چین اور ماؤزے تنگ

نصرت جاوید  بدھ 15 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

2001ء میں چینی حکومت کی دعوت پر میں نے دس روز اس ملک میں گزارے۔ 1989ء سے بارہا بیجنگ گیا تھا۔ وہاں کے تمام دورے پاکستانی وزرائے اعظم کے ہمراہ جانے کی وجہ سے صرف سرکاری ہی رہے۔ خبریں ڈھونڈنے اور انھیں ٹائپ کرنے کے بعد Faxکے ذریعے اپنے دفتر تک پہنچانے کی اذیت سے جو تھوڑا وقت ملتا اس دوران اس شہر کی عام زندگی کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ چینی مگر کھل کر بات کرنے کے عادی نہیں۔ انگریزی زبان سمجھتے اور بول بھی سکتے ہوں تو غیر ملکیوں کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ وجہ ان کی حب الوطنی یا قوم پرستی نہیں جو ہمارے ’’قومی زبان‘‘ کے کئی مستانے تصور کرلیتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جاپان ہو یا چین مشرقِ بعید کے لوگ مزاجاً بڑے خود پرست ہیں۔ انھیں اپنا بھرم برقرار رکھنے کی بیماری ہے۔ گھبراتے ہیں کہ انگریزی زبان بولتے ہوئے ان سے کوئی غلطی ہوگئی تو اجنبی دل ہی دل میں ان کا مذاق اُڑائے گا۔ انگریزی زبان خوب جانتے ہوئے بھی غیر ملکیوں کے سامنے اسے استعمال نہ کرنے کا رعونت بھرا رویہ آپ کو پوری شدت کے ساتھ صرف فرانس میں نظر آتا ہے جہاں رہنے والے اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں متکبرانہ فخر محسوس کرتے ہیں۔

اصل بات کی طرف لوٹتے ہوئے مجھے آپ کو بتانا ہے کہ چینی سفارت خانے نے جب مجھے اس دورے کی دعوت دی تو میں نے بیجنگ میں کم سے کم وقت گزارنے کی درخواست کی۔ ان کی مہربانی کی وجہ سے میں نے ان کے دارالحکومت میں سرکاری بریفنگ وغیرہ لینے کے لیے صرف دو دن گزارے باقی پورا ہفتہ شنگھائی اور ہانگ سو میں گزارا۔

ہانگ سو ایک بہت ہی خوب صورت شہر ہے۔ چینی اسے اپنے ’’کشمیر۔جنت نظیر‘‘ کی طرح سمجھتے ہیں۔ چینی انقلاب کے بانی ماؤزے تنگ کو یہ شہر بہت پسند تھا۔ یہاں سرکاری طور پر ان کی رہائش کے لیے ایک محل نما کمپاؤنڈ بنایا گیا تھا۔ ماؤجب وہاں رہائش پذیر ہوتے تو حکام ہر ممکن کوشش کرتے کہ چیئرمین خود کو وہاں فلسفیانہ غوروفکر کے لیے بالکل اکیلا محسوس کریں۔ ان کے لیے جو بیڈ روم مخصوص ہوا وہاں بیٹھو یا باہر نکل کر کسی بھی طرف کافی دور پیدل چلے جاؤ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چار سو جنگل ہے اور چھوٹے چھوٹے ندی نالے۔ میری خوش بختی کہ میرے میزبانوں نے مجھے دو راتیں گزارنے کے لیے وہی کمرہ عنایت کردیا۔ میں نے وہاں قیام کے دوران کچھ غوروفکر کرنے کی بھی کوشش کی مگر دل ودماغ میں کوئی تخلیقی شے ہوتی تو اس ماحول کی بدولت اُچھل کر باہر آتی۔ جیسا گیا تھا ویسے ہی واپس لوٹ آیا۔

چین کی حالیہ دنوں میں لکھی جانے والی تاریخ البتہ یہ انکشاف کرتی ہے کہ چیئرمین ماؤ جب کبھی ہانگ سو جا کر اپنے تئیں دُنیا سے کٹ جاتے تو بیجنگ میں موجودہ حکومتی اور پارٹی رہ نماؤں کے سانس اٹک جاتے۔ وہ اسی فکر میں مبتلا رہتے کہ ’’نروان‘‘ ڈھونڈتے اس سفر کے بعد چیئرمین ماؤ جانے کیا طے کربیٹھیں اور جو اہداف سوچیں ان تک پہنچنے کے لیے کون افسر یا سیاسی رہ نما ’’عبرت کا نشان‘‘ بنا دیا جائے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں چینی معاشرے کو اتھل پتھل کرنے والے تمام اقدامات ماؤزے تنگ نے ہانگ سو میں رہ کر ہی سوچے تھے۔ ایسے ہی ایک فیصلے میں “Bombard The Head Quarters”بھی شامل تھا۔ ماؤزے تنگ کو یہ نعرہ 1968کے آغاز میں سوجھا۔ ان کا خیال تھا کہ اقتدار میں کئی برس گزارنے کے بعد ان کی تربیت یافتہ انقلابی قیادت اب سست جان ہوکر شاہانہ مزاج کی عادی بن رہی ہے۔ اب وقت نوجوان ’’کیڈرز(Cadres)‘‘ کو آگے بڑھانے کا ہے جو بڑے بڑے دفاتر میں براجمان سیاسی اور سرکاری رہ نماؤں کو بالوں سے گھسیٹ کر باہر پھینک دیں۔ اسی سوچ کی طفیل بالآخر وہاں ایک ’’ثقافتی‘‘ انقلاب برپا ہوا جس سے منسلک درد بھری کہانیاں چینیوں کی اکثریت اب تک نہیں بھلاسکی۔

پاکستان عوامی جمہوریہ چین نہیں۔ مگر ہمارے ہاں ’’انقلاب‘‘ لانے کے بہت شوقین بھی پائے جاتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو ’’قائدِ انقلاب‘‘ مانے جاتے تھے۔ پھر ضیاء الحق آگئے۔ انھوں نے ڈنڈے کے زور پر ہر نوع کے انقلابیوں کو سیدھا کردیا۔ بلدیاتی نظام اور مجلس شوریٰ کے ذریعے ’’صالح‘‘ سیاستدان بنائے جو ذات برادری کی بنیاد پر بنائے دھڑوں کی وجہ سے ابھی تک ہمارے سرپر سوار ہیں۔ بالآخر ایک طویل مدت کے بعد ہمارے چمن میں ایک دیدہ ور پیدا ہو ہی گیا۔ عمران خان ان کا نام ہے۔ نوجوانوں میں وہ ابھی تک کافی مقبول ہیں اور ان کے پرستاروں کا رویہ Old Guardاور ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا ماؤزے تنگ کے ڈھونڈے نوجوان ’’کیڈرز‘‘ کا اپنے دور کی ’’نظامِ کہنہ‘‘ سے وابستہ اشرافیہ کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔

’’چیئرمین عمران‘‘ کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ انھوں نے انقلاب Bulletکے بجائے Ballotسے برپا کرنے کی کوشش کی۔ انتخابی سیاست کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشیوں جیسے ’’مخدوموں‘‘ کو ساتھ ملانا پڑا۔ نوجوانوں، شہری متوسط طبقے اور حتیٰ کہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو متحرک کرنے کے باوجود11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں ان کی جماعت صرف خیبرپختونخواہ میں حکومت اور وہ بھی مخلوط بنا پائی۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ 2013ء کے انتخابی نتائج نے خان صاحب کو بہت مایوس کیا ہے۔ وقتاََفوقتاََ دھاندلی کی دہائی دیتے ہوئے وہ اس مایوسی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مگر خیبرپختون خوا کا اس ضمن میں کیا قصور۔ تحریک انصاف کی حکومت بنوانے کے بعد وہاں کے لوگوں کو گڈ گورننس کے ثمرات سے محروم کیوں رکھا جائے۔

مجھے یقین ہے کہ عمران خان اس صوبے میں کوئی معجزہ نما کارنامے ہوتے دکھانا چاہتے ہیں۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس اس صوبے میں کوئی مناسب ٹیم نہیں۔ اسلام آباد کے نواح میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر بنے بنی گالہ والے گھر میں اکیلے بیٹھے یقینا وہ ایسی ہی کیفیتوں سے گزرتے ہوں گے جو ماؤزے تنگ ہانگ سو کی تنہائیوں میں محسوس کیا کرتے تھے۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ مگر لبریز ہوچکا ہے۔ اپنے بنائے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف وہ پبلک میں پھٹ پڑے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کے نوجوان اور اصلی تے وڈے مراد سعید جیسے انقلابی اپنے چیئرمین کے بیان کوBombard The Head Quartersوالا حکم ہی سمجھیں گے۔

میری پریشانی مگر یہ ہے کہ اگر عمران خان نے اپنے ’’کیڈرز‘‘ کے ہاتھوں پرویز خٹک کو لیو شاؤچی بنادیا تو حالات کو تحریک انصاف کے لیے چو این لائی کی طرح اس وقت تک کون سنبھالے گا جب تک تحریک انصاف کی صفوں سے کوئی ڈینگ سیاؤپنگ نمودار ہوکر اعلان کر سکے کہ: “It is Sexy to be Rich”۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔