مقدر کے چقندر

جبار جعفر  اتوار 5 مئ 2013

اہل درد اس گریہ کو جس میں آنسو نہیں ٹپکتے ’’ہنسی‘‘ کہتے ہیں۔ پنج سالہ کامیاب جمہوری دور میں عیش کرنے کا کریڈٹ منتخب ہونے والوں کو جاتا ہے۔ اور ’’نہیں‘‘ کا پہاڑا پڑھنے کا کریڈٹ منتخب کرنے والوں کو۔ مثلاً گیس نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں، روزگار نہیں، کاروبار نہیں، روٹی نہیں، امن وامان نہیں، مال کی ضمانت نہیں، عزت کی حفاظت نہیں۔ صرف ایک قومی اثاثہ بچ گیا ہے یعنی ’’کرپشن‘‘۔ ماضی قریب میں قانونی قتل ہوتے تھے جب کہ پنج سالہ کامیاب دور جمہوریت میں آخری دن تک کامیاب قانونی ڈاکے پڑتے رہے۔ مثلاً

A۔ ٹیکس کی مد میں اگر حساب کتاب کی غلطی سے مطلوبہ رقم سے کچھ زائد رقم جمع ہوجائے تو زائد رقم واپس کرنے کو ’’ریفنڈ‘‘ (Refund) کرنا کہتے ہیں۔ عبوری حکومت تشکیل پانے کے 24 گھنٹے کے اندر FBR میں 600 ارب روپے کے گھپلے کا انکشاف ہوا۔ یعنی سیلز ٹیکس کی مد میں 190 ارب روپے جمع ہوئے اور بااثر افراد کو 600 ارب روپے ریفنڈ کیے گئے، یعنی جمع کی جانے والی ٹوٹل رقم 190 ارب روپے پر حساب کتاب کی غلطی سے 600 ارب روپے زیادہ لے لیے گئے تھے۔

B۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت صوبہ سندھ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 700 ارب روپے مختص کیے گئے (جس میں ملکی، غیرملکی قرضے اور متوسط طبقے سے وصول کردہ ٹیکسز کی رقم شامل تھی) 30 ارب روپے کراچی، حیدر آباد، سکھر کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے گئے اور باقی 670 ارب روپے اندرون سندھ کے ترقیاتی کاموں پر۔ کراچی، حیدر آباد وغیرہ میں 30 ارب خرچ کرکے جو ترقیاتی کام کیے وہ سب کو نظر آرہے ہیں اور 670 ارب کے ترقیاتی کام جو اندرون سندھ میں کیے ان کی تلاش جاری ہے۔

C۔ پنج سالہ کامیاب دور جمہوریت کے آخری دن نیشنل و صوبائی اسمبلی کے ارکان نے خود اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 40 فیصد سے 60 فیصد تک اضافہ کرلیا (اس کے علاوہ وغیرہ وغیرہ الگ ہے) یہ اضافہ گزشتہ دو سال پہلے کی تاریخ میں کیا گیا۔ اور دوسرے دن بینکوں کی چھٹی منسوخ کرکے سارے بقایا جات وصول بھی کرلیے گئے۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ انھوں نے گزشتہ پانچ سال پہلے کی تاریخ سے اپنی تنخواہوں، مراعات میں اضافہ کرکے پانچ سال کے بقایا جات نہیں لیے۔ جب اس غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی تو فوراً جواب ملا ’’لین دین پر مٹی پاؤ، عوام کی محبت بڑی چیز ہے‘‘۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا 2 فیصد اشرافیہ (معہ اہل وعیال) تاقیامت مقدر کی سکندر، اور 98 فیصد جمہوریہ (عوام) مقدر کی چقندر ہی رہے گی؟

پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے، چاہے ملک کا جغرافیہ بدل جائے لیکن نظام نہیں بدل سکتا۔ دادا گیا بیٹا آگیا، بیٹا گیا پوتا آرہا ہے۔ اسکول میں 100 الفاظ پر مشتمل ’’غربت‘‘ پر مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا۔ اشرافیہ کے نورنظر، لخت جگر نے اپنے مضمون میں غربت کا جو دردناک منظر کھینچا ہے ملاحظہ کیجیے۔

’’میرا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے ہے۔ ہمارا ڈرائیور، چوکیدار، گارڈز، مالی، خانساماں وغیرہ سب کے سب غریب لوگ ہیں۔ مہنگائی سے پریشان ہمارے ڈرائیور، چوکیدار اور گارڈز کے پاس تو ان کے اپنے پہننے کے کپڑے تک نہیں ہیں۔ میں نے جب بھی دیکھا ہے وردی میں ہی دیکھا ہے۔ خود ہماری غربت کا یہ حال ہے کہ ادھار پر زندگی گزر رہی ہے۔ در در کی ٹھوکریں مقدر میں لکھی ہیں۔ ایک بینک کا لاکھوں کا قرضہ چکانے کے لیے دوسرے بینک سے کروڑوں کا قرضہ لینا پڑتا ہے۔ ہم پر ترس کھا کر معاف ہوگیا تو ٹھیک ورنہ تیسرے بینک کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گیس، بجلی کے لاکھوں کے بل تک ادا کرنے کی سکت نہیں ہے۔ یہ تو اﷲ کا کرم ہے کہ کسی میں گیس بجلی کاٹنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔ ان دردناک حالات کی وجہ سے ڈیڈی نے مجھے صبح ناشتے سے پہلے اور رات ڈنر کے بعد دو سطری دعا کرنے کے لیے کہا ہے کیونکہ معصوم کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ’’یااﷲ! تو بڑا رحم کرنے والا ہے، میرے ڈیڈی کو آرٹیکل 63-62 کے حملے سے محفوظ رکھ۔ آمین!‘‘

حالات حاضرہ کے مطابق وہی پرانے چہرے، گھسے پٹے مہرے، بیٹے، پوتے، چاچے مامے، بھائی بھتیجے، چیلے چانٹے، نتھو خیرے، کوالیفائیڈ لٹیرے 63-62 کی چھلنی میں پھنسے بغیر ریٹرننگ افسروں کے سروں پر سے پھسل کر کامیاب امیدواران کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں، یعنی ماضی کے کوآپریٹیو، مہران، سوئس بینک اسکینڈلز، اخباروں اور خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقاتی رپورٹیں، عدالتی فیصلے، بینکوں کے اعلامیے، قرضہ خوروں، نادہندوں، ٹیکس چوروں کی فہرستیں وغیرہ سب کے سب غلط تھے، بوگس تھے، بہتان تھے اور پرنٹ، الیکٹرانک، سوشل میڈیا کی شرارت تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ طاہر القادری نے آرٹیکل 63-62 کے موثر اطلاق کے لیے موجودہ الیکشن کمیشن پر اعتراض کیا تھا جو سیاسی پارٹیوں کے نامزد ہیں۔ کسی نے ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ اس وقت کا مقبول ’’تھیم سانگ‘‘ تو یہ تھا کہ طاہر القادری آدھے پاکستانی ہیں، بیرونی ایجنٹ ہیں۔ الیکشن ملتوی کرانے آئے ہیں۔ مانا کہ عوام دودھ کے جلے تھے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے تھے لیکن کچھ دودھ کے دھلے ایسے بھی تھے جن کو ان کی ٹوپی پر اعتراض تھا کہ وہ پادریوں جیسی ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ویٹی کن سٹی سے پوپ نے بہ نفس نفیس ان کو پاکستان میں الیکشن سبوتاژ کرنے بھیجا تھا۔

ایک شخص نے دوسرے شخص سے سوال کیا ’’دن کے ایک بجے کراچی ایکسپریس 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لاہور روانہ ہوئی، اور رات کے تین بجے لاہور پہنچ گئی۔ بتاؤ میری عمر کتنی ہے؟‘‘ دوسرے شخص نے فوری جواب دیا ’’پچاس سال‘‘۔ پہلا شخص حیران رہ گیا پوچھا ’’بالکل صحیح، لیکن تم نے حساب کیسے لگایا؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا ’’ہمارے محلے میں ایک آدھا پاگل رہتا ہے، اس کی عمر پچیس سال ہے‘‘۔

کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ 63-62 کا جن دوبارہ بوتل میں بند ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ اکیسویں صدی کا جن ہے جو ڈسپوزایبل بوتل میں بند تھا۔ جن نکل گیا بوتل پچک گئی۔ میرے خیال میں محترم اصغر خان (ایئرمارشل) کی سیاست میں ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ سچی بات غلط جگہ پر کردیتے تھے یا غلط وقت پر۔ اور طاہر القادری کی کامیاب سیاست بنیاد زماں و مکاں کی بہترین ٹائمنگ ہے مثلاً انھوں نے الیکشن کے دن سارے ملک میں جگہ جگہ دھرنوں کا انتظام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کو ذہن میں رکھ کر سوچیے، پاکستان میں انتخابات کے بعد ایک امیدوار کامیاب ہوتا ہے اور 10امیدواروں کے خلاف دھاندلی ہوتی ہے۔ جیتنے والے اقلیت میں اور دھاندلی کا شکار اکثریت میں ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں اکثریت کی اہمیت سے کون واقف نہیں؟ 1۔ اب دھاندلی کا شکار اکثریت کو سڑکوں پر رکنا نہیں پڑے گا۔ یہ طاہر القادری کے دھرنوں کا رخ کریں گے جہاں ہر طرف ’’اہلاً و سہلاً مرحبا‘‘ کے بینر لہرا رہے ہوں گے۔ 2۔ان کے آگے پیچھے ساری جنگ پارٹیاں، پارٹی ٹکٹ سے محروم امیدوار، ناراض کارکن وغیرہ وغیرہ پہنچ جائیں گے۔ 3۔ طالبان کی زیر عتاب تینوں پارٹیاں بھی طاہر القادری کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں۔ موجودہ سیناریو ملاحظہ کیجیے۔

A۔ انتخابات سے واپسی ناممکن ہے۔ B۔ پنجاب میں الیکشن مہم اور بقیہ صوبوں میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ C۔ پاکستان کے تین بڑے (آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان، صدر مملکت) اس سال دسمبر تک ریٹائر ہوجائیں گے۔ D۔ ایسے میں دمادم مست قلندر شروع ہوجائے تو بات بڑی دور تک جائے گی۔ E۔ دوبارہ الیکشن پرامن ماحول میں ہی ہوسکتے ہیں۔ امن وامان قائم کرنے مارشل لاء آ نہیں سکتا، چنانچہ مجبوراً جاری عبوری حکومت ہی کو طول دینا پڑے گا کیونکہ ’’جھاڑو پھیرے‘‘ بغیر دوبارہ الیکشن کروانے کا فائدہ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔