حکومت سندھ کا پلان، روٹی کپڑا اور مکان

انیس باقر  جمعرات 16 جنوری 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

پیپلز پارٹی 1970ء کے انتخاب میں سندھ اور پنجاب میں بلا شرکت غیرے اور مجموعی طور پر باقی ماندہ پاکستان میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، پارٹی نے اپنے ہمراہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے وڈیروں کو ساتھ لے کر حکومت بنائی مگر رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے سوشلسٹ رہنما کونے میں ہوتے گئے اور تنگ نظر وڈیرہ شاہی حکومت پر قابض ہوتی گئی اور جب بھٹو پر کڑا وقت آن پڑا تو یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے بھٹو صاحب کی پارٹی کو تحریک چلانے سے روکا ۔محترمہ نصرت بھٹو کو مقدمے میں الجھا کر رکھ دیا، جب کہ معراج محمد خان ہمہ وقت اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ بھٹو صاحب کو بغیر کسی مضبوط سیاسی تحریک کے جیل سے باہر نکالنا آسان نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دو لخت ہونے اور سیاسی مشکلات نے ذوالفقار علی بھٹو کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنے بعض انتخابی نعروں کو حقیقت بنا سکتے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ اس کے وارث اور نعرہ لگانے والے شہیدوں کے خون سے کس قدر انصاف کرتے ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ تو بہت قدیم ہے، اس طرف پیش قدمی کی کوشش کبھی بھی سوچ سمجھ کر نہیں کی گئی۔ غریب امید کا دامن پیپلز پارٹی کے سامنے پھیلائے رہے اور لیاری جو پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اس کو معاشی طور پر تہس نہس کر دیا گیا۔

1974ء تک لیاری کی سیاسی نبض ناظم آباد اور لیاقت آباد کے ساتھ دھڑکتی تھی، پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی حد بندی کچھ اس انداز میں کی کہ محض کراچی کے چند لوگوں کو لیاری کا قائد بنانا ہے جب کہ اگر 1970ء کے کراچی کے نتائج کو دیکھا جائے اور تجزیہ کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ کراچی کے کن کن حصوں سے پیپلز پارٹی کو ووٹ ملے۔ کچھ تو یقیناً ذات اور قائدانہ صلاحیت کو مگر نصف ووٹ تو پارٹی پروگرام کو ملے تھے، ذوالفقار علی بھٹو نے کوٹہ سسٹم کو دس برس کے لیے نافذ کیا تھا مگر سندھ میں کوٹہ سسٹم کو مزید آگے بڑھانا ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی سے انحراف ہے اور صوبہ کو نسل پرستی کی جانب دھکیل دینا ہے۔ بلاول بھٹو کی رفتہ رفتہ بعض معاملات پر بیان بازی پارٹی کو نئے خطوط پر کسی حد تک لے جا رہی ہے مگر عمر کا مسئلہ اور طبقاتی فرق، عوام میں محترمہ کی طرح نہ رہنا، محلوں میں جلسہ نہ کرنا، علاقائی وفود سے ملاقات کا نہ ہونا یہ سب فاصلے موجود ہیں۔ البتہ چوہدری اسلم کے اہل خانہ کے گھر جانے سے پارٹی کے موقف کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی حال میں سندھ حکومت کی جانب سے جو پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے اور رینجرز کی قیادت کی جانب سے تحفظات کا اعلان ایک عجیب صورت حال کی عکاسی کرتا ہے، ان امور پر بھی پارٹی قیادت کا کوئی موقف سامنے نہیں آتا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایفائے عہد کا اشتہار ضرور نظر آ رہا ہے کہ سندھ کے بے گھر غریبوں کے لیے 120 گز کے پلاٹ کی تقسیم۔ یہ یقیناً ایک مستحسن اقدام ہے بشرطیکہ اس کی منصوبہ بندی بہتر طریقے سے کی جائے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ غریب علاقوں اور چھوٹے پلاٹوں والے علاقوں کی پہلے نشاندہی کی جاتی اور سروے کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا جاتا۔ ممکن ہے کہ پارٹی کارکنوں اور یونٹ سیکریٹریوں کے لیول پر یہ کام کیا گیا ہو مگر ابھی تک اشتہارات سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ طریقہ کار کیا ہے اور یہ پلاٹ کیسے لوگوں کو ملیں گے؟ اور کن لوگوں کو ملیں گے؟ اگر کراچی کی حد تک اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ پلاٹ کہاں واقع ہوں گے اور پلاٹ کے خواب شرمندہ تعبیر کب ہوں گے؟ کیونکہ ہمارے جیسے جمہوری معاشرے میں جو لوگ کرایے کے مکانوں میں پھنس جاتے ہیں وہ کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا پاتے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جس جمہوریت کا خواب دکھایا تھا یہ وہ جمہوریت نہیں ہے۔ اب کون آئے گا جو عوامی جمہوریت کی جانب عوام کو لے جائے؟ ابھی تو بہت لمبا سفر ہے، ابھی تو ہمارا قافلہ ایسے اسٹیشنوں سے گزر رہا ہے جہاں تصادم ہے، تفریق ہے، مذہبی اجتماعات پر بھی پہرہ دینا پڑتا ہے، نماز بھی پہرے میں پڑھنی پڑتی ہے، سماجی سفر طویل اور پرخطر ہیں ۔

پاکستان کی پوری قیادت دراصل کنفیوز (Confuse) ہے، ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ منزل کیا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اسی لیے عوام بے حد پریشان ہیں۔ بلدیاتی نظام جو حکومت کا بنیادی شہری نظام ہے، سندھ اور پنجاب کی لیڈرشپ اس سے خود کو دور رکھنا چاہتی ہے اور خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی حکومت تو وہ غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب چاہتی تھی مگر آبادی کے اعتبار سے دونوں بڑے صوبے دعوؤں میں بلند ہیں مگر عملی طور پر ایک ہی روڈ میپ (Road Map) بنائے بیٹھے ہیں، کیونکہ مرکز میں ایک دوسرے کے ہمدرد ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب حکومت کوئی وعدہ کرتی ہے تو اپنے معاشی وسائل کو نہیں دیکھتی، اعلان کے باوجود عمل کرنے کی سکت اس میں نہیں ہے۔ کوتاہ نظری کا شکار مرکزی حکومت بعض اوقات صوبائی حکومت کو مجبور کر دیتی ہے، مثال کے طور پر اگر ملک میں قدرتی گیس کم تھی تو تمام ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر لانا کیا معنی، نئے نئے پٹرول پمپ الاٹ کرنا ، لائسنس دینا، کِٹ فروخت کرنا اور اب بعد میں واویلا پھر اشتہارات کہ گیس کم خرچ کرو۔ کیا حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ گھر میں ایک ماہ میں جتنی گیس خرچ ہوتی ہے بس میں آدھے دن میں اس سے کہیں زیادہ خرچ ہو گی؟

مگر حزب مخالف اور حزب اقتدار سب قومی مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور جب معاملہ سامنے آتا ہے تو دھیمے انداز میں لب کشائی کرتے ہیں۔ یہ عجیب حاکم ہیں، نہ ان کا کوئی تھنک ٹینک، فکری، دانشوری یا مشاورت کرنے والا ہے، ایک الیکٹرانک میڈیا ہے، وہی ہے جو اپنے حساب سے تجزیہ کرتا ہے مگر قدم اٹھانے سے پہلے وہ بھی خاموش رہتا ہے۔ قرض اسکیم جو مرکزی حکومت نے عوام کو کاروبار کے لیے دی وہ عوام تک آئے گی یا خواص اس کو لے کر فکسڈ ڈپازٹ میں ڈال کر نفع کمائیں گے، کیونکہ کاروباری حالات تو بہت خستہ ہیں۔ اب رہ گیا بے زمین لوگوں کا کہ وہ مالک مکان کیسے بنیں گے؟ کیا ان کو مکان بنانے کے لیے قرضے کی سہولت ہو گی؟ اس کا ڈیولپمنٹ کتنے عرصے میں ہو گا؟ اگر یہ واقعی ایک عملی قدم ہے تو پھر اس کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے اور جو لوگ 60 یا 100 گز کے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور آمدنی کم ہے تو ان کو موقع ملنا چاہیے۔

مگر ملکی حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ روٹی اور کپڑا آنے والے چند برسوں میں اور مشکل ہو جائے گا، تاوقت یہ کہ عوامی جمہوری انقلاب جو پیپلز پارٹی کا نصب العین تھا اس طرف رخ نہ کرے مگر عوامی جمہوری انقلاب کے راستے کو اگر نہ اپنایا گیا اور پی پی پی نے اپنی کامیابی کو محض اپنے شہیدوں کے خون سے وابستہ کر لیا تو یہ ایک خواب ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے خون نے پارٹی کو کھڑا کر رکھا ہے اور مسند اقتدار دے رکھی ہے مگر آیندہ انتخاب اب صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہی لڑا جائے گا۔ لہٰذا پارٹی لیڈرشپ محض نعروں اور وعدوں پر زندہ نہیں رہے گی، سندھ میں کراچی شہر پر دباؤ بڑھ رہا ہے، پورا ملک ادھر آ رہا ہے، اس کا حقیقی بندوبست چھوٹے شہروں میں زرعی انڈسٹری اور گاؤں دیہات کو جدید طریقے سے تازہ کھیت کھلیان بنانے ہوں گے، بے زمین کسانوں کو زمین اور نوجوانوں کو ٹریکٹر اسکیم اور زمین دینی ہو گی، آبادی کی شرح کے ساتھ اناج کی پیداوار بڑھانی ہو گی مگر ادھر کسی کا دھیان نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔