رحیم یار خان کا پینسٹھ

وسعت اللہ خان  منگل 8 ستمبر 2015

اس شہر کا فاصلہ راجستھان سے ملنے والی سرحد سے زیادہ سے زیادہ پچاس کلو میٹر ہوگا ۔ اسی لیے لوگ بہت محتاط تھے۔کبھی جنگ بھی نہیں دیکھی تھی اس لیے یہ تجسس بھی تھا کہ جنگ کیسی ہوتی ہے۔کبھی کوئی غیر ملکی جاسوس بھی نہیں دیکھا تھا لہذا یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ غیر ملکی بالخصوص بھارتی جاسوس کیسا ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو ہر اجنبی جاسوس لگتا تھا کیونکہ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ جاسوس بھیس بدل کے گھومتے ہیں ۔

چنانچہ ہر گلی ، چوک اور بازار میں بھکاریوں پر خاص نظر رکھی جاتی ۔کہیں ان کی گدڑی میں خفیہ پیغام نہ ہو ، کہیں کشکول میں کمیرہ نہ فٹ ہو ، کہیں لمبے الجھے بالوں میں کوئی چھوٹا سا ’’ ویرلس ’’ نہ اٹکا ہوا ہو۔کئی دیہاتی اور بھکاری شک میں لونڈوں سے مفت میں بھی پٹے۔ لیکن جب مضروبین کسی جان پہچان والے معزز شخص کا حوالہ دیتے تو ان جاسوسوں کی دودھ سوڈے سے تواضع اور معافی تلافی بھی فوراً ہوتی تھی ۔

اس قدر احتیاط  برتی جاتی تھی کہ صرف ریڈیو پاکستان سنا جاتا ۔ اگر کوئی غلطی سے بھی آکاش وانی لگا لیتا تو اجنبی چھوڑ خود گھر والے بھی  اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیتے۔ میرے والد صبح سویرے سات سے ساڑھے سات بجے تک ریڈیو سیلون پر پرانے ہندوستانی گانے باقاعدگی سے سنتے تھے لیکن جب تک جنگ ہوتی رہی انھوں نے سیلون ریڈیو نہیں سنا۔

شام ہوتے ہی بیسیوں لڑکے خود ساختہ رضاکار بن کر گلیوں میں پھیل جاتے تاکہ کوئی بلب نہ جلے اور گھپ اندھیرے کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہر کھڑکی اور روشن دان کو اخباری کاغذ کی دہری تہہ سے ڈھانپا جاتا لیکن پھر بھی سوئی برابر روشنی کی رمق بھی باہر سے نظر آ جاتی تو لڑکے بالے دروازہ پیٹ پیٹ کر کہتے اوئے بتی بند کرو۔

اس پوری احتیاطی مشق کے پیچھے خیال یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ دشمن کا جہاز آ بھی گیا تو اندھیرے کی وجہ سے اسے شہر نظر نہیں آئے گا اور یوں شہر حملے سے بچ جائے گا ۔ رات کو کبھی کبھار خطرے کا سائرن بجتا تو گھر والے صحن میں آ کر فرش پر پیٹ کے بل لیٹ جاتے کیونکہ سول ڈیفنس والوں نے گھر گھر جا کے یہی بتایا تھا کہ سائرن کی آواز سنتے ہی کھلی جگہ پر اوندھے لیٹنا چاہیے تاکہ اگر بم گرے تو اس کی کرچیاں اوپر سے گذر جائیں اور آپ ہلاک نہ ہوں ۔ شکر ہے کبھی بم نہیں گرا ورنہ سول ڈیفنس کا یہ پہلی عالمی جنگ کے زمانے والا فرسودہ سبق بھی کرچی کرچی اڑ رہا ہوتا۔

بلیک آؤٹ کا مطلب صرف گھپ اندھیرا نہیں تھا بلکہ عام خیال یہ بھی تھا کہ باتیں بھی سرگوشیوں میں ہی کرنی چاہئیں کیونکہ دشمن کے جہاز میں بیٹھا پائلٹ آواز بھی سن سکتا ہے۔ ایک دن کیا ہوا کہ نصف شب کو جب سائرن بجا تو اچانک دو تین خوفزدہ کتوں نے گلی میں بھونکنا شروع کردیا ۔ میری دادی کے منہ سے بے ساختہ نکلا آج یہ کتے کے بچے ہم پر بم گروا کے ہی رہیں گے۔۔۔

ریلوے اسٹیشن پر فوجی ٹرینیں عموماً رات کو آتی تھیں جن میں جنگی سامان اور فوجی ہوا کرتے تھے۔ یہ سامان فوجی ہی ڈھو ڈھو کے ٹرکوں میں رکھتے تھے مگر ریلوے قلیوں اور عام شہریوں کو یہ بات کچھ اچھی نہیں لگتی تھی چنانچہ وہ بھی جوق در جوق سامان ڈھونے میں شریک ہوجاتے۔ اگر فوجی انھیں منع کرتے تو شہری ناراض ہوجاتے تھے۔

محاذ پر اشیائے خوردونوش کی رسد لے جانے کے لیے کئی فوجی ٹرک دن میں بھی مختلف بازاروں میں نظر آتے۔ان ٹرکوں میں وہ گوشت اور خشک راشن بھرا جاتا جو شہریوں نے مرکزی جگہوں پر خود رو  اسٹالز لگا کے بطور دفاعی فنڈ جمع کیا ہوا ہوتا۔ ( اس زمانے میں اسٹالز لگانے والی فلاحی و سیاسی تنظیموں کا رواج نہیں تھا )۔

جب تک سامان بھرنے کا عمل جاری رہتا لوگ ان ٹرکوں میں آنے والے فوجیوں کو گھیرے رہتے۔کوئی چائے کا کپ لیے چلا آرہا ہے تو کوئی جوس کا گلاس پکڑے آ رہا ہے تو کوئی پھل کاٹ کے لا رہا ہے۔ بعض لوگ گھروں میں پلنے والی مرغیاں تک لے آتے اور انھیں زبردستی ٹرک میں ڈالنے کی کوشش کرتے مگر فوجی انھیں یہ کہہ کے مایوس کردیتے کہ ہمیں زندہ جانور محاذ تک لے جانے کی اجازت نہیں آپ کی بڑی مہربانی۔

جنگ اور چور بازاری لازم و ملزوم سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ عجیب جنگ تھی جس میں اشیا کی قلت ضرور ہوئی لیکن قیمتیں نہیں بڑھیں۔ بلکہ گلی محلوں میں پہرہ دینے والے رضاکاروں کو دکان دار خود سے کھانے پینے کی چیزیں دے دیتے تھے۔ سب سے زیادہ کاروبار ان دو تین دکانوں کا چمکا جو ریڈیو سیٹس بیچا کرتی تھیں۔ کئی لوگوں نے تو پہلا ریڈیو ہی جنگ کی خبریں سننے کے لیے خریدا ۔ لوگ سونی ، سانیو ، فلپس نہیں جانتے تھے۔کچھ اللہ لوک ایسے بھی تھے جو یہ پوچھتے تھے کہ وہ والا ریڈیو چاہیے جس میں شکیل احمد کی خبریں صاف سنائی دیں۔ ایسا ریڈیو دے دو جس میں نور جہاں کے ترانے بھرے ہوئے ہوں۔

جنگ ختم ہوگئی۔ رحیم یار خان پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ مگر ایک نیا دن ہاتھ آگیا۔ یومِ دفاعِ پاکستان ۔ شروع کے برسوں میں یہ دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ۔ بازاروں میں دوکان دار جھنڈیاں لگانے کے لیے چندہ دیتے ملی مشاعرے اور ڈرامے ہوتے۔ اسکولوں میں جنگی ٹیبلوز اور تقریری مقابلے ہوتے۔ شہر سے باہر بنی چھوٹی سی چھاؤنی میں عام لوگ فوجیوں سے ہاتھ ملانے جاتے۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی شایع کردہ نصابی کتابوں میں پینسٹھ کی جنگ اور اس کے ہیروز کا خصوصی تذکرہ ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جماعت پنجم کی معاشرتی علوم میں پینسٹھ کی جنگ پر پورا باب تھا جس کی پہلی سطر تھی ’’ جب عیار دشمن نے پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی شب چھپتے چھپاتے لاہور پر حملہ کیا تو ہمارے مٹھی بھر بہادروں نے انھیں بی آر بی نہر پر روک لیا’’۔جنگ ستمبر کے شہدا کی تصاویر ہر اخباری و کتابی اسٹال پر ٹنگی رہتی تھیں۔سب سے پاپولر راجہ عزیز بھٹی کی تصویر تھی جسے کئی لوگ فریم کروا کے ڈرائنگ رومز میں بھی لٹکایا کرتے تھے۔لیکن اکہتر کے بعد یہ مناظر آہستہ آہستہ دھندلانے لگے اور نئے مسائل اور نئے ہیرو میدان میں آ گئے اور قومی معصومیت جھوٹ اور عیاری کی دھول میں کہیں گم ہوتی چلی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔