بے نظیر بھٹو کی برسی اور صورتحال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 26 دسمبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ملک ایک باصلاحیت سیاستدان اور پیپلز پارٹی اپنے قائد سے محروم ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور بلاول چیئرمین مقرر ہو گئے۔ یہ سب کچھ بے نظیر بھٹو کی ایک تحریری وصیت کے مطابق ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری نے دو ماہ قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پارٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔

جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔ اب یہ قومی جماعت صرف اندرونِ سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ ایک قومی جماعت کے ایک صوبے تک محدود ہونے کے نقصانات نے اس ملک کی وحدت کو متاثر کیا ہے۔ جب آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی تو بے نظیر بھٹو اپنی شہادت سے پہلے تک چاروں صوبوں کا طوفانی دورہ کر چکی تھیں۔ انھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی وکلاء کی مہم کی بھرپور حمایت کی تھی اور ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کے نعرے پر مضبوط انتخابی مہم کی قیادت کی تھی۔ اگرچہ انھوں نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کیا تھا مگر وہ 2005ء میں مسلم لیگ کے سربراہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ لندن میں میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) پر بھی اتفاق کر چکی تھیں۔

میثاق جمہوریت کے ذریعے 1973ء کے آئین کی حقیقی شکل میں بحالی کے علاوہ صوبائی خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی جیسے اہم امور پر اتفاق رائے کیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کو برقرار رکھا مگر اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی سے بھی مفاہمت کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔ اسی بنا پر جب پیپلز پارٹی وفاق میں برسر اقتدار آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی تو آصف علی زرداری نے مفاہمت کی پالیسی کو اپنایا، یوں وفاق اور صوبہ سندھ میں وسیع البنیاد حکومت قائم ہوئی۔

مسلم لیگ ن کے وزراء، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں شریک ہو گئے۔ زرداری صاحب نے مسلم لیگ ن، اے این پی اور جے یو آئی کی مدد سے پرویز مشرف کو ایوان صدر سے رخصت کیا اور خود صدر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کی یہ خوبصورت حکمت عملی تھی جو کامیاب ہوئی مگر صدر زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بارے میں میاں نواز شریف سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری سے انکار کر دیا، یوں خود زرداری صاحب کے صلح کل کے فارمولے کو زک پہنچی۔ میاں نواز شریف کے احتجاجی دھرنے کی قیادت کرنے کی بنا پر صدر زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کیا اور شہباز شریف کی معطل شدہ حکومت بھی بحال ہو گئی۔ یہ آصف زرداری کی ایک اور کامیاب حکمت عملی تھی کہ شدید تصادم کے بعد بھی میاں نواز شریف سے ورکنگ ریلیشنز بحال ہو گئے۔

میاں نواز شریف نے ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور نہ ہونے دیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف فیصلوں کی بھرمار کر دی۔ وزیر اعظم گیلانی کی حکومت اس صورتحال میں ایک طرح سے مفلوج ہو گئی۔  دوسری طرف ذرایع ابلاغ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہر اقدام کے احتساب کا عمل تیز کیا ۔ اس ساری گرم و سرد صورتحال میں پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم منظور کی۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو 1940ء کی قرارداد لاہور کی روح کے مطابق صوبائی خودمختاری حاصل ہوئی اور قومی مالیاتی ایوارڈ کا فارمولہ تبدیل ہوا۔

18 ویں ترمیم 1973ء کے آئین میں بنیادی ترمیم تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اس ترمیم کے بارے میں آگہی کی مہم نہ چلا سکی۔ عام آدمی آئین میں کی گئی اس بنیادی ترمیم کے بارے میں لاعلم رہا۔ پیپلز پارٹی کو اپنے دورِ اقتدار میں کبھی کیری لوگر بل، کبھی میمو اسکینڈل، کبھی ممبئی دہشت گردی، کبھی اسامہ کی ایبٹ آباد سے برآمدگی اور کبھی ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ زرداری صاحب نے دیگر جماعتوں سے مفاہمت پر تو خصوصی توجہ دی مگر پیپلز پارٹی کی تنظیمِ نو مکمل طور پر نظرانداز کر دی گئی۔

آصف زرداری نے اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو پنجاب کے معاملات کا نگراں مقرر کیا۔ فریال تالپور کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے پرانے مخالف منظور وٹو کو پنجاب کا صدر مقرر کیا۔ پیپلز پارٹی کا عام کارکن منظور وٹو کو ان کے سیاسی پس منظر کی بنا پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی مؤثر مہم نہ چلا سکی۔ پیپلز پارٹی کے سینئر کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے کارکنوں نے اس موقع پر عملی سیاست سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ یہی وجہ تھی کہ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے والے امیداروں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم تھی۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں مضبوط انتخابی حکمت عملی تیار نہیں کر سکی۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ملتان میں اپنے بیٹے کی مہم تک محدود رہے۔ دوسرے وزیر اعظم پرویز اشرف گوجر خان سے نکل نہ پائے۔

ایک اور سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن لاہور میں اپنی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کی مہم چلانے کے علاوہ کچھ اور نہ کر سکے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے بھی عوام میں مزید احساسِ محرومی پیدا کر دیا۔ اس صورتحال کا فائدہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے اٹھایا۔ سندھ میں سینئر سیاستدان قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا مگر قائم علی شاہ کو مکمل اختیارات کبھی نہیں ملے۔ ایک وقت میں دو تین رہنما وزیر اعلیٰ کا اختیار استعمال کرتے رہے۔ اس صورتحال میں اچھی طرزِ حکومت دور کی بات ہو گئی۔ حکومتِ سندھ کی ناقص کارکردگی کی بناء پر صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی، یوں وفاقی حکومت کو مداخلت کرنی پڑی۔

پیپلز پارٹی اپنی ناقص کارکردگی کی بناء پر کراچی کی روایتی نشستوں سے بھی محروم ہو گئی۔ اندرون سندھ کے بڑے شہروں میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ زرداری صاحب کے دور اقتدار میں صوبہ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی نئی قیادت نہیں ابھر سکی۔ بلوچستان میں اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بنے۔ ان کی حکومت ناکامی کی ساری حدود پار کر دیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2002ء اور 2008ء میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی 2013ء کے انتخابات میں غائب ہو گئی۔

اب زرداری صاحب نے بلاول کو آگے بڑھایا۔ بلاول نے اتحادی ایم کیو ایم کو ناراض کیا اور پنجاب میں ان لوگوں کو اپنا مشیر بنایا جنھیں زرداری ناپسند کرتے تھے۔ اب بلاول ناراض ہیں اور لندن میں مقیم ہیں۔ یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی برسی میں شرکت کر پائیں گے یا نہیں۔ پیپلز پارٹی نے عوامی مسائل پر جدوجہد کا راستہ ترک کر دیا اور اچھی طرزِ حکومت اور میرٹ کو پسِ پشت ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بے نظیر بھٹو کی برسی پر جمع ہونے والے رہنماؤں کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔