(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ظاہر و باطن

وقار احمد شیخ  پير 1 ستمبر 2014
زندگی کو حقیقی معنوں میں گزارنے کے لیے ہمیں فرسودہ مائنڈ سیٹ سے نکل کر چیزوں کو پرکھنا ہوگا۔ فوٹو اسکرین شارٹ

زندگی کو حقیقی معنوں میں گزارنے کے لیے ہمیں فرسودہ مائنڈ سیٹ سے نکل کر چیزوں کو پرکھنا ہوگا۔ فوٹو اسکرین شارٹ

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کیا خوبصورت بات کہہ گئے؛

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

ہمارا عمومی رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے باطن کو پرکھنے کے لیے اس کے ظاہری حلیے سے ہی نتائج اخذ کرلیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کے گدڑی میں لعل بھی چھپا ہوسکتا ہے ہم اپنے پہلے سے تیار مائنڈ سیٹ کے مطابق چیزوں کو رد یا قبول ان کے ظاہری حلیے کی بنا پر ہی کرتے ہیں۔ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ کانچ کا بے توقیر ٹکڑا بھی ہوسکتا ہے جو سورج کی کرنوں کو منعکس کرکے آنکھوں کو خیرہ کررہا ہو، اسی طرح کوئلے کی کان سے بیش قیمت ہیرا بھی آپ کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ تو پھر ہم ظاہری عوامل سے ہی فوری نتائج اخذ کرنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟ چیزوں کی حقیقی حیثیت، ان کا باطن پرکھے بغیر کوئی رائے کیسے قائم کرلیتے ہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ چیزوں کی ظاہری ماہئیت سے رائے قائم کرلینے کے باعث بہت سی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ 

گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک مختصر سی ویڈیو دیکھی جسے ویوور فلمز نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ مختصر دورانیے پر مبنی اس ویڈیو میں بھی یہ اہم پیغام دیا گیا ہے کہ پہلے سے تیار مائنڈ سیٹ یا کسی کے ظاہری حلیے کی بنا پر فوری رائے قائم نہ کی جائے۔ معاشرے میں مثبت پیغامات اور آگاہی پھیلانے کے لیے بہت سے تخلیقی ذہن مختلف جہات میں کام کررہے ہیں، سوشل نیٹ ورکس پر بھی ہمیں کئی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے لوگوں میں آگاہی و شعور بیدار کرنے اور فرسودہ ڈگر سے ہٹانے کے لیے اپنی بساط بھر کوششیں کررہے ہیں۔

مذکورہ فلم بھی کچھ ایسے ہی بھارتی نوجوانوں نے تیار کی ہے، جس میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف پھیلتے منفی تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختصر اسکرپٹ میں ایک بھارتی ہندو نوجوان رات کے وقت ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتا ہے جہاں ہڑتال کے باعث مکمل سناٹا ہے اور صرف ایک مسلم نوجوان اس اسٹیشن پر موجود ہے۔ ہندو نوجوان کا دوست موبائل فون پر اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ مسلم سے دور رہے اور زیادہ بات نہ کرے۔ اپنے دوست کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وہ مسلم نوجوان سے حتی الامکان دور رہنے کی کوشش اور اس سے بات کرنے سے گریزاں رہتا ہے لیکن انسان معاشرتی حیوان ہے، ریلوے اسٹیشن کے سناٹے میں دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھی ہیں لہٰذا ہلکی پھلکی بات چیت کی ابتدا کے بعد دونوں ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ہیں یہاں تک کہ ہندو نوجوان اپنے تمام خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مسلم پر بھروسہ کرکے وہیں بینچ پر بے خبر سوجاتا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں بہت سے پیغامات ہیں، خاص کر بھارتی معاشرے کے لیے جہاں مسلمانوں کے ساتھ بہت ناروا رویہ رکھا جاتا ہے، مسلم گھرانوں کو بھارت میں جو مشکلات درپیش ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ وڈیو کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے فرسودہ مائنڈ سیٹ، ظاہری عوامل سے نتائج پر پہنچنے اور منفی خیالات کے باعث زندگی کو آزار بنا لیتے ہیں، حالانکہ ذرا سی روشن خیالی اور کشادہ قلبی زندگی کے سفر کو سہل بناسکتی ہے۔

اس وڈیو سے قطع نظر اگر ہم اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو صورتحال مختلف نظر نہیں آتی، آپ خود کئی ایسے کرداروں سے واقف ہوں گے جو محض ظاہری رائے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایک مخصوص مائنڈ سیٹ موجود ہے، لوگ اندھی تقلید پر ایمان رکھتے ہیں۔ کوئی شلوار قمیض میں ملبوس داڑھی والا نوجوان نظر آجائے تو فوراً تصور کرلیا جاتا ہے کہ مذہبی رجحان رکھنے والا شریف نوجوان ہوگا، جبکہ پینٹ شرٹ پہنے کلین شیو نوجوان کو آزاد خیال اور مذہب سے دور سمجھا جاتا ہے لیکن پرکھنے پر حقیقت برعکس نکلتی ہے۔

میلے کچیلے حلیے میں مزدوری کرتے شخص کو ان پڑھ اور دیہاتی حلیے والے کو گنوار سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ بے روزگاری نے ایم اے پاس پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی مزدوری کرنے پر مجبور کردیا ہے، پھر حلال روزی کمانے والے کے لیے ایسے خیالات کیوں؟ اسی طرح مخصوص طبقات، ذات و پات سے متعلق بھی لوگوں نے خود سے کئی باتیں گھڑ لی ہیں، آپ نے بھی سنا ہوگا کہ وہ شخص فلاں برادری کا ہے تو اس میں یہ عادت ہوگی، فلاں ذات ہے تو یہ طرز عمل ہوگا، فلاں علاقے سے تعلق رکھتا ہے تو یہ رویہ لازمی ہوگا۔ جیسے کسی کو ذات کی بنا پر کنجوس کہنا، علاقے کی نسبت سے دھوکے باز اور جھگڑالو گرداننا، فرقے کی بنا پر شدت پسند سمجھنا کیا یہ سب رویے صحیح ہیں؟

ہر انسان کی شخصیت اور طرز عمل کا محرک اس کی ذاتی تعلیم و تربیت اور نفسیات ہے، اس لیے درج بالا تمام فارمولے سو فیصد درست قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اسی طرح کئی قسم کے لطائف گھڑ لیے گئے ہیں جن میں اسکاٹ لینڈ کے رہائشیوں کو کنجوس کہا جاتا ہے، سکھوں پٹھانوں کو بے وقوف قرار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تو پھر اس طرح کا مائنڈ سیٹ رکھنا اور اس کے مطابق نتائج اخذ کرنا درست کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم کئی ایسے لوگوں سے واقف ہیں جنھوں نے ظاہری حلیے اور رکھ رکھاؤ سے نہایت شریف اور باکردار نظر آنے والے افراد سے دھوکا کھایا، محض اس وجہ سے اندھا اعتماد کیا کہ وہ اپنے ظاہری عمل سے کچھ اور نظر آتے تھے۔ اگر یہ لوگ ظاہری عوامل کے بجائے باطن کو پرکھنے کے عادی ہوتے تو اس طرح دھوکا نہ کھاتے۔

زندگی کو حقیقی معنوں میں گزارنے کے لیے ہمیں فرسودہ مائنڈ سیٹ سے نکل کر چیزوں کو پرکھنا ہوگا، لوگوں کے ظاہری چہرے کے بجائے باطنی شخصیت کو جانچنا ہوگا، تب کہیں جا کر ایک خوشگوار زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔