حقوق نسواں مباحثوں کے گرداب میں

جبار قریشی  منگل 12 اگست 2014

چند ماہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ دوسری شادی کے لیے مردکو پہلی بیوی سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ اس بیان کی مذہبی قوتوں کی جانب سے تائید اور حمایت کی گئی جب کہ خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں نے اس بیان کی مخالفت کی۔

عموماً یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی ہے مذہبی سیاسی جماعتوں اورخواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں میں سرد جنگ شروع ہوجاتی ہے۔

اس صورتحال نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے بجائے اسے مزید الجھا دیا ہے۔ حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ ان کے نزدیک اسلام خواتین کے تمام حقوق کا تحفظ کرتا ہے لیکن مسلم معاشرہ انھیں وہ حقوق نہیں دے رہا ہے جو اسلام نے انھیں عطا کیے ہیں۔ سماجی نظام میں پایا جانے والا تعصب خواتین کی مساویانہ حیثیت کو مجروح کرتا ہے۔ مثلاً معاشرہ عورت کی کفالت کی ذمے داری نہیں لیتا مگر قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی روایت پسندوں کی مخالفت کی وجہ سے خواتین کے ایشوز کو سیاسی طور پر گھاٹے کا سودا تصور کرتی ہیں وہ سماجی ڈھانچے میں پیدا ہونے والی ناہمواریوں کو چیلنج نہیں کرتیں۔ مذہبی دینی جماعتیں بھی خواتین کے فرائض پر زور دیتی ہیں لیکن خواتین کے حوالے سے ظالمانہ رسومات مثلاً بے جوڑ شادی، ونی کی رسم، وٹہ سٹہ کی رسم، خواتین پرگھریلو تشدد کے خلاف آواز بلند نہیں کرتیں بلکہ ان مسائل کو روایت کا نام دے کر خاموش ہوجاتی ہیں (حالانکہ روایت شریعت کے تابع ہے شریعت روایت کے تابع نہیں ہے) عدالتیں بھی خواتین کے متعلق آرا کا تعین سماجی پس منظر کے حوالے سے کرتی ہیں جس کے باعث خواتین کا استحصال کرنے والے عناصر کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔

خواتین کے مسائل کے حوالے سے جہاں حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کا ایک واضح موقف ہے وہاں مذہبی دینی قوتیں بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کے عوام بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں جہالت، غربت اور صحت کا فقدان سرفہرست ہے حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں پاکستان کے غیر متعلقہ اور غیر حقیقی مسائل کو نمایاں کرکے پیش کرتی ہیں۔

اس کا مقصد پاکستانی معاشرے کے اکا دکا واقعات کو نمایاں کرکے ایک پس ماندہ ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اور مغربی ممالک کے مقاصد کی تکمیل کرنا ہے۔ جس کا ایک مقصد عورتوں پر مظالم کی بھیانک تصویر پیش کرکے اور عورتوں کی آزادی کی تحریک چلا کر اسلام کے خاندانی نظام کو متاثر کرنا ہے تاکہ مساوات مرد و زن کے دلفریب نعروں کے پردے میں مغرب کی بے حیائی، فحاشی اور عریانیت کو مسلم معاشرے پر مسلط کیا جاسکے۔

اگر ہم اس فکری تصادم کا تجزیہ کریں تو دیکھتے ہیں کہ دینی ومذہبی طبقے کے نزدیک اسلام نے مرد، عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیتوں کے پیش نظر دونوں کے دائرہ کار کا تعین کردیا ہے۔ تاکہ دونوں اپنی اپنی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دیں۔ مرد کے دائرہ کار کا تعلق خارجی امور یعنی اپنے بیوی بچوں کی کفالت اور ملک ومعاشرے کے معاملات چلانے سے ہے جب کہ عورتوں کے دائرہ کار کا تعلق داخلی امور یعنی بچوں کی پرورش، تربیت اور گھر داری سے ہے۔

لہٰذا ایسے تمام معاملات اور امور جس سے عورت کے داخلی معاملات پر ضرب پڑتی ہے ، اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔حقوق نسواں کی تنظیمیں عورت کو بحیثیت انسان ان تمام حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں جو بحیثیت ایک انسان مرد کو حاصل ہیں۔

راقم الحروف کا علم محدود اور تعلیم واجبی ہے اس لیے دونوں نقطہ نظر پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہے۔ البتہ دونوں قوتوں سے احتراماً عرض کروں گا کہ ان قوتوں کے فکری تصادم اور ٹکراؤ نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔معاشرے میں ایسی فضا پیدا کی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد اور عورت مد مقابل ایسے فریق ہیں جو معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔ اس طرز عمل نے خواتین کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ کیا ہے۔

خواتین کے مسائل کی اصل وجہ ملک میں رائج جاگیردارانہ نظام ہے۔ جاگیردارانہ نظام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں کمزور طبقات مثلاً محنت کش، اقلیتیں اور خواتین وغیرہ کو غلام رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ماضی میں یورپ میں جاگیردارانہ نظام تھا اس وقت وہاں کی عورت تاریخی جبر کا شکار تھی یہی وجہ ہے کہ عورت کے حوالے سے کوئی بڑا نام مثلاً سیاستدان، فوجی جنرل، سیاح، فلاسفر اور مورخ ہمیں نظر نہیں آتا۔ یورپ میں 1835 میں عورت کو ووٹ کا حق ملا جس کے بعد عورت کا کردار وہاں کے معاشرے میں نمایاں ہوا۔

اگر ہم کمزور طبقات کو کوئی مقام دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں جاگیرداری نظام ختم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہمیں عورت سے متعلق فرسودہ خیالات اور نظریات کو بھی رد کرنا ہوگا۔ مثلاً عورت ہی عورت کی دشمن ہے وغیرہ۔

حقائق بتاتے ہیں کہ اندرا گاندھی نے یحییٰ خان جیسے مرد فوجی جنرل کو سیاسی شکست سے دوچار کردیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی قابلیت اور صلاحیت کا تعلق اسے دی گئی تعلیم و تربیت سے ہے اس کا نسلی عصبیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہے کہ ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھیں جس طرح پاکستان میں بسنے والے محنت کشوں کو اپنے حقوق کا شعور نہیں ہے اس لیے وہ غیر منظم ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی اپنے حقوق کا شعور نہیں ہے جس کے باعث ان میں اتحاد و اتفاق کا فقدان نظر آتا ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نسلی عصبیت سے بے نیاز ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کا کوئی حکم نسلی امتیاز یا عصبیت کے زمرے میں آتا ہو۔بعض سیکولر اور لبرل سوچ رکھنے والے عورت کی مادر پدر آزادی کے خواہاں ہیں انھیں بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ’’مادر پدر آزادی‘‘ اگر ہر عورت کا خواب ہوتا تو مغرب کی عورت کے تمام دکھ دور ہوچکے ہوتے۔ لہٰذا عورت کے حوالے سے بے راہ روی، فحاشی اور عریانیت کے کلچر کو اپنانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔

بعض طبقے مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار سے خوفزدہ رہتے ہیں یا اسے بزور طاقت روکنا چاہتے ہیں انھیں بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو قومیں علمی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے بالادست ہوتی ہیں وہی قومیں تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے نہ صرف بالادست ہوتی ہیں بلکہ کمزور اور ترقی پذیر قوموں پر ان کی تہذیب و ثقافت اثر پذیر ہوتی ہے اس کا مقابلہ طاقت یا جذبات سے نہیں بلکہ برابر کے علمی، اقتصادی اور سیاسی بالادستی کے حصول سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر ثقافتی یلغار کو روکنا ایک آرزو کے سوا کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔