نفاذ اردو کی ضرورت

م ش خ  منگل 26 مئ 2015

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ اردوکو 15 سال کے اندر اندر سرکاری زبان کا درجہ نہ دیے جانے کے خلاف درخواست کی سماعت کررہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اردو کے نفاذ کے لیے کہ یہ پاکستان کی واقعی سرکاری زبان ہو جائے تہہ دل سے کوششیں کررہے ہیں، اردو کسی طبقے یا علاقے کی زبان نہیں ہے اور پاکستان میں اردوکا نفاذ وقت کا تقاضا بن چکا ہے۔

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 25 فروری 1948 کو پاکستان کی سرکاری زبان اردو کو قرار دیا تھا اور قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی، مشرقی اور مغربی پاکستان کے اراکین کی بہت بڑی اکثریت نے اس کی پر زور حمایت کی تھی اور قائداعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل کے اس پر دستخط کیے تھے۔

مارچ 1948 میں جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو انھوں نے وہاں بنگالی قوم سے خلوص دل سے درخواست کی تھی کہ  اپنی گفتگو میں اردوکا استعمال کریں کیوں کہ آزادی سے قبل مسلم لیگ اردو کی حمایت پر زور طریقے سے کرتی رہی ہے اور ہم ہندی کے مقابلے میں اردو کے حق میں قراردادیں پیش کرتے رہے ہیں، اس کے علاوہ ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ 1952 میں بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکا میں لاکھوں عوام کے جلسہ عام میں اردو کو پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان سے نوازا۔ 1973 کے منظور شدہ آئین کے مطابق بھی اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔

اس ملک میں ایک خاص طبقہ ہے جو اردو کی مخالفت کرتا ہے کیوں کہ نفاذ اردو سے اس طبقے کا زوال یقینی ہے ہمارے سربراہ حکومت  اپنی قومی زبان بولنے کو ترجیح نہیں دیتے آج بھی بھارت میں اردو نما ہندی بولی جاتی ہے، وزیراعظم نواز شریف اردو میڈیم کے آدمی ہیں مگر جب اقوام متحدہ جاتے ہیں تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو ہندی اردو زبان میں تقریرکرتا ہے مگر ہمارے وزیراعظم انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کے رہنما اپنی اپنی قومی زبان میں تقریر کرتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اس لیے ہمارے رہنماؤں کو بھی قومی زبان کو اپنانا چاہیے اور عالمی اداروں میں اردو میں ہی بات کرنا چاہیے۔ ہمارے ارباب اختیار کے غیر سنجیدہ رویے سے بھی اردو کو بہت نقصان ہورہا ہے جب کہ چاروں صوبوں کے عوام نے ہمیشہ اردو سے محبت کا ثبوت دیا ہے۔ مگر صرف کہنے کو اردو قومی اور سرکاری زبان ہے لیکن اسے عملی شکل نہیں دی جاتی۔ 1973 کے آئین کی دفعہ 151 میں درج ہے کہ 15یا 16 سال میں اردوکو قومی زبان کا درجہ دیا جائے، 68 سال ہوچکے ہم نے اسے قومی زبان تو کہہ دیا مگر قومی درجہ نے دے سکے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بیوروکریٹ نہیں چاہتے کہ نظام اردو میں ہوجائے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اردو کو بحیثیت قومی زبان دفاتر اور دوسرے محکموں میں نافذ  کردیا جائے تو اس میں بیورو کریٹ کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ تکبر کی چٹانوں پر کھڑے ہمارے  بیوروکریٹ کئی عشروں سے عوام کو روند رہے ہیں، یہ عوام سے الگ تھلگ رہ کر اپنی مخصوص دنیا میں رہتے ہیں جب یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے باہر کے دورے کرکے ایئر پورٹ پر آتے ہیں تو ان کا ذاتی اسٹاف ان کے پاسپورٹ تھام لیتا ہے اور یہ ایئر پورٹ کے باہر کھڑی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوتے ہیں اور ان کے پروٹوکول سے  عوام کو جو ذہنی اذیت ہوتی ہے اسے عوام ہی جانتے ہیں۔

ان کے ذاتی  ملازمین ان کی مہریں لگواتے ہیں اورسامان  وصول کرتے ہیں ۔  ہمارے نبیؐ نے فرمایا دنیا میں تکبر سے رہنے والے لوگ قیامت کے روز چونٹیوں کی مانند ہوں گے اور لوگ انھیں کچلتے ہوئے جائیں گے۔ یہاں لوگوں سے علیحدہ رہنے والوں کو رب کریم بھی علیحدہ کردے گا ان بیورو کریٹ کی وجہ سے اس پاکستان میں بے شمار مثبت کام نہیں ہو پاتے اگر سرکاری دفاتر میں اردو کو نافذ کردیا گیا تو آپ یقین مانیں یہ بیورو کریٹ اور ان کے حواری فارغ ہوجائیں گے۔

آج ایک عام پاکستانی جسے انگریزی زبان پر عبور نہیں وہ پھر بڑے اطمینان سے کسی بھی بڑے بیورو کریٹ کو اردو میں درخواست دیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا کیوں کہ وہ اپنا مدعا آسانی سے بیان کرے گا، دفاتر سے وابستہ جتنے فارم ہیں وہ تقریباً سب انگریزی میں ہوتے ہیں جس کو انگریزی نہیں آتی وہ غریب اپنے مسئلے کو حل کرانے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ہزاروں روپے اس مد میں دے دیتا ہے دھکے الگ کھاتا ہے پیسہ دینے کے باوجود سامنے والا جو پیسے لے کر شکریہ کے ساتھ کام کرے وہ اس شریف اور معصوم پاکستانی کی بیعزتی الگ کرتا ہے، میرے پاس اور بھی کام ہیں صرف تمھارے لیے نہیں بیٹھا ہوں اور وہ غریب خاموشی سے سر جھکا کر اس کا شکریہ خوفزدہ ہوکر ادا کرتا ہے۔

دوائیوں کی کمپنیاں اپنی دوائی کے ساتھ  Instruction (ہدایت نامہ ) لکھتی ہیں وہ انگریزی میں ہوتا ہے جس میں دوائی کے نقصان کے بارے میں درج ہوتا ہے، انسان غریب ہو یا امیر وکبیر بیماری کسی کو نہیں دیکھتی، ماہر ڈاکٹر ایک دفعہ مریض کو دیکھ کر دوائیاں لکھ دیتے ہیں اور دوسری ملاقات مریض کی ایک ماہ کے بعد ہوتی ہے کیوں کہ بڑے ڈاکٹر بہت مصروف ہوتے ہیں مریض دوائی کھاتا ہے جس کو انگریزی نہیں آتی وہ بیچارہ اس دوائی کی وجہ سے دیگر امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے جب کہ اس کے نقصانات اس ہدایت پر درج ہوتے ہیں اور جب وہ ایک ماہ کے بعد اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے تو ڈاکٹر اس دوائی کو بند کردیتا ہے۔

اگر یہی ہدایات نامہ ’’اردو‘‘ میں درج ہو تو جب مریض طبیعت میں مزید خرابی محسوس کرے تو اسے پڑھ کر دوائی خود ہی بند کردے گا اسے ایک ماہ ڈاکٹر کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، فلیٹ اور مکانوں کی سیل ڈیڈ ہوتی ہے جو انگریزی میں ہوتی ہے اس کا وکیل ہزاروں میں معاوضہ لیتے ہیں اور خریدنے والے کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کی بہتری کے لیے اس میں کیا کیا شق موجود ہیں، صرف مخصوص لوگوں نے انگریزی کی وجہ سے اس ملک میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، اردو بولنے اور لکھنے والے کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ زیادتی نہیں تو کیا ہے، یہ اردو کا نفاذ اسی لیے نہیں کرتے کہ انھیں اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظرآتا ہے اگر اردو کو  دفاتر میں نافذ کردیا گیا تو یہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہوجائے گا، قوم کا ہر فرد ہر فارم کو  پڑھنے کے بعد اس پر دستخط کرے گا اپنے اچھے اور برے کی تمیز کرے گا۔

آج بھی یورپین ممالک میں ان کی زبان بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے، وہاں آپ کو انصاف کے تقاضے ملیں گے، وہاں لوگ دردرکی ٹھوکریں نہیں کھاتے کیونکہ اپنی قومی زبان سے محبت قدرتی عمل ہے، یورپ جب لاطینی اور یونانی زبانوں کے ہمراہ چلتا رہا اس نے کوئی ترقی نہیں کی۔ انگلستان نے اصل ترقی جب کی جب اس نے لاطینی اور یونانی زبانوں سے اپنی جان چھڑائی، ہمارے ہاں قومی زبان کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ غریب کا بچہ گورنمنٹ اسکول میں پڑتا ہے ۔

جہاں انگریزی کا نام و نشان نہیں ہوتا، جوان ہوتا ہے تو بڑی مشکل سے کلرکی ملتی ہے وہ بھی سیاسی وابستگی کی بنا پر ۔ بیوروکریٹ اور سیاست دانوں کے بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاسی طور پر عوام کے رہبر جب کہ معاشی طور پر جلاد بن جاتے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ نفاذ اردو سے اس طبقے کا زوال یقینی ہے اس قوم پر قومی زبان کے نفاذ کے لیے جو کوششیں سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کررہے ہیں انھیں یہ قوم اپنی محبت کے ناتے خراج تحسین پیش کرتی ہے اگر اردو کو تمام اداروں میں رائج کردیا گیا تو یقینا پاکستان کے غریب عوام  جسٹس جواد ایس خواجہ کو اپنی دعاؤں میں  یاد رکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔