سب سے بڑی خبر پے کس کا دھیان ؟

وسعت اللہ خان  منگل 7 اپريل 2015

یمن کی میڈیائی دھما چوکڑی میں مشرقِ وسطی میں اس برس کی اب تک کی سب سے اہم پیش رفت کہیں کھوگئی۔یعنی سوئس شہر لوزان میں چوبیس مارچ کو ایرانی جوہری پروگرام محدود کرنے والا معاہدہ۔

ایران کا جوہری پروگرام اٹھاون برس پرانا ہے۔انیس سو ستاون میں امریکا کی آئزن ہاور انتظامیہ نے ایٹم برائے امن کی اسکیم کے تحت پاکستان اور ایران سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کو پانچ میگاواٹ قوت کے ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیے جن کے لیے افزودہ میٹیریل بھی امریکا دیتا تھا۔

انیس سو اڑسٹھ میں جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے کے ابتدائی دستخط کنندگان میں ایران بھی شامل تھا۔ سمجھوتے کے فریقوں کو پابند کیا گیا کہ ان کی ایٹمی سرگرمیاں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے ( آئی اے ای اے ) کے قوانین و نگرانی کے تابع ہوں گی۔( اسرائیل ، پاکستان اور بھارت نے اس سمجھوتے پر آج تک دستخط نہیں کیے)۔

شاہ ایران نے انیس سو چوہتر میں اعلان کیا کہ چونکہ تیل ایک دن ختم ہوجائے گا لہذا پیش بندی کے طور پر ایران انیس سو چورانوے تک تئیس ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی پلانٹس سے پیدا کرے گا۔ آٹھ امریکی کمپنیوں سمیت درجن بھر مغربی اداروں سے ٹینڈر طلب کیے گئے۔ایک جرمن کمپنی سیمنز نے بوشہر میں بارہ سو میگاواٹ کے پہلے پلانٹ کی تعمیر شروع بھی کردی۔

مئی انیس سو چوہتر میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا۔ ایک ماہ بعد رضا شاہ پہلوی نے فرانسیسی اخبار لی ماند کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران دنیا کی توقعات سے کہیں پہلے خود کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کر لے گا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایران امریکا کا علاقائی پولیس مین اور خطے کی واحد غیر اعلانیہ جوہری قوت اسرائیل کا سفارتی ساجھے دار تھا۔ جون انیس سو چوہتر میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک اندرونی یاداشت میں کہا گیا کہ اگر شاہ اپنے جوہری بجلی گھروں کے عظیم الشان منصوبے کو مکمل کرلیتا ہے تو اتنا استعمال شدہ پلوٹونیم پیدا ہوگا جو چھ سو سے سات سو ہتھیاروں کے لیے کافی ہو۔

شاہ کو ایٹمی ہتھیاروں کے خیال سے پرے اور سویلین ایٹمی راستے پر رکھنے کے لیے امریکیوں نے تجویز پیش کی کہ اگر شاہ ری پروسسینگ ملک کے اندر کرنا پسند کریں تو پھر امریکا کے ساتھ ایک مشترکہ ری پروسینگ پلانٹ لگا لیں۔یا امریکا ایرانی بجلی گھروں کے لیے ایندھن کی یقینی فراہمی اس وعدے پر کرے کہ استعمال شدہ ایندھن واپس کردیا جائے گا۔ انیس سو اٹہتر میں جمی کارٹر کے دورہِ تہران کے موقع پر اس بابت ایک جامع سمجھوتے کا مسودہ طے پا گیا مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ شاہ کی حکومت بھی نہ رہی اور ایک نیا ایران نمودار ہوگیا۔

آیت اللہ خمینی نے آتے ہی امریکا کو شیطانِ بزرگ قرار دیا اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ، ذ خیرے اور استعمال کو حرام قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا ( بعد ازاں دوہزار پانچ میں علی خامنہ ای نے اس فتویٰ کی تجدید کی )۔ شیطانِ بزرگ نے تہران یونیورسٹی کے ریسرچ ری ایکٹر کے لیے افزودہ یورینیم کی فراہمی روک دی۔امریکی کمپنیوں نے جوہری بجلی گھروں کے منصوبوں میں شرکت سے ہاتھ کھینچ لیا۔فرانس نے اپنی ایک ری پروسیسنگ کمپنی میں سابق شاہی حکومت کے دس فیصد شئیرز منجمد کردیے اور جرمن کمپنی  نے امریکی دباؤ پر بوشہر جوہری بجلی گھر کا تعمیراتی کام آدھے میں چھوڑ دیا۔عراق ایران جنگ کے دوران عراقی فضائیہ نے بوشہر پلانٹ کے ڈھانچے پر بمباری بھی کی۔

انیس سو چوراسی میں ایرانی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی سمجھوتے ( این پی ٹی ) کی حدود میں رہتے ہوئے پرامن جوہری سرگرمیاں جاری رکھے گی۔ بعد ازاں ارجنٹینا ، چین اور سوویت یونین کے ساتھ غیر فوجی جوہری تعاون کے سمجھوتے ہوئے۔ایک روسی کمپنی کو بوشہر بجلی گھر کی تعمیر مکمل کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ ایران نے یہ موقف اپنائے رکھا کہ اسے این پی ٹی کے تحت غیر فوجی مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔

انیس سو اٹھانوے میں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تو پانچ روز بعد ایرانی وزیرِ خارجہ کمال خرازی نے اسلام آباد پہنچ کر نواز شریف حکومت کو اس کارنامے پر مبارک باد دی۔لیکن تب تک جو بات امریکیوں کے علم میں تھی وہ شائد نواز شریف حکومت کے علم میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک کے توسط سے ایران کو یورینیم کی افزودگی کے لیے آئی آر ون ماڈل کے سینٹری فیوجز اور جوہری ہتھیاروں کی چینی ڈرائنگز کی فراہمی۔

چنانچہ آئی اے ای اے نے سن دو ہزار تین میں اپنی رپورٹ میں پہلی دفعہ انکشاف کیا کہ نتانز کے جوہری مرکز میں فوجی استعمال کے انتہائی افزودہ یورنیم کے آثار ملے ہیں۔ ایران کا موقف تھا کہ یہ آثار استعمال شدہ پاکستانی سینٹری فیوجز کے ہیں۔ایران نے عدم اعتماد کی فضا کے پیشِ نظر عارضی طور پر یورنیم کی افزودگی کا عمل بھی روک دیا۔تاہم آئی اے ای مصر رہی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

چنانچہ دو ہزار چھ میں ایران کا کیس آئی اے ای اے کے بورڈ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا۔یوں ایران پر مرحلہ وار ایٹمی ، فوجی اور معاشی پابندیاں نافذ ہوتی چلی گئیں۔اس عرصے میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے تاہم صدر احمدی نژاد اور امریکی صدر بش کے بے لچک رویوں نے کوئی بریک تھرو نہیں ہونے دیا۔

دنیا کی پوری توجہ ایرانی جوہری پروگرام پر مرکوز رہتے ہوئے یہ سوال اٹھانے کی کسی کو فرصت نہیں رہی کہ اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے پر بھی کچھ توجہ کرلی جائے جہاں فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے انیس سو ستاسی کے اندازے کے مطابق اسی ایٹمی ہتھیار تیار پڑے تھے اور آج دو ہزار پندرہ ہے۔

قصہ مختصر انتہائی تھکا دینے والے مذاکراتی ادوار کے بعد پچھلے ماہ کی چوبیس تاریخ کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان مع جرمنی اور ایران کے درمیان جس جامع سمجھوتے کا خاکہ طے پایا، اس میں ایران کا یہ بنیادی مطالبہ تسلیم کرلیا گیا کہ اسے سویلین مقاصد کے لیے یورینیم کی تین اعشاریہ سڑسٹھ فیصد تک افزودگی کا حق ہوگا۔( ایٹمی ہتھیار سازی کے لیے نوے فیصد تک افزودگی ضروری ہے اور ایران بیس فیصد تک افزودگی کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے )۔

اس کے عوض ایران کو اپنے یورینیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کی تعداد انیس ہزار سے کم کرکے چھ ہزار تک لانی ہوگی۔ایران پرانے آئی آر ون کے علاوہ کسی اور ساخت کے سینٹری فیوجز استعمال نہیں کرسکے گا۔ایران اپنے دس ہزار کلو گرام افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرکے، تین سو کلو گرام تک لے آئے گا۔ایران صرف نتانز کا پلانٹ جوہری افزودگی کے لیے استعمال کرے گا اور فردو کا جوہری مرکز صرف تحقیق و ترقی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔

ارک کیپلوٹونیم ساز پلانٹ میں تبدیلیاں ہوں گی تاکہ اس میں صرف انرجی گریڈ کا پلوٹونیم تیار ہوسکے۔ارک کا ہیوی واٹر ری ایکٹر استعمال نہیں ہو سکے گا اور استعمال شدہ پلوٹونیم بیرونِ ملک بھیج دیا جائے گا۔آئی اے ای اے کی معائنہ ٹیموں کو تمام جوہری تنصیبات ، یورینیم کی کانوں، کارخانوں ، سپلائی کے کھاتوں اور دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی کی اچانک چھان پھٹک کا بلا روک ٹوک حق ہوگا۔ ابتداًیہ سمجھوتہ دس سے پندرہ برس کے عرصے کے لیے ہوگا۔

جیسے ہی آئی اے ای اے تصدیق کرے گا کہ سمجھوتے پر مکمل عمل ہورہا ہے۔ ایران کے خلاف پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی سلامتی کونسل سے درخواست کی جائے گی۔

مگر اسرائیل اور سعودی عرب اس سمجھوتے سے خوش نہیں۔اسرائیل ایران کے سویلین جوہری پروگرام کو بھی جڑ سے اکھاڑنے تک مطمئن نہیں ہوگا کیونکہ اسرائیل خطے میں تنِ تنہا ایٹمی قوت رہنا چاہتا ہے یعنی ’’سونجیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے ’’۔جب کہ سعودی عرب نہ صرف ایرانی جوہری صلاحیت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے بلکہ اسے یہ بھی فکر ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد جب روزانہ ڈیڑھ ملین بیرل ایرانی تیل مارکیٹ میں آئے گا تو تیل کی قیمت مزید کم ہوگی اور جب ایران کی اقتصادی مشکیں ڈھیلی ہوں گی تو اس کے علاقائی ، سیاسی  و فوجی اثرو نفوذ میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔

اس موقع پر مجھے انیس مئی انیس سو ننانوے کی ایک خبر جانے کیوں یاد آرہی ہے۔

’’ ایران کے صدر محمد خاتمی کے پانچ روزہ دورہِ سعودی عرب کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک خطہ قرار دیا جائے۔فریقین نے کہا کہ اسرائیل کے جوہری ہتھیار اور اس بابت بین الاقوامی قوانین کی عدم تعمیل علاقے کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے‘‘۔۔۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔