بے لگام بے سمت دہشت گردی

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 27 نومبر 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں کسی بھی تحریک، کسی بھی مہم، کسی بھی جنگ کا ایک ایجنڈا، ایک واضح مقصد ہوتا ہے ایک ٹارگٹ ہوتا ہے جسے سامنے رکھ کر تحریکوں، مہموں، جنگوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن دہشت گردی دنیا کی تاریخ کی ایک ایسی جنگ، مذہبی انتہا پسندی دنیا کی تاریخ کی ایک ایسی تحریک، ایک ایسی مہم جوئی ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر نہ ٹارگٹ نا مقصد نہ سمت ہے۔ جنگوں کی تاریخ میں دشمن کا واضح تعین ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کی جنگ میں دشمن کا کوئی تعین نہیں بلکہ یہ ایک ایسی بے سمت جنگ بلکہ قتل و غارت ہے جس میں اپنے پرائے کی سرے سے کوئی تمیز ہی نہیں۔

دہشت گردی بنیادی طور پر مذہبی انتہا پسندی کا ایک پروڈکٹ ہے اور دنیا بھر میں جاری دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی اسلام کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے، دہشت گردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اس دعوے کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلام دشمن طاقتیں اس جنگ کا اصلی ہدف ہوتیں لیکن حیرت انگیز طور پر ہو یہ رہا ہے کہ اس احمقانہ مسلم مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بے گناہ اور معصوم مسلمان ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں دس سال کے دوران 50 ہزار سے زیادہ مسلمان اور پاکستانی جرم بے گناہی میں انتہائی بے دردی سے قتل کر دیے گئے اور دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں میں اب تک ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسانوں کو قتل اور ذبح کر دیا گیا۔

دہشت گردوں کے حوصلے اب اس قدر بلند ہو گئے ہیں کہ اب وہ مسلم ملکوں سے آگے ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بھی بڑی بڑی دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، دہشت گردی کی تازہ واردات فرانس کے دارالحکومت اور دنیا کے خوبصورت شہر پیرس میں کی گئی۔ کھیلوں کے اسٹیڈیم سمیت کئی جگہوں پر ایک ساتھ حملے کیے گئے، جس میں سو سے زیادہ بے گناہ فرانسیسی لقمہ اجل بن گئے اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ 9/11 کے بعد مغربی ملکوں میں یہ دوسرا بڑا حملہ ہے جس سے پورا پیرس لرز کر رہ گیا ہے۔ اس سانحے سے کچھ دن پہلے مصر میں روس کے ایک مسافر طیارے کو داعش نے نشانہ بنایا جس میں 224 بے گناہ مسافر ہلاک ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک اب اتنا پھیل گیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردی کی کوئی واردات کر سکتے ہیں لیکن سنجیدہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کہیں کہیں دہشت گردی کی وارداتیں کرنا تو ممکن ہے لیکن ان کا مقصد کیا ہے؟ کیا امریکا میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے امریکا پر قبضہ ممکن ہے؟ کیا فرانس میں خودکش حملوں کے ذریعے فرانس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا برطانیہ، جرمنی، روس، چین وغیرہ میں خودکش حملے کر کے ان ملکوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند پاگل ہو گئے ہیں کسی بھی مغربی ملک پر حملے کر کے کچھ لوگوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ترقی یافتہ ملک پر قبضے کا خیال ایک پاگل پن کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس دہشت گردی کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں اسلامی نظام پھیلانا ہے کیا دنیا کے عوام کسی ایسے نظام کو قبول کر لیں گے جو جگہ جگہ وحشیانہ خودکش حملے کر کے ہزاروں بے گناہوں کی لاشوں پر سے گزر کر آ رہا ہے؟ اس کا کوئی فائدہ تو نہیں البتہ نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اسلام ساری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اور اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ مغربی ملکوں میں پرسکون اور آرام دہ زندگی گزارنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے شدید خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔

مسجدوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ان سارے خطرات کا سامنا مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندوں کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔افریقہ کے کئی ملکوں میں بے لگام وحشیانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مالی میں خودکش حملوں میں درجنوں افراد کو قتل اور اغوا کرنے کے بعد اب تازہ خودکش حملوں کا ہدف نائیجیریا کو بنایا گیا ہے۔ ملک کے شمال مشرقی شہر کانو میں دو خودکش بمبار لڑکیاں جن کی عمریں 11 اور 18 سال تھیں ایک مسافر بس سے برقعے پہن کر اتریں اور ایک موبائل مارکیٹ میں دونوں نے خودکش حملوں سے خود کو اڑا لیا جس میں 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ نائیجیریا ہی کے ایک علاقے میں دو بمبار لڑکیوں نے سبزی منڈی میں خودکش حملے کر کے 47 افراد کو ہلاک اور 130 افراد کو زخمی کر دیا۔

عراق اور شام میں مذہبی انتہا پسندوں نے قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا ہے اس سے خوفزدہ ہو کر لوگ مغربی ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں ہزاروں لوگ غیر محفوظ کشتیوں میں بیٹھ کر مغربی ملکوں کو جا رہے ہیں اور مسافروں کی زیادہ تعداد کی وجہ جگہ جگہ کشتیاں ڈوب رہی ہیں اور زندگی کی تلاش میں نکلنے والے مسلمان موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی خودکش حملے کیوں شروع ہوئے۔ ان کی وجہ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں ہیں اب تک فلسطین میں لاکھوں فلسطینیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے، کشمیر میں 70 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے اگر مغربی ملک ان دونوں جگہوں کے عوام کو ان کا جائز حق دلا دیتے تو شاید دنیا میں نہ دہشت گردی متعارف ہوتی نہ خودکش حملوں کا کلچر جنم لیتا۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھی دہشت گردی کے لیے کھاد کا کام انجام دے رہا ہے۔ پیرس میں اور روس کے مسافر جہاز میں مارے جانے والے بے گناہوں کا دکھ ساری دنیا کو ہے لیکن اس کے اسباب کو ختم کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔