چائلڈ لیبر

شبیر احمد ارمان  جمعرات 19 جون 2014
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

میں قارئین کی توجہ ایک ایسے طبقے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے، جو آنگن کے پھول ہوتے ہیں، جو معصوم ہوتے ہیں، جنھیں عرف عام میں بچے کہتے ہیں۔ ہاں یہی وہ بچہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بچے کا پہلا اسکول ماں کی گود ہے۔ بچوں کی نگہداشت نشو و نما کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ بچے سچے ہوتے ہیں، بچے حساس ہوتے ہیں اور بچے دو ہی اچھے ہوتے ہیں۔

جی ہاں! یہ طبقہ ہے مستقبل کے معمار اور حال کا مزدور ( بچہ) جس کے نام کو کیش کرانے کے لیے معاشرے میں نام پیدا کرنے کے لیے آج کی شام بچوں کے نام پر سیمینار منعقد کرائے جاتے ہیں اور اپنی اپنی رٹ سنا کر چلتے ہو جاتے ہیں اور بس ہو گیا فرض پورا۔ لیکن آج تک بچوں کے بنیادی مسائل حل کرانے کے لیے کسی بھی جانب سے عملی جدوجہد کا آغاز نہیں کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے بچوں کے مسائل حل کروانے کے لیے ایک طویل چارٹر آف ڈیمانڈ دنیا بھر کے ممالک سے منظور کروا چکا ہے اور ہمارے وطن عزیز پاکستان کے 1973ء کے آئین میں بچوں کے حقوق کی پاسداری کا واضح ذکر موجود ہے۔ اگرچہ ہمارے یہاں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد دور دور تک نظر نہیں آتا۔

ملک بھر میں گزشتہ کئی سالوں سے ہوش ربا مہنگائی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور شدید مالی بدحالی نے مل کر متوسط اور نچلے طبقے کی زندگی میں شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے اپنے نو عمر بچوں سے محنت و مشقت کرانے پر مجبور ہیں جن کی عمریں 6 سے 12 سال تک ہیں جن کی تعداد ملک بھر میں کروڑوں میں ہے جو محنت و مزدوری کے ذریعے اپنے والدین کے مسائل حل کرنے میں سرگرداں ہیں۔

سخت موسمی حالات میں یہ بچے ہوٹلوں، گیراجوں، گھروں، دکانوں، ٹھیلوں، سبزی، اناج منڈیوں میں کام کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ ایسے بچے بوٹ پالش، بوتلوں، مشروبات، پھولوں، آلو چپس کی فروخت، کاشت کاری، بھٹہ، اخبارات کی ترسیل و فروخت اور گاڑیوں کی صفائی کے ذریعے آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ ان بچوں میں افغان بچے بھی شامل ہیں جو گلی گلی اور کچرا کنڈیوں میں کچرا چنتے ہیں جنھیں بیچ کر چند پیسے کما لیتے ہیں۔ بچوں کی یومیہ اجرت بہت کم ہوتی ہے اس لیے کاروباری حضرات اپنے یہاں زیادہ تر کم عمر لڑکوں کو نوکری پر لگا دیتے ہیں اگرچہ یہ قانونی جرم ہے مگر سرعام یہ جرم جاری ہے۔

نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ’’بیت المال‘‘ کا محکمہ قائم کیا گیا تھا۔ بیت المال کے تحت ایک مہم چلائی گئی تھی کہ جو والدین غربت کے باعث اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے وہ اپنے بچوں کا نام بیت المال میں درج کرا دیں تا کہ ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ پھر واقعی انتظام کیا گیا۔ جو مزدور بچے تھے ان کے لیے ملک بھر میں ’’بیت المال‘‘ اسکول قائم کیے گئے یہ اسکول مزدور بچوں سے آباد ہو گئے تھے۔

ان بچوں کو ماہانہ معقول وظیفہ اور کھانا بھی ملتا تھا اور ساتھ ان کے والدین کو بھی مالی امداد دی جاتی تھی اور والدین کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ذمے داری سے اسکول بھیجا کریں۔ جو والدین ایسا نہیں کریں گے انھیں قانوناً سزا دی جائے گی اس اقدام سے ملک میں چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی کہ اچانک نواز شریف کی حکومت برخاست کر دی گئی تھی جس کے ساتھ بیت المال اسکول کا نظریہ بھی ختم ہو گیا ایک بار پھر چائلڈ لیبر عروج پر ہے اور ایک بار پھر ملک میں نواز شریف کی حکومت ہے۔ توقع ہے وہ اس جانب دوبارہ اپنی توجہ مبذول کریں گے۔

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا لاڈلا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے مگر حالات کی چکی اسے اپنے چکر میں لگا دیتی ہے۔ نتیجہ غریب غریب تر، امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ مستقبل کے معمار حال کے بچے اپنے روشن مستقبل کے منتظر ہیں۔

یہ مبالغہ آرائی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر بلیک میل کیا جاتا رہا ہے۔ فلپائن، الجزائر، کشمیر، بوسنیا، لبنان، فلسطین، آذربائیجان، چیچنیا، سوڈان ، لیبیا، شام، افغانستان، صومالیہ، مصر اور عراق جہاں انسانیت سسکتی رہی ہے اور اس عالم ظلم و تشدد پر عالمی ضمیر کی خاموشی اس بات کی دلیل تھی کہ یورپ تسلیم کر چکا ہے کہ دنیا میں صرف دو قومیں آباد ہیں ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم ۔

یعنی دنیا میں دو نمونے کے انسان بستے ہیں ایک یورپی اور دوسرا ’’اسلامی‘‘ ان کی نگاہ میں اسلامی انسان کی حقوق کی کوئی وقت نہیں ہے۔ یہ امر باعث حیرت نہیں ہے بلکہ تشویش ناک ہے کہ 55 مسلم ممالک دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں ہونے، ایٹمی طاقت رکھنے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یورپی اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے دست نگر ہو کر رہ گئے ہیں۔

ان ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو خوشحال اور اپنے وطن کو ترقی و استحکام دلانا چاہتے ہیں تو سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب مسلم ممالک یورپی طرز پر اتحاد قائم کریں۔ مسلم ممالک پر مشتمل تنظیم ’’کوآرڈی نیشن آف مسلم کونسل‘‘ (کمک) کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے بینر تلے ذیلی ادارے قائم کیے جائیں۔ بالخصوص ’’اسلامی انسانی حقوق کمیشن‘‘ کی تشکیل ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔