وقت کی اہمیت

آج ہماری نوجوان نسل میں بالخصوص وقت کی ناقدری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔  فوٹو: فائل

آج ہماری نوجوان نسل میں بالخصوص وقت کی ناقدری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

حکایت مشہور ہے کہ کسی دانش ور نے لوگوں سے پوچھا بتاؤ! اس کائنات میں منہگی ترین چیز کیا ہے؟ کسی نے سونے کو منہگی چیز قرار دیا تو کسی نے ہیرے کو، کسی نے اولاد کو تو کسی نے وطن کو ۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں لیکن دانش ور کسی کے جواب سے بھی مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر خود ہی جواب ارشاد فرمایا کہ دنیا میں قیمتی ترین شے ’’وقت‘‘ ہے۔

انسان اگر محنت کر ے تو دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے حاصل کر سکتا ہے لیکن اگر اُس کے پاس وقت نہیں تو وہ ایک سوئی بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ چناں چہ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو وقت کو غنیمت جان کر رضائے الٰہی کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور نہ صرف دنیا کو پا لیتے ہیں بلکہ آخرت میں جنت جیسی ابد الآباد نعمتوں کے بھی مستحق قرار پاتے ہیں۔ لیکن یہی لوگ جب وقت کو صرف عیش کوشی اور خرمستیوں میں ضائع وبرباد کردیتے ہے تو جہنم کا ایندھن بن کے رہ جاتے ہے۔

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جا بجا ’’وقت‘‘ کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔ چناں چہ سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا ’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) کی راتوں کی قسم۔‘‘

پھر ایک مقام پر رات اور دن کی قسم بھی کھائی۔ فرمایا: ’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘

اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘ جب کہ سورہ عصر میں زمانے کی قسم کھائی۔

نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا (مفہوم) ’’صحت اور فراغت اللہ کی طرف سے دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘

اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اُن میں سے اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے، جس کا دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آخرت کا کوئی سامان۔

حضور سیدِ عالمؐ کا فرمانِ ہے کہ ’’ قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک ( بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے ۔ ۱۔ زندگی کیسے گزاری ۲۔ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا ۳۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ۴۔ جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کر تے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ۱۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ۲۔ بیماری سے پہلے صحت کو ۳۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو ۴۔ مصروفیت سے پہلے فراغت کو ۵۔ موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘

اگر ہم اپنی زندگی کے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمئن پائیں گے؟ یقیناً نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیش تر حصہ اور لمحات کھانے پینے، گھومنے پھرنے، فضول گپ شپ کرنے، فلمیں ڈرامیں دیکھنے، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ شاعر نے کہا ؎

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

یہ حقیقت ہے کہ گزرا ’’وقت‘‘ واپس نہیں آتا مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح، طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی ’’امید‘‘ کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ ’’مایوسی‘‘ کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ربِ قدوس کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔ وقت کی قدر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھے اور ہر لمحہ جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزارے تو نہ صرف بہت سارے کام اس احساس کے باعث قوت عمل پیدا ہونے کی وجہ سے پورے ہو جائیں گے بلکہ معاشرے میں بھی ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوگی۔

آج ہماری نوجوان نسل میں بالخصوص وقت کی ناقدری کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ دن بھر موبائل فون پر لگے رہنا، موقع ملتے ہی ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فضول کاموں میں وقت برباد کر نا عام ہے۔ ایسا کر کے نہ صرف وہ اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں بلکہ اپنی قسمت کے دروازے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے بند کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل جو کہ قوم کی معمار ہے وقت کی قدر کرے اور اْسے بروئے کار لائے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت کا راستہ دے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔