پاک چائنا کو ریڈور ۔ ایک نیا ہنگامہ

خالد محمود رسول  منگل 10 فروری 2015

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ بھلا زمانہ تھا اور بھلے لوگ‘ ایک ہنگامے پر ہی شاد ہو جاتے۔ ایک یہ زمانہ آ گیا ہے اور ایسے لوگ کہ ایک ہنگامہ سرد نہیں ہوتا تو اگلا ہنگامہ اٹھا دیتے ہیں۔ پے در پے رونق کی دھماچوکڑی نے صحن توڑ کر  رکھ دیا ہے۔

ابھی کل کی بات ہے‘ سینٹ میں حاجی عدیل سمیت بیشتر سینٹرز نے ہنگامہ برپا کر دیا کہ حکمرانوں کا پاک چائنہ کوریڈور کا راستہ بدلنے کا ارادہ ہے تو جان لیں کہ یہ تبدیلی ہر گز گوارہ نہیں۔ جذبات اور غصہ ابلا تو بات کالا باغ ڈیم‘ ون یونٹ اور پاکستان کی وحدت تک جا پہنچی۔ ابھی اخبارات کی سرخیاں اور اینکرز کی جولانیاں ماند نہ پڑی تھیں کہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی آتش زدگی پر JIT رپورٹ کے مندرجات نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ایم کیو ایم اور PTI نے سلامی کے لیے مخصوص توپوں سے الزامات کی وہ گولہ باری شروع کی ہے کہ سینٹ کا ہنگامہ پس پشت چلا گیا ہے۔

اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل کا بنیادی نقطۂ نظر یہ تھا کہ پاک چائنا کوریڈور کا طے شدہ روٹ خیبر پختون خوا سے ہو کر بلوچستان سے گزرنا تھا یعنی حسن ابدال‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ژوب‘ گوادر۔ لیکن اب جس نئے روٹ کی بات چل نکلی ہے‘ اس کی رو سے پاک چائنا کاریڈور کا راستہ حسن ابدال‘ لاہور‘ ملتان‘ سکھر‘ حیدر آباد‘ رتو ڈیرو اور گوادر ہو گا۔ اول الذکر روٹ کی لمبائی کا تخمینہ 2681 کلو میٹر تھا۔ جب کہ موخر الذکر روٹ سے لمبائی میں تقریباً ایک ہزار کلو میٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔

ظاہر ہے ‘ ایک ہزار کلو میٹر کی طوالت پر اٹھنے والے اخراجات سے منصوبے کے اخراجات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو گا۔ مانا کہ فی الحال چین ہی اس منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ لیکن پاکستان کو اپنے حصے کی سرمایہ کاری چین کو لوٹانا تو ہے۔ تو اس وقت بقول شخصے اس اضافی لاگت کی ادائیگی کرتے ہوئے پاکستان کو ’’لگ پتہ‘‘ جائے گا۔ اس منصوبے کی کثیر الجہتی سے بہت سے معاشی فوائد کی توقعات ہیں۔

نہ صرف پاکستان کو راہداری کی مد میں مسلسل آمدن حاصل ہو گی۔ اس کوریڈور کے ساتھ ساتھ تجارتی اور صنعتی منصوبوں کی وجہ سے اس کوریڈور سے ملحقہ منسلک علاقوں میں تجارتی و صنعتی سرگرمیوں سے معاشی تبدیلی کا نیا باب شروع ہو سکتا ہے۔ روٹ کی تبدیلی سے خدشہ یہ ہے کہ پسماندگی اور گوں ناگوں مسائل میں جکڑے دو صوبوں کے یہ وسیع علاقے جہاں سے اس روٹ کو گزرنا تھا یا ہے(؟) ان متوقع فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ یعنی راستہ کیا بائی پاس ہوا‘ معاشی فوائد بھی بائی پاس ہو جائیں گے!!

ہمیں نہیں معلوم کہ حکومتی بنچوں پر موجود کسی نے انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا یا کیا؟ لیکن حاجی عدیل نے اپنی شعلہ بیانی میں تاریخی حوالے دے کر حکومت کو باور کرایا کہ انھیں سہل مت جانے۔ بقول ان کے اے این پی نے ون یونٹ کی مخالفت کی اور بالاخر ون یونٹ نہ رہا۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی اور بالآخر کالاباغ ڈیم نہ بن سکا۔ اب انھوں نے پاک چائنا کوریڈور میں روٹ کی تبدیلی کا ’’ایشو‘‘ اپنی سرپرستی میں لیا ہے تو حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اے این پی جب ٹھان لے تو…‘ حکومت کو توخیر انھوں نے تنبیہ دی سو دی‘ انھوں نے چین کو مخاطب کر کے بھی واضح کیا کہ ان کی پارٹی روٹ کی تبدیلی کو کسی صورت بھی قبول نہ کرے گی اور نہ ہی تبدیل شدہ روٹ تعمیر کرنے کی اجازت دے گی۔ حکومت تو حکومت‘ حاجی صاحب نے چین کو بھی ’’نیک و بد‘‘ سمجھا دیا ہے۔ اب دیکھیے اس منصوبے پر کیا گزرتی ہے!!

وزیر منصوبہ بندی کمیشن احسن اقبال نے سینٹ میں ان ہنگامہ آراء تقاریر کے بعد اگلے روز پریس کانفرنس کی۔ حسب معمول اپنے ٹھنڈے ٹھار انداز میں وضاحت کی روٹ میں تبدیلی کی افواہیں بلا جواز ہیں کہ ابھی تک حتمی فیصلہ تو ہوا نہیں۔ حکومت تین مختلف راستوں پر غور کر رہی ہے۔ ایک وہ جسے اصل راستہ کہا جا رہا ہے۔ یعنی گوادر‘ پنگجور‘ کوئٹہ‘ ژوب‘ ڈیرہ اسماعیل خان دوسرا گوادر‘ نو ڈیرو‘ سکھر‘ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ‘ تیسرا وہ راستہ جس میں سکھر اور لاہور بھی شامل ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اس راستے کو معاشی مراکز کے ساتھ منسلک کرنا ازحد ضروری ہے… وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ انھوں نے یہ نوید بھی سنا ڈالی کہ چینی صدر زی جن پن جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے اور 45 ارب ڈالر کی سرمائے کاری پر مشتمل پاک چائنا اکنامک کوریڈور منصوبے کو ’’جی بسم اللہ‘‘ جیسی اشیر باد دیں گے۔

پاکستان میں سے گزرنے والے اس اکنامک کوریڈور پر علاقائی مفادات کا جھگڑا اس منصوبے کے لیے نیک شگون نہیں۔ اپنوں اور کچھ عالمی دوستوں کے طفیل گوادر پورٹ پر تضادات اور شبہات کے بادل ابھی تک چھٹے نہیں۔ دوسری طرف چین ان بادلوں سے کہیں آگے کے منظر نامے میں اپنا محفوظ راستہ جلد بنانے کا متمنی ہے۔ چین اپنی ضروریات کا 60 فیصد حصہ تیل درآمد کرتا ہے جس کی 80 فیصد ترسیل آبنائے ملاکا اور خلیج فارس کے ذریعے ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے مغربی چین تک تیل کی ترسیل کا سفر بارہ ہزار میل سے زائد کا ہے۔ جب کہ گوادر‘ کاشغر راستہ میسر ہونے کے بعد سفر کی طوالت دس ہزار میل کم ہو جائے گی۔

وقت کی بچت اپنی جگہ‘ جو سفر 17/18 دنوں میں طے ہوتا ہے‘ وہ دو تین دن میں طے ہو سکے گا۔ اخراجات کی بچت سے ہی اس منصوبے کی خطیر سرمایہ کاری پوری ہو  جائے گی۔ وقت اور اخراجات کے علاوہ سمندری حدود میں امریکا کی بڑھتی ہوئی طاقت‘ اور حال ہی میں بھارت کی میرین سیکیورٹی معاملات میں دلچسپی سے چین کو تشویش لاحق ہے کہ کل کلاں کو کسی بھی سیاسی یا عسکری تصادم کی صورت میں چین کو تیل کی سپلائی بلاک کی جا سکتی ہے۔

چین کے پاس ایک آپشن گوادر کا ہے دوسرا برما کی ایک بندرگاہ سے۔ معاملہ صرف تیل کی محفوظ‘ نسبتاً سستی اور جلد ترسیل کا ہی نہیں‘ چین کے مغربی علاقوں سے انھیں راستوں سے عالمی تجارت کے لیے آسان اور نسبتاً سستی تجارت کے امکانات بھی اپنی جگہ اتنے ہی اہم ہیں۔ عالمی بساط پر بڑی طاقتوں کا ایک دوسرے کو شہہ اور مات دینے کا سلسلہ اپنی جگہ۔ لہٰذا اس منصوبے میں چینی معیشت اور حکومت کی دلچسپی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔