جب دبئی دبئی نہیں تھا

وسعت اللہ خان  منگل 19 مئ 2015

میں نے تو کبھی دبئی کا نام بھی نہ سنا تھا۔بس ایک دن اخبار میں آئی ٹی ایل کا اشتہار دیکھا کہ آفس اسسٹنٹ کی ضرورت ہے ، تنخواہ سوا سو روپے ملے گی۔مجھے کیا معلوم تھا کہ باقی زندگی کے لیے دبئی ہی میرا وطن بن جائے گا۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکا انیس فروری انیس سو انسٹھ کو بمبئی سے دارا نامی بحری جہاز سے پانچ دن کا سفر کرکے دبئی پہنچا۔جہاز چار کلومیٹر پرے ہی لنگر انداز ہوگیا کیونکہ ساحل ریت کے سبب اتھلا ہونے کی وجہ سے صرف کشتیاں ہی گودی تک پہنچ پاتی تھیں۔ایک امیگریشن افسر کشتی کے ذریعے ہمارے جہاز تک پہنچا تاکہ مہر لگانے کے لیے پاسپورٹ جمع کرسکے۔پھر ایک اور کشتی جہاز سے آن لگی اور مسافر سمندری ہوا سے جھولتی چوبی سیڑھی سے اترتے ہوئے ڈولتی کشتی میں کودنے لگے۔ ملاحوں کے سر پر رومال تھے اور تن پر بس لنگی۔ساحل پر بیسیوں چھوٹی بڑی رنگین کشتیاں لنگر انداز تھیں۔مگر ایک بھی کشتی ایسی نہ تھی جو موٹر سے چلتی ہو۔

کسٹم ہاؤس کی چھوٹی سی عمارت تھی جس سے مسافر اور تجارتی سامان دونوں کلئیر ہوتے تھے۔اسی جگہ شیخ راشد بن السعید المکتوم اجلاس بھی منعقد کرتے تھے۔سامان کی مقدار کی کوئی قید نہیں تھی۔اگر زیادہ ہوتا تو بلوچ حمال ( قلی ) اسے پیٹھ پر لاد کر منزل تک پہنچا دیتے۔یہی حمال بازار میں تجارتی بوجھ بھی ڈھوتے تھے۔

پورے دبئی میں بس ایک سپاہی تھا۔سرخ حنائی داڑھی اور بالوں والا گل سعید پاکستانی ۔رات بھر وہ لاٹھی زمین پر مار کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا۔بر دبئی کے علاقے میں ایک ہی بازار تھا جس میں زیادہ تر عرب ، ایرانی ، بھارتی اور پاکستانی چہرے نظر آتے۔

پکی سڑک نہیں تھی تو موٹر کار بھی نہیں تھی۔سامان پیٹھ پر یا ایک پہیے کے ٹھیلے پر لاد کے ادھر سے ادھر پہنچایا جاتا۔ کسی کو کوئی جلدی نہیں تھی۔مجھے ایسا لگا جیسے الف لیلوی دور کے کسی بازار میں گھوم رہا ہوں۔زیادہ تر رہائشی کمرے کچی پکی دکانوں کے اوپر ہی بنے ہوئے تھے۔دوکان دار عموماً آلتی پالتی مارے بیٹھتے اور ان کے اردگرد اشیا کے انبار ہوتے۔جن پیٹیوں میں مال آتا انھی پیٹیوں کو بطور کرسی اور میز استعمال کرلیا جاتا۔ایک بڑی سی پیٹی ایک طرف سے کھول کے بطور الماری کھڑی کر لی جاتی جو بہی کھاتے اور رسیدیں وغیرہ رکھنے کے کام آتی۔دکانوں کی اشیا اور مٹی کے تیل کے لیمپوں کی بو پورے بازار میں پھیلی رہتی۔

بدو پینے کا پانی کنستروں میں جمہیرہ کے کنوؤں سے گدھوں یا گدھا گاڑیوں پر لاد کے پہنچاتے تھے۔جب جمہیرہ کے کنوؤں میں پانی کم ہوجاتا تو قریبی جزیروں سے کشتیوں کے ذریعے پانی لا کر فروخت کیا جاتا۔ دبئی کی لگ بھگ تیس ہزار آبادی کو روزانہ کم ازکم بارہ ہزارگیلن پانی درکار تھا۔عموماً ہر شخص کا روزانہ ایک کنستر میں گذارا ہوجاتا۔

بارشوں کے موسم میں شہر سے باہر بسنے والے بدو چادریں بانس کے چاروں کھونٹ باندھ دیتے۔ چادر میں جب پانی جمع ہوجاتا تو درمیان میں سوراخ کرکے اسے کسی برتن میں بھر لیا جاتا۔ جن دنوں شبنم زیادہ گرتی تو جھاڑیوں پر کپڑے پھیلا دیے جاتے اور صبح ان سے پانی نچوڑ لیا جاتا۔

عام لین دین کے لیے بھارتی کرنسی استعمال ہوتی تھی۔ بس اس کا رنگ بھارت میں استعمال ہونے والی کرنسی سے مختلف تھا۔سو ہندوستانی روپے کے ایک سو آٹھ دبئی روپے مل جاتے تھے۔ایک روپے میں سولہ آنے تھے۔بدو عام استعمال کا پانی چار آنے فی کنستر اور پینے کے قابل پانی آٹھ آنے فی کنستر بیچتے۔پینے کے پانی کا ذائقہ کھارا تھا اور اس میں کیڑے مکوڑے بھی پڑے رہتے تھے۔لہٰذا استعمال سے پہلے ابالنا لازمی تھا۔

بجلی نہیں تھی۔زیادہ تر مٹی کے تیل کے لیمپوں اور موم بتی پر گذارہ تھا۔مٹی کے تیل سے چلنے والے اکادکا فریج بھی دستیاب تھے۔البتہ دبئی میں قائم واحد برٹش بینک آف مڈل ایسٹ اور کچھ کمپنیوں کے اپنے ڈیزل جنریٹرز تھے۔پھر ہم جیسے چند چھوٹے تاجروں نے مل کر ایک سیکنڈ ہینڈ برطانوی جنریٹر خرید لیا جس سے تقریباً سو دکانوں کو بجلی ملنے لگی۔مگر یہ بجلی بھی بارہ گھنٹے ہی دستیاب تھی کیونکہ ڈیزل ایران سے آتا تھا۔جنریٹر پرانا ہونے کے سبب اکثر خراب ہوتا رہتا اور اس کے فاضل پرزے لندن سے منگوانے میں کئی دن لگ جاتے کیونکہ براہ راست فضائی سروس نہیں تھی۔

گرمیوں کے دنوں میں پارہ پچاس ڈگری سے اوپر چڑھ جاتا۔ آج کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ اس وقت بغیر پنکھے کے کیسے گذارہ ہوتا تھا۔اکثر لوگ پوری پوری رات ساحل کے کنارے لیٹ کر گذار دیتے۔گرمی کی شدت کے سبب ہمارے لنچ کا وقفہ عموماً تین گھنٹے کا ہوتا۔خوش قسمتی سے ہمیں برٹش بینک کے ایک افسر سنتو کرپلانی کا گھر میسر آگیا۔ وہاں ایر کنڈیشنڈ تھا جو بینک کے جنریٹر سے چلتا تھا۔کرپلانی کا تعلق بھی حیدرآباد سندھ سے تھا۔وہاں ہم اپنا اپنا لنچ لے جاتے اور ذرا دیر اونگھ بھی لیتے۔

انیس سو اٹھاون میں دبئی میں پہلا ڈاکخانہ کھلا۔اس سے پہلے ہفتے میں تین دن ڈاک کے تھیلے شہر کے وسط میں ایک مقررہ وقت پر لائے جاتے۔لوگ جمع ہوجاتے۔ڈاکیہ نام پکارتا جاتا۔جوغیر حاضر ہوتا اس کا لفافہ اگلے ڈاک پھیرے میں ملتا۔انیس مئی انیس سو انسٹھ کو دبئی میں بننے والی پہلی فضائی پٹی سے پہلا جہاز اڑا۔کچے رن وے کی لمبائی چھ ہزار فٹ تھی۔دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ تو ابھی کل کی بات ہے جب تیس ستمبر انیس سو اسّی کو اس کا افتتاح ہوا۔ آج اس کا شمار دنیا کے تین مصروف ترین ایرپورٹوں میں ہے۔( باقی دو ہیتھرو اور شکاگو ہیں )۔

دبئی سے کہیں آس پاس جانا بھی مہم جوئی سے کم نہ تھا۔ قریب ترین ائیرپورٹ شارجہ تھا اور شارجہ تک بس صحرائی ٹریک تھے جن پر فور وھیلر ٹیکسیاں ہی چل سکتی تھیں۔قریب ترین اسپتال بھی شارجہ میں تھا جو برطانوی فوج نے قائم کیا تھا۔کئی مریض وہاں تک پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتے۔مگر کشتی سے کھاڑی کے راستے شارجہ تک جانا زیادہ آرام دہ اور سستا پڑتا تھا۔

بھارت سے شارجہ تک کوئی باقاعدہ پرواز نہیں تھی۔بس کالانگا نام کی ایک نجی فضائی کمپنی تھی جو حسب ِ ضرورت بمبئی سے نائجیریا تک بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے چارٹرڈ فلائٹس چلاتی تھی۔یہ فلائٹ کراچی اور شارجہ رکتی ہوئی نائجیریا جاتی تھی۔اگر فلائٹ میں مسافر کم ہوتے تو کسی خوش قسمت کو نشست مل جاتی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ آپ بمبئی سے بی او اے سی کے ذریعے بحرین جائیں اور وہاں گلف ایوی ایشن کی پرواز کا انتظار کریں جو ہفتے میں دو سے تین بار کویت سے دوہا اور مناما ہوتی شارجہ جاتی۔

البتہ سمندری سفر یوں آسان تھا کہ انیس سو چار سے برٹش انڈیا اسٹیم کمپنی بصرہ سے بمبئی تک پانچ بحری جہاز چلاتی تھی جو ہر خلیجی ریاست میں رکتے رکاتے گوادر اور کراچی کے راستے بمبئی تک آتے جاتے۔ شیوخ بھی تعلیم و صحت کی سہولتوں ، سیر و تفریح اور تعطیلات کے لیے بمبئی اور کراچی کو پسند کرتے۔ عرشے کا کرایہ سو روپے اور کیبن کا تین سو روپے تھا۔انھی جہازوں سے کپڑا اور اشیائے خورونوش کا کارگو بھی ہندوستان سے خلیج جاتا۔

کویت میں تو تیل نکل آیا تھا مگر دیگر خلیجی ریاستوں کا معاشی دارومدار موتیوں پر تھا۔یہ سیزن مئی تا ستمبر پانچ ماہ چلتا جس میں تقریباً پانچ ہزار کشتیاں ساحل کے نزدیک سیپیوں سے موتیوں کی فصل حاصل کرتی تھیں۔بیسویں صدی کے وسط تک خلیج کے علاقے سے سالانہ پندرہ لاکھ پاؤنڈ موتی ہندوستان اور یورپی منڈیوں کو بھیجے جاتے تھے۔ان موتیوں کی آمدنی کا دس فیصد کشتی کے مالک کو، بیس فیصد دلال کو اور بقیہ ستر فیصد کشتی کے ناخدا ، غوطہ خور مزدوروں اور حکمران شیخ میں بٹ جاتا۔پھر جاپان نے مصنوعی موتی بنانے شروع کردیے تو سچے موتیوں کی مارکیٹ کم سے کم ہوتی چلی گئی۔

مگر سن ساٹھ کی دہائی میں جب تیل نکلا تو قسمت بدلنی شروع ہوئی۔سب سے پہلے انیس سو باسٹھ میں ابو ظہبی سے ، سن چھیاسٹھ میں دبئی سے اور انیس سو بہتر میں شارجہ سے تیل برآمد ہونا شروع ہوا۔

انیس سو تہتر میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے تعمیراتی کام جناتی انداز میں شروع ہوگیا اور لاکھوں کارکن دور و نزدیک سے آنے لگے۔تاہم دبئی کی مکتوم فیملی نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا کہ مستقبل تیل میں نہیں تجارت ، ری ایکسپورٹ اور سروس سیکٹر میں ہے کیونکہ دبئی کی مارکیٹ کو تجارت اور ری ایکسپورٹ کا تجربہ انیسویں صدی سے ہے۔آج دبئی کی آبادی دو ملین سے اوپر ہے۔یہاں دو سو سے زائد نسلوں کے لوگ رہتے اور کام کرتے ہیں۔اب وہاں کس آسائش کی کمی ہے۔یہ آپ سب کو بخوبی معلوم ہے۔

( یہ مضمون دبئی کے ایک معروف سندھی تاجر رام بخشانی کی یادداشت ’’ٹیکنگ دی ہائی روڈ ’’کے اقتباسات سے تیار کیا گیا۔یہ کتاب بھارت کے متعدد بزنس اسکولز میں داخلِ نصاب ہے )۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔