رکشا ٹیکسی میں میٹر بحال کرنے پر غور

ایڈیٹوریل  پير 29 ستمبر 2014
 رکشا یونین نے کرایہ میٹر نصب نہ ہونے کی ذمے داری رکشا تیار کرنے والی فیکٹریوں اور حکومتی محکموں پر عائد کیا ہے۔  فوٹو؛ فائل

رکشا یونین نے کرایہ میٹر نصب نہ ہونے کی ذمے داری رکشا تیار کرنے والی فیکٹریوں اور حکومتی محکموں پر عائد کیا ہے۔ فوٹو؛ فائل

پاکستان کے بڑے شہروں کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور راولپنڈی وغیرہ میں چلنے والے رکشا اور ٹیکسی میں کرایہ میٹر ہوا کرتے تھے لیکن جیسے جیسے کرپشن اور بدعنوانی نے جڑ پکڑی تو ہر چیز زوال کا شکار ہو گئی۔ شہروں میں چلنے والے رکشائوں اور ٹیکسی سے میٹر اتر گئے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے کرایہ وصول کرنے لگا‘ المیہ یہ ہے کہ ہر صوبے میں محکمہ ٹرانسپورٹ موجود ہے لیکن اس کے قوانین پر کوئی عملدرآمد نہیں کرتا۔

اب شنید ہے کہ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی نے شہر کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد رکشوں اور ٹیکسیوں میں کئی برس سے متروک کرایہ میٹر دوبارہ نصب کرانے پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے جب کہ رکشا یونین نے کرایہ میٹر نصب نہ ہونے کی ذمے داری رکشا تیار کرنے والی فیکٹریوں اور حکومتی محکموں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری محکموں کی نا اہلی کی وجہ سے ان فیکٹریوں نے میٹر نصب کرنا بند کر دیے تھے۔

اب رکشا یونین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کرایہ کا کوئی قابل قبول نظام بناتی ہے تو ہمیں میٹر نصب کرانے پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اب اگر میٹر کی بحالی کا فیصلہ کیا جانے والا ہے تو ایسے میٹر تجویز کیے جائیں جن میں ٹیمپرنگ نہ ہوسکے۔ گو کہ یہ قانون کاغذوں میں ابھی تک موجود ہے۔ اس وقت رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور مسافروں سے من مانے کرائے وصول کر رہے ہیں۔ حکومت سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس جانب توجہ دینی چاہیے‘ کراچی میں ٹریفک کا جو حال ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے‘ یہاں کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ رکشا اور ٹیکسی میں میٹر نصب کرنے کا کام شروع کرے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں مفاد عامہ کے محکموں کو مفلوج کر دیا گیا ہے حالانکہ کسی مہذب معاشرے کی شناخت یہی مفاد عامہ کے محکمے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے سیاسی جوڑ توڑ کو ہی حکومت سمجھا ہے اور اب اسی کا نتیجہ سب کے سامنے آ گیا ہے‘ اب بھی وقت ہے کہ ضلع سطح پر کام آنے والے مفاد عامہ کے محکموں کو متحرک کیا جائے تا کہ شہری زندگی پر سکون ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔