انتخابی بدانتظامی اور دھاندلی کیوں؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 19 مئ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

حالیہ انتخابات کئی پہلو سے تاریخی و یادگاری رہے مثلا قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ سیاسی بنیادوں پر انتخابات ہوئے اور اس کے کچھ علاقوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو ووٹ کے حق کے استعمال سے روکنے کے معاہدے اور خواتین کی جانب سے ووٹ کے حق کا استعمال نہ کیے جانے کی خبریں سامنے ہیں، ووٹنگ کی 60 فیصد شرح کا ریکارڈ تناسب بھی قائم ہوا۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے میں سیاسی بلوغت کا ثبوت دے کر سیاستدانوں پر واضح کردیا کہ ووٹ کا استعمال ایک بہترین انتقام ہے اور اب عوام سیاسی مندروں، میناروں اور سیاسی شخصیات کے سامنے مزید سجدہ ریزی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

قومی سیاسی افق پر ابھرتی نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو ملک بھر میں انتخابی کارکن موجود نہ ہونے کے باوجود حیرت انگیز شرح سے ووٹوں سے نواز کر ملکی سطح اور خاص طور پر خیبرپختونخوا میں اس جماعت کو اپنے دعوے سچ کرکے دکھانے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ آزمائش میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ ن لیگ بھی جیت گئی لیکن اس کے اقتدار کا سارا عرصہ کمرہ امتحان میں گزرے گا۔ نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا ریکارڈ موقع بھی ملا۔ حالیہ انتخابات کی منفرد بات یہ بھی ہے کہ شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد جو ملکی سیاسی منظر میں اپنے آپ کو غیر جانبدار اور عوام کے ہر طبقہ میں ہر دلعزیز رکھتے تھے اس مرتبہ ان کی بڑی تعداد عملی طور پر سیاست میں حمایت اور مخالفت کے عمل میں کھل کر میدان میں سامنے آئی بعض نے انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ ان انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ووٹ کا حق ملا اور انھوں نے اس کو بلاکسی سیاسی وابستگی اپنی سوچ کے مطابق استعمال کیا۔  اس مرتبہ 45 لاکھ تارکین وطن کو بروقت ووٹ کا حق استعمال کرنے کا حق تو نہ مل سکا لیکن آیندہ کے لیے اس کے قوی امکانات ہوچکے ہیں۔

انتخابات میں مارپیٹ، عملہ اور ووٹروں سے بدسلوکی، بیلٹ پیپرز اور بیلٹ بکس چھینے جانا اور جعلی ووٹ بھگتانا، سیاسی کارکنوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کے واقعات ہماری سیاسی روایت کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس مرتبہ ہونے والے واقعات اور انتظامی بدنظمی اپنے عروج پر تھی، خاص طور پر سندھ اور کراچی میں ہونے والے واقعات اسی انتظامی بدنظمی کا شاخسانہ ہیں خود سیکیورٹی الیکشن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہم کراچی میں شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ کراچی میں پولنگ کے دوران ہونے والے واقعات اور شکایتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں تقریباً تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلیوں اور خاص طور پر انتظامی بدنظمی کی شکایت کی ہے، ان انتخابات میں جو بدانتظامی دیکھنے میں آئی وہ انتہائی شرمناک، افسوسناک اور قابل گرفت ہے جس کی وجہ سے دھاندلی کرنے والوں کو بہت سی آسانیاں حاصل ہوئیں، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور بدنظمی، لاپرواہی و غفلت کے مرتکب افراد سے باز پرس ہونی چاہیے۔

جنہوں نے ایک آزادانہ شفاف اور پرامن انتخابی ماحول کی فضا کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، جس کا خمیازہ دیگر شہروں کے علاوہ خاص طور پر کراچی کے عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج پر عدم اعتماد اور پولنگ کے عمل کو جانبدارانہ قرار دے کر شہر بھر میں سیاسی و سماجی تنظیموں نے دھرنوں سے خوف وانتشار کی فضا برپا کردی، سیاسی جماعتوں کے درمیان تناؤ و کشیدگی عروج پر ہے، شہریوں کو ایک مرتبہ پھر شہر کے امن کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔

انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر بدترین بدنظمی، افراتفری دیکھنے میں آئی، بعض جگہوں پر 3 سے 4 گھنٹے تاخیر سے پولنگ شروع ہوئی، عملے کی تربیت نہیں کی گئی تھی، ووٹروں کی رہنمائی نہ تھی، پولنگ کے عملے نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوآرڈینیشن نہ ملنے کی شکایات کی ہیں، ان میں بے سروسامانی اور عدم تحفظ کا احساس تھا، پولنگ اسٹاف کی کمی، پنکھے، روشنی اور جگہ کا نہ ہونا، بعض سیاسی جماعتوں کے مسلح افراد کا پولنگ افسران اور عملے کو خوفزدہ اور ہراساں کرنا۔ بیلٹ پیپرز پر پہلے سے کسی جماعت کے نشان پر مہر موجود ہونا، عام شکایتیں تھیں۔ خود چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو ووٹ کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد واپس جانا پڑا۔ انتخابی عملے کو جمعہ کے دن طلب کرلیا گیا تھا، اتوار کی صبح تک بھوکے پیاسے انتخابی فرائض انجام دیتے رہے، ان میں شامل پروفیسر اور پی ایچ ڈی سطح کے لوگ ان دنوں میں ججز کے پٹہ داروں اور پولیس اہلکاروں کے رحم و کرم پر رہے جنھیں کوئی گائیڈ کرنے والا نہ تھا۔

عمر رسیدہ مختلف امراض میں مبتلا عدم تحفظ کا شکار غیر تربیت یافتہ انتخابی عملے سے 40 گھنٹے ڈیوٹی لینے کے بعد سے کسی مستند کارکردگی کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے، جب کہ اس کا معاوضہ بھی ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے اس طرح لائن لگاکر ادا کیا گیا جس طرح رمضانوں میں نمائشی خیرات خانوں کے سامنے پیشہ ور گداگروں کو خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ انتخابی ڈیوٹی کا معاوضہ مانگنے پر محکمہ تعلیم کے ملازم کو گرفتار کروایا گیا۔ معاوضے میں تاخیر کی شکایات پر پریزائیڈنگ افسر کو بھی گرفتار کرادیا گیا جس پر گسٹا، سپلا اور ایپکا کے رہنماؤں نے مظاہرے کیے اور الزام لگایا کہ انتخابات کے دن ہمیں مسلح افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، معاوضے کے لیے آئے تو ہماری تذلیل کی گئی اور جیل بھیج دیا گیا، انھوں نے آیندہ انتخابی ڈیوٹی نہ کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

ایک پروفیسر کو نماز کی اجازت مانگنے پر گرفتار کرادیا گیا۔ 7 مارچ کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے عمل سے لے کر انتخابی معاوضے کی ادائیگی تک عدالتوں کا عملہ بھی انتخابی سرگرمیوں میں شریک ہے، جن کے لیے نہ کھانے کا بندوبست کیا گیا نہ ٹرانسپورٹیشن یا پٹرول یا کسی قسم کے معاوضے یا اعزازیہ کا اعلان کیا گیا۔ ایسی صورت حال میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی خواہش خام خیالی کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ الیکشن کمیشن پریزائیڈنگ افسر سے ایک ایک ووٹ کا حساب کیسے لے سکتا ہے جب کہ بیلٹ پیپرز کوڑے دانوں سے مل رہے ہوں، مسلح افراد پوری پوری بکس پر مہریں لگارہے ہوں، نادرا سے انگوٹھے کی تصدیق کے نتیجے میں یہ کیسے ثابت ہوگا یہ دھاندلی کس جماعت نے کی ہے؟ کیا جعلی انگوٹھا ثابت ہونے پر صرف اس کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی؟ ان کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہوسکتی ہے، کیا اس سے گمبھیر صورت حال پیدا نہیں ہوجائے گی۔

ارباب اختیار کو لکیر پیٹنے اور تاویلات کے بجائے مستقبل کے لیے جامع انتخابی اصلاحات کرنی چاہئیں تاکہ یہ عمل نہ دہرایا جاسکے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں Polling Place اور Remote-e-Voting کے طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہندوستان جیسا ملک انتخابات میں ایک لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرتا ہے، ہمیں بھی اپنے معروضی حالات پیش نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے سائنسی اور فول پروف انتظامات کرنے چاہئیں مثلاً یہ کہ پولنگ اسٹیشنوں پر روایتی عملہ اور اسٹیشنری کے بجائے ATM طرز کی مشین ہو، جس میں صرف ایک شخص کی گنجائش ہو جب ووٹر اندر جاکر اسے لاک کرے تو انگوٹھا ثبت کرنے پر اس کا بیلٹ پیپر نمایاں ہوجائے۔

متعلقہ سیاسی جماعت یا امیدوار کے نشان پر انگلی ٹچ کرنے سے ان کا ووٹ کاسٹ ہوجائے اس عمل کے لیے صرف 10 سیکنڈ کا وقت رکھا جائے، ساتھ ہی اس مشین میں Weighting System بھی رکھا جائے تاکہ ووٹر کے ساتھ کوئی دوسرا شخص زبردستی اس مشین میں داخل ہوجائے تو Over Weighting کی بنا پر یہ مشین کام نہ کرے۔ اس قسم کے خصوصی انتظامات ہماری سیاسی روش و روایات کے تناظر میں بہت ضروری ہیں۔ الیکٹرانک و کمپیوٹرائزڈ پولنگ سے انتخابات میں دھونس، دھمکی، غنڈہ گردی اور دھاندلی کے الزامات تقریباً ختم ہوسکتے ہیں۔ لاکھوں کے عملے اور اربوں کی اسٹیشنری، ٹرانسپورٹیشن، معاوضہ اور دیگر اخراجات میں کمی اور نتائج کی فوری و تیز تر فراہمی بھی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔