھے ہوں۔

پرانی شادیوں میں دولہا گھوڑے پر بیٹھے ہوتے تھے، چہرہ گیندے کے پھولوں یا تلے کی جھالروں میں چھپا ہوتا تھا، دولہا نے گلاب اور گیندے کے ہار گلے میں ڈالے ہوتے تھے۔ پھر جب کمرشل دور شروع ہوا تو گیندے اور گلاب کے پھولوں کی جگہ سو اور پچاس روپوں والے کرنسی نوٹوں کے ہاروں نے لے لی۔ دولہے کا گھوڑا خوب سجا ہوتا تھا اور دولہے کے پیچھے ایک شہ بالا بیٹھا ہوتا تھا۔ یہ شہ بالا دولہا کا کوئی قریبی عزیز پانچ چھ برس کا بچہ ہوتا تھا جس نے دولہا کو دونوں بازوؤں سے بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا تھا۔

بارات کو محلے کے کسی شادی گھر میں یا ہمسائیوں کے دو تین کمرے لے کر وہاں جازم بچھا کر دسترخوان لگادیا جاتا تھا۔ باراتی آمنے سامنے بیٹھ جاتے اور پھر پلاؤ زردہ آنے کا انتظار شروع ہوجاتا جو بڑا صبر آزما ہوتا تھا۔ پلاؤ زردے کی خوشبوئیں بہت آتی تھیں لیکن پلاؤ نہیں آتا تھا۔ باراتی گردنیں اٹھا اٹھا کر اس دروازے کی طرف دیکھتے رہتے جہاں سے پلاؤ اور زردے کو آنا ہوتا تھا۔ خدا خدا کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتیں اور آمنے سامنے باراتیوں کے آگے تانبے یا پیتل کا خالی گلاس رکھ دیا جاتا۔ پھر پانی والا آ کر ان گلاسوں کو پانی سے بھر جاتا، پھر تھالیاں رکھنے والا آکر دو باراتیوں کے درمیان ایک ایک تھالی رکھتا جاتا۔ پھر اچانک غنچہ امید کِھل اٹھتا اور دروازے میں دو آدمی نمودار ہوتے۔

ایک نے اپنے ہاتھ میں پلاؤ سے لبالب بھرا ہوا تھال اٹھایا ہوتا اور دوسرے نے ہاتھ میں چھوٹی تھالی پکڑی ہوتی۔ اندر آتے ہی چھوٹی تھالی والا آدمی پلاؤ والے تھال میں سے تھالی بھر بھر کر آمنے سامنے بیٹھے دونوں باراتیوں کے درمیان رکھی تھالی میں ڈالتا چلا جاتا۔ جب کمرے میں لگی باراتیوں کی دونوں قطاروں کی تھالیاں پلاؤ سے لبالب بھرجاتیں تو ایک آدمی تھال میں شوربے کی پیالیاں لیے داخل ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا آدمی ہوتا جو باراتیوں کے آگے شوربے کی ایک ایک پیالی رکھتا چلا جاتا۔ پھر آلو بخارے کی چٹنی والا آتا اور مٹی کے چھوٹے سائز کے دیے جتنی، چٹنی کی ٹھوٹھی رکھتا چلا جاتا۔ مگر اصول کے مطابق جب تک سارے باراتیوں میں کھانا تقسیم نہیں ہوجاتا، پلاؤ کا نوالہ اٹھانا بُرا سمجھا جاتا تھا۔

آمنے سامنے بیٹھے دونوں باراتی ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھا رہے ہوتے تھے۔ ایک ایک بوٹی والا، شوربے کا پیالہ پلاؤ پر الٹ دیا جاتا، ایک آدمی اپنی طرف والے پلاؤ میں ایک طرف دو انگلیاں ڈال کر خفیہ طور پر اس طرح اندر ہی اندر راستہ بنا دیتا کہ سارا شوربہ اس کی طرف آ جائے، دوسرا بھی اسی حکمت عملی پر عمل کرتا۔ پھر تھالی میں پڑی دو بوٹیوں کےلیے بڑی شریفانہ کھینچا تانی شروع ہو جاتی۔ شوربے کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی تھی لیکن اس کی مقدار پلاؤ کی نسبت ہمیشہ کم ہی رہتی۔ عام طور پر پلاؤ کی دیگ پر کوئی سخی بزرگ بٹھایا جاتا تھا جبکہ شوربے کی دیگ پر کنجوس بزرگ کی ڈیوٹی ہوتی تھی جو آگے پیچھے بہت محبت سے پیش آتے تھے لیکن شوربے کی دیگ پر بیٹھتے ہی وہ بزرگ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے تھے۔ لیکن جو کچھ بھی تھا انتہائی دلچسپ اور رومانوی محسوس ہوتا تھا۔

یہ سچ ہے کہ آج یہ روایات اور کلچر زندہ نہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ زمانے کو بدلنا ہے اور وہ بدل کر ہی رہتا ہے۔ پرانی روایات کو ختم ہونا ہوتا ہے اور نئی روایات کو جنم لینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اسے بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہیے، کیونکہ زندہ قومیں اپنی دینی، علمی، معاشرتی و ادبی روایات اور ثقافتی ورثے کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔