کرکٹ سے دور کرنے کے حالات پیدا کر دیئے گئے

سلیم خالق  اتوار 1 فروری 2015
عبدالرزاق کا ’’ایکسپریس ‘‘کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو ۔  فوٹو : فائل

عبدالرزاق کا ’’ایکسپریس ‘‘کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو ۔ فوٹو : فائل

عبدالرزاق کا شمار دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے، انہوں نے ون ڈے کیریئر کا آغاز 1996 میں کیا۔

تاہم پہلا ٹیسٹ کھیلنے کا موقع 3 سال بعد ملا،2000 میں آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی ٹرائنگولر سیریز میں بیٹ اور بال سے تہلکہ مچانے کے بعدکیریئر میں کئی بار انہوں نے پاکستان  کی ہار کو جیت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، آل راؤنڈر نے 46 ٹیسٹ میچز میں 28.61 کی اوسط سے 1946 رنز بنائے کے ساتھ 36.94 کی اوریج  سے 100 وکٹیں حاصل کیں۔

ون ڈے کرکٹ کے 265 میچز میں انہوں نے 29.70 کی اوسط سے5080 رنز جوڑے جبکہ 31.83 کی اوریج سے 269 وکٹیں بھی حاصل کیں تاہم اس دوران ان کا کیریئر اتار چڑھاؤ کا شکار رہا، وسیم اکرم  سمیت کئی سابق کرکٹرز  اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان ان کی صلاحیتوں سے درست انداز میں فائدہ نہیں اٹھا سکا، آل راؤنڈر کی اپنی بھی یہی رائے ہے، ذیل میں عبدالرزاق کے ساتھ گفتگو پیش خدمت ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ دنوں آپ کا یہ بیان سامنے آیا کہ بورڈ کہے تو میں خود عزت سے ریٹائرہونے کیلیے تیار ہوں،اس سے کیا ہم یہ سمجھیںکہ آپ کا انٹرنیشنل کیریئر ختم ہوگیا ہے؟

عبدالرزاق: حالات ایسے ہی بنتے جارہے ہیں، البتہ میں پی سی بی کی اجازت کے بغیر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا، حکام کہیں گے تو پھر ریٹائرمنٹ لینا ہی پڑے گی، چیئرمین بورڈ شہریار خان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی اعلان نہ کریں ورلڈکپ کے بعد دیکھیں گے۔

ایکسپریس:شہریار خان سے آپ کی ملاقات کب ہوئی تھی؟

عبدالرزاق: 2 ہفتے قبل ان سے ملا تھا، اس دوران خاصی مفید گفتگو ہوئی۔

ایکسپریس: مصباح الحق40 اور یونس خان37 سال کے ہوچکے، مگر دونوں ابھی تک کھیل رہے ہیں،آپ 35سال کی عمر میں ہی کیوں ہمت ہار گئے؟

عبدالرزاق: میرے لیے جیسے حالات پید ا کر دیے گئے ان میں اور کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں رہا، چیئرمین بورڈ کے عہدے پر ذکا اشرف اور پھر نجم سیٹھی آئے مگر دونوں میں سے کسی نے حوصلہ افزائی نہیں کی، البتہ ان سے قبل اعجاز بٹ نے اچھا سلوک کیا تھا،انھوں نے مجھے ٹیم میں بھی شامل کرایا، ورنہ ماضی کے ایک چیئرمین نسیم اشرف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عبدالرزاق کو اسکواڈ کا حصہ نہیں بنانا چاہیے، بعد ازاں کپتان اور سلیکٹرز نے بھی اسی پالیسی کو اپنایا، ورلڈکپ 2007میں ٹیم ہار کر آئی تو پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے پوچھاکہ ویسٹ انڈیز میں میگا ایونٹ سے پہلے عبدالرزاق ان فٹ ہوگئے تھے،اب ان کے بارے میں کیا رائے ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں سوال ہی نہ کریں، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ میں حکام کی گڈبکس میں نہیں رہا۔

ایکسپریس: ان باتوں سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ پی سی بی کے کچھ چیئرمین ایسے تھے جنھوں نے ذاتی طور پر ناپسند کرنے کی وجہ سے آپ کا کیریئر خراب کیا؟

عبدالرزاق:میں ایسانہیں کہہ سکتا، یقیناً سب نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی فیصلے کیے ہوں گے، نسیم اشرف نے یونس خان کوکپتان بننے کا کہا، عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کایہ بیان بھی سامنے آیا کہ انھیں اپنی قیادت میں نوجوان ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت ملی ہے، یہ سینئرز کے لیے واضح پیغام تھا۔

ایکسپریس:ڈومیسٹک ون ڈے ایونٹ میں آپ نے حصہ لیا، اس دوران بعض اچھی اننگز بھی کھیلیں، اس سے لگتا ہے کہ فٹنس اب بھی مناسب ہے؟

عبدالرزاق:فٹنس کھیلنے سے ہی برقرار رہتی ہے، ڈومیسٹک کرکٹ کے 4روزہ میچز میں شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میںکسی نوجوان کھلاڑی کو موقع دینا چاہتا تھا، میں 2سال سے زیڈ ٹی بی ایل کی قیادت بھی کررہا ہوں اس دوران ہمیشہ کوشش کی کہ نوجوانوںکو گروم کروں،فٹنس کے حوالے سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایکسپریس: اگر ورلڈکپ کے بعد شہریار خان آپ سے کہیں کہ ایک نوجوان ٹیم کو ساتھ لے کر چلیں تو آپ تیار ہونگے؟

عبدالرزاق: جی بالکل لیکن مجھے اس کا زیادہ امکان نہیں لگتا،گورننگ باڈی کے ارکان زیادہ تر اسی فیڈبیک پر چل رہے ہیں جو نسیم اشرف بورڈ کو دے کرگئے تھے، حالات ایسے نظر نہیں آتے جن کا آپ سوچ رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ ورلڈکپ کے بعد کیا بنتا ہے۔

ایکسپریس:وقار یونس کے ساتھ آپ نے بڑی کرکٹ کھیلی، ان سے قریبی تعلق رہا،انھیں اچھے سینئر کھلاڑیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا لیکن وہ اچانک آپ کے مخالف کیوں ہوگئے؟

عبدالرزاق: وقار یونس ایک اچھے انسان ہیں اورورلڈکلاس بولر بھی رہ چکے، میں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں لیکن ماضی میں جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے، دورئہ انگلینڈ میں مجھے 2 میچز کے بعد باہر کردیا گیا اور مینجمنٹ واپس پاکستان بھیجنے لگی تھی، یہ سب وقار یونس کی ہی پلاننگ تھی، وہ بار بار کپتان شاہد آفریدی سے کہتے تھے کہ عبدالرزاق کو ٹیم سے نکال دو، اس طرح کی باتوں کے بعد میں یہ تونہیں کہہ سکتا کہ خود ہی اسکواڈ سے باہر ہوگیا، کچھ لوگ نکالنا چاہتے تھے اور وہ کامیاب ہوگئے کیونکہ ان کے پاس قوت تھی۔

ایکسپریس :اب بھی پاور انہی کے پاس ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے، آفریدی سے آپ کی بڑی دوستی تھی، ان کے کپتان بننے کے بعد لگتا ہے اس میں کچھ دراڑ آگئی تھی، کیا اس کی وجہ وقار یونس تھے؟

عبدالرزاق: کپتان بننے کے بعد بھی آفریدی سے میری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا،ہمارے اب بھی اچھے مراسم ہیں،وقار یونس اپنے دورکوچنگ میں آفریدی سے کہتے کہ عبدالرزاق کو ٹیم میں نہ رکھو،وہ اصرار کرتا کہ مجھے اسکی ضرورت ہے تو بات مان لی جاتی لیکن بعد میں بیٹنگ ملتی نہ بولنگ، ورلڈکپ 2011 کے اسکور کارڈز ذرا چیک کریں،مجھے آٹھویں نمبر پر کھلایا گیا جب چند ہی گیندیں باقی ہوتیں تو بیٹنگ آتی،میں6میں سے2اننگز میں ناٹ آؤٹ بھی رہا،میڈیا کو بھی میرے ساتھ ہونے والی ان ناانصافیوں کا علم ہے، پھر بھی کوئی آواز نہ اٹھائے تو میں کیا کر سکتا ہوں، میں بات کروں تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی سخت باتیں کرنے کی عادت ہے اور ناراض رہتا ہے، حالانکہ میں صرف حقیقت بیان کررہا ہوتا ہوں، میں کرکٹ بورڈ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، نہ ہی سلیکشن میں دخل اندازی کا شوق ہے،مجھ سے میرے متعلق میڈیا نے جو سوال کیے ان کے جواب دیے،اگر اس میں کوئی تنقید کا نشانہ بنے تو مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں، میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہی حقائق بیان کیے۔

ایکسپریس: اپنے گذشتہ دور کوچنگ میں وقار یونس کی شاہد آفریدی سے بھی نہیں بن سکی تھی؟

عبدالرزاق: آفریدی میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے، وہ بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ بھی اچھی کرتے اور ٹیم کی ضرورت ہیں،قومی ٹیم 2011میں ویسٹ انڈیز گئی تو کوچ وقار یونس نے ہی رپورٹ دی تھی کہ آفریدی کپتانی کے لیے نااہل ہیں اور انکی وجہ سے ہی کافی میچز ہارے، اسی وجہ سے سابق فاسٹ بولر کو استعفیٰ دینا پڑا یا بورڈ نے نکال دیا،کوچ اور کپتان اکٹھے مل کر چلتے اور فیصلے کرتے ہیں، اتنے عرصے ملکر کام کرنے کے بعد ایسے بیانات تو نہیں دینے چاہئیں۔

ایکسپریس:محمد حفیظ اور آپ دونوں آل راؤنڈرز ہیں، کیا انہوں نے پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے آپ کی صلاحیتوںکا درست استعمال نہیں کیا جس کی نشاندہی پر آپ کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا؟

عبدالرزاق: میرے ٹیم سے باہر ہونے پر محمد حفیظ نے کہا کہ یہ فیصلہ مینجمنٹ نے کیا حالانکہ یہ ان کا اپنا اقدام تھا، اگر کپتان کے پاس فیصلوں کا اختیار نہیں تو اسے عہدے پر برقرار نہیں رہنا چاہیے، حفیظ نے ذکااشرف کی ہدایت کے مطابق ہی میرے ساتھ ایسا سلوک کیا، اگرچہ مجھے ٹیم میں وہی لے کر آئے تھے جس کے بعد ہم یو اے ای میں کھیلے، آسٹریلیا کیخلاف ٹوئنٹی 20سیریز جیتے، میری پرفارمنس اچھی رہی، پھر ورلڈکپ کھیلنے گئے تو ابتدائی میچز میں مجھے باہر بٹھایا گیا، پھر سیمی فائنل میں ذکااشرف آئے تو انھوں نے میرے نہ کھیلنے یا فٹنس کے حوالے سے بات تک نہیں کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ کیا فیصلہ کیا جا چکا۔

ایکسپریس: کیا اس کے بعد کبھی محمد حفیظ سے بات ہوئی جس میں غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہو؟

عبدالرزاق: مجھ پر جب جرمانہ ہوا تو بعد میں ہماری بات ہوئی تھی،وہ اصرار کرتے رہے کہ یہ میرا فیصلہ نہیں تھا وہ اسے کوچ ڈیو واٹمور تو کبھی مینجمنٹ پر ڈال دیتے تھے،حفیظ یوں بات شروع کرتے تو آگے چلتی رہتی۔

ایکسپریس:مصباح الحق نے بھی لگتا ہے آپ کو کبھی سپورٹ نہیں کیا؟

عبدالرزاق: مصباح صرف کپتانی کررہے ہیں، کپتان کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو سپورٹ کرے لیکن انھیں اعلیٰ حکام سے جو ہدایت ملتی ہے اسی پر عمل کرتے ہیں، انھیں ’’یس سر‘‘کرنا پڑتا ہے، وہ کوچ اورسلیکٹرز کی بنائی ٹیم پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

ایکسپریس: کبھی آپ کو قیادت کی پیشکش ہوئی ؟

عبدالرزاق: جب توقیر ضیا چیئرمین پی سی بی تھے تو 2002میں انھوں نے مجھ سے قیادت سنبھالنے کا کہا تھا لیکن اس وقت کوئی فیصلہ کرتا تو جلد بازی ہوتی،ٹیم میں وسیم اکرم،وقار یونس، انضمام الحق، راشدلطیف اور معین خان جیسے کھلاڑی بھی موجود تھے۔

ایکسپریس: کیا اب افسوس نہیں ہوتا کہ موقع کیوں گنوایا کیونکہ قومی ٹیم کی قیادت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے؟

عبدالرزاق: جب آپ کے پاس تجربہ نہ ہو تو ٹیم کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانا مشکل ہوتا ہے، ہاں اگر بورڈ کہے کہ کپتان تو آپ ہوںگے لیکن نظام اس کے ہی ہاتھ میں رہے گا تو یہ ایک الگ بات ہے۔

ایکسپریس: آپ کی موجودہ پرفارمنس کو دیکھیں تو بولنگ میں اتنے کامیاب نظر نہیں آتے کیا اس پر توجہ کم کردی ہے؟

عبدالرزاق: کرکٹ کے کھیل میں تحریک اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے، میری طرح کسی بھی پلیئر کو باہر کردیں تووہ بھی 100فیصد فٹ نہیں رہ سکے گا، ورلڈکپ2011 میں مجھے بہت کم بولنگ دی گئی، پھر اگلے برس ورلڈ ٹوئنٹی 20میں تو صرف ایک میچ ہی کھلایا گیا جس میں کوئی اوور نہیں ملا،آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مجھے کب بولنگ کرنا چاہیے تھی اور کہاں بیٹنگ کیلیے بھیجنا مناسب ہوتا، ریکارڈز کا جائزہ لیں سب صورتحال واضح ہوجائے گی، مگر میرا درست استعمال نہ ہوا جس کی وجہ سے بولنگ پرتوجہ کم ہو گئی۔

ایکسپریس: معین خان آپ کو ملکی کرکٹ سے بغاوت کروا کر آئی سی ایل کھیلنے کے لیے تو بھارت لے گئے، مگر اب جب وہ چیف سلیکٹر ہیں تو کبھی قومی ٹیم میں واپس لانے کی بات کہی؟

عبدالرزاق: میرے خیال میں ایسا کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہے، وہ چیف تو ہیں مگر ان کے ساتھ 5 دیگر سلیکٹرز بھی موجود ہیں، بورڈ اور دیگر معاملات کوبھی دیکھنا پڑتا ہے، میں صرف اتنا کہوں گا کہ جو بھی سلیکٹر ہو اس میں فیصلے کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، وہ سیدھا آکر میڈیا کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ عبدالرزاق کی اب ضرورت نہیں اسے ریٹائر ہوجانا چاہیے، اگر اس طرح کے اقدامات ہوں تو تنازعات اور مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس: گذشتہ عرصے آپ کے لیے میں نے ایک کالم لکھا تو معین خان نے کہا تھا کہ عبدالرزق ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی فٹنس اور فارم ثابت کریں قومی ٹیم میں شمولیت کیلیے دروازے اب بھی کھلے ہیں؟

عبدالرزاق: دروازے تو آج سے 20سال بعد بھی کھلے ہی رہیں گے،کھیلنے کا موقع ملنااور بات ہے، آپ نے جو سوال اٹھایا اس کا جواب ضرور ملا لیکن عمل درآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی کھلاڑی کو 2ہفتے قبل ورلڈکپ کیلیے منتخب کرنا درست اقدام ہوتا، سال بھر کے دوران سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف میچز سے ٹیم بنائی اور اسے کھلایا جاتا تو میگا ایونٹ کیلیے اچھی تیاری ہو جاتی۔

ایکسپریس:آپ انگلش کاؤنٹی اور غیرملکی لیگز وغیرہ میں شرکت کرتے رہیں گے؟

عبدالرزاق: جب تک فٹ ہوں کرکٹ کھیلتا رہوں گا لیکن پاکستان میںجب تک اس طرح کا سیٹ اپ رہے گا میں نہیں سمجھتا کہ قومی ٹیم میںواپس آؤں گا، نہ ہی مجھے اس کا شوق ہے، میں اس طرح کے ماحول میں نہیں کھیل سکتا کہ اسکواڈ میں شامل ہوجاؤ تو پلیئنگ الیون میں آنے کا موقع نہ ملے، ٹیم میں رکھ لیا جائے تو بیٹنگ اور بولنگ ہی نہ ملے، ایسے سلوک سے انسان دلبرداشتہ ہوجاتا ہے۔

ایکسپریس:آپ اپنے عروج کے دور سے اب تک لگی لپٹی نہ رکھنے کے عادی رہے ہیں، کیا اس صاف گوئی کی وجہ سے کیریئر کو نقصان تو نہیں پہنچا؟

عبدالرزاق: پی سی بی کو بڑا بنتے ہوئے کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کرنا چاہیے، کوئی غلطی کرے تو اسے سمجھانا چاہیے لیکن یہ خود چاہتے ہیں کہ پلیئر میڈیا میں ان پر تنقید کریں حالانکہ یہ چاہیں تو اسے روک سکتے ہیں، غیرپیشہ ورانہ مزاج کے مالک لوگ بورڈ کے چیئرمین بن کر ایسے کام کرتے ہیں کہ کرکٹ میں خرابیاں آتی ہیں،آج میں ہوں تو کل کوئی اور بھی متاثر ہوسکتا ہے، اس رجحان کو ختم کرنا ہوگا۔

ایکسپریس: ورلڈکپ میں پاکستانی فتح کے کیا امکانات دیکھتے ہیں؟

عبدالرزاق: میگا ایونٹ میں منفی کرکٹ چھوڑ کر مثبت ذہن کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا،اب 300رنز کا ہدف بھی آسانی سے حاصل کرلیا جاتا ہے، تمام کھلاڑیوں کو بتانا ہوگا کہ گیندوں کو روکنے کے بجائے اٹیک کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں، بولر ز پر حاوی ہوں گے تو ٹیم ایک اچھے انداز میں لڑتی ہوئی نظر آئے گی، نیوزی لینڈ میں دونوں پریکٹس میچز میں پاکستانی ٹیم ناکام رہی، ایسی کارکردگی سے مایوسی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا،ورلڈ کپ میں شرکت کی رسمی کارروائی پوری کرنے کیلیے تو نہیں جانا چاہیے۔

ایکسپریس: کیا پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر پائے گی؟

عبدالرزاق: ٹیم کی قوت کو پیش نظر رکھیں تو مشکل ہے، اگر قوم کی دعائیں لگ جائیں تو اور بات ہوگی۔

ایکسپریس: مصباح الحق اور شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی مستقبل کا کپتان نظر آرہا ہے؟

عبدالرزاق: پاکستان کرکٹ کے مستقبل کا انحصار ورلڈکپ پر ہے،ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی تو ملک میں کھیل کی بقا ہوگی ورنہ بنگلہ دیش میں جس طرح کئی کپتان گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ہمارے پاس بھی ہونگے۔

ایکسپریس: یونس خان نے ڈراپ کیے جانے پر پی سی بی کو آڑے ہاتھوں لیا، سخت الفاظ ادا کرتے ہوئے انھوں نے یہاںتک کہہ دیا کہ مجھے گولی مار دو، بعدازاں وہ قومی ٹیم میں آگئے ، اب آپ بھی میدان میں ہیں، کیا پاکستان میں اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر کرکٹر کو میڈیا میں ہی جانا ہوگا؟

عبدالرزاق: میڈیا پلیئرزکو ایک حد تک سپورٹ کرسکتا ہے،فیصلے تو حکام کو ہی کرنا ہوتے ہیں، جہاں تک یونس خان کی بات ہے تو پہلے ان کو ون ڈے ٹیم سے ڈراپ نہیں کرنا چاہیے تھا، بعد میں ٹیسٹ پرفارمنس کی بنیاد پر محدود اوورز کی کرکٹ میں لانا مناسب نہیں،اگر میں4روزہ میچ میں 200رنز بنالوں تو کیا ٹوئنٹی20اسکواڈ میں شامل کرلیں گے؟ ٹیموں کے لیے ایسے فیصلے تو نہیں کیے جاتے، بورڈ کو ایک انٹرنیشنل معیارسامنے رکھتے ہوئے صرف میرٹ پر ٹیم کا انتخاب کرنا چاہیے،فرسٹ کلاس کرکٹ کو بھی بہتر کرنا ہوگا، صرف اسکور کارڈز دیکھ کر کھلاڑ ی منتخب نہ کریں، دیکھیں کہ اس میں پرفارم کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، کیا وہ اس قابل ہے کہ توقعات وابستہ کی جا سکیں۔

ایکسپریس:جنوبی افریقہ آپ کا ٹیم کے ساتھ آخری ٹور تھا جب آپ ابتدا میں سے وطن واپس آگئے، بتایا تو گیا تھا کہ فٹنس مسائل ہیں مگر کچھ دوسری کہانیاں بھی سامنے آئیں، حقیقت کیا تھی، کوئی ڈسپلن کا معاملہ تو نہیں تھا؟

عبدالرزاق: ہم یو اے ای میں ٹوئنٹی20میچ کھیل کر اسی شب 8 گھنٹے کی فلائیٹ سے صبح جنوبی افریقہ پہنچے، وہاں شام کو پریکٹس سیشن رکھ دیا گیا،یہ فیصلہ کپتان کی رضامندی سے ہوا،پلیئرز تھکاوٹ کا شکار تھے لیکن 5گھنٹے تک ٹریننگ کرائی گئی، بدقسمتی سے میرا ہی مسئلہ سامنے آگیا، پورے سیشن میں سرگرم رہا، آخری10منٹ میں ہیمسٹرنگ انجری ہوگئی، اس طرح کے مسائل ہوجاتے ہیں لیکن اگر کوئی کپتان سپورٹ کرے اور کھلاڑیوں کی بہتری کے لیے بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو تو بڑی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس: علیم ڈار سمیت آپ کے کئی دوست اور ہم عصر اکیڈمیز بنانے کیلیے سرگرم ہیں،آپ نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے؟

عبدالرزاق: اب تو ہر کئی منہ اٹھاکر کوچ بن جاتا ہے لیکن میں اس کام کو پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کے بعد ہی کرنا چاہتا ہوں، لیول ٹو کورس کرچکا، تھری مکمل کرنے کے بعد کسی بھی فارمیٹ میں کوچنگ کا اہل ہوجاؤں گا، مستقبل کا میرا یہی پلان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔