سقوط ڈھاکا سے سقوط پی آئی اے

عبدالقادر حسن  منگل 8 دسمبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

آج کے انسانوں کو جب اپنے بزرگوں اور دانشوروں کے تجربات کی خبر ملتی ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگ زندگی کے گوناگوں تجربات سے کس قدر مالا مال تھے اور انھوں نے کس سخاوت کے ساتھ اپنے ان تجربوں کو آنے والے انسانوں کے لیے عام اور محفوظ کر لیا تھا۔ ہم آج کے انسان ان حیران کن تجربات کو جب اپنی زندگی میں ایک سچ اور حقیقت بنتا دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔

صدیوں پہلے ایک یونانی فلسفی نے کہا تھا کہ امور مملکت کسی کاروباری اور تاجر کے ہاتھ میں مت دو، وہ انھیں بھی نفع کے لالچ میں بیچ دے گا اور انسانوں کی زندگیوں کو تلخ کر دے گا۔ یہ بات غالباً سب سے پہلے ارسطو نے کہی تھی یا اس کے کسی پیشرو نے اس کے بعد ہم اس کا ذکر مسلمان دانشوروں کی زبان سے سنتے ہیں اور مسلمانوں کے تاریخ ساز حکمرانوں سے ہمارے پہلے خلیفہ اور آنحضرتﷺ کے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذریعہ معاش تجارت تھی، ان کی کپڑے کی دکان تھی۔

جب ان پر خلافت یعنی حکومت کی ذمے داری ڈال دی گئی اور تاریخ جانتی ہے کہ انھوں نے جس بے دلی کے ساتھ عوام کے اصرار بلکہ حکم سے مجبور ہو کر یہ عہدہ قبول کیا تھا وہ مستند تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ بہر کیف ان کی تجارت اس ذمے داری میں رکاوٹ بن گئی کہ وہ اگر تجارت ختم کر دیتے ہیں تو وہ ان کے اہل و عیال کا کیا ہو گا اور خلافت کی ذمے داری سے الگ ہو جاتے ہیں تو اس حلف کا کیا جواب دیں گے جس میں انھوں نے حکومت قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔

یہ صورت حال اس وقت کے بڑوں پر بھی واضح تھی چنانچہ انھوں نے جب اپنے حکمران کو دکان یعنی تجارت بند کرنے کے لیے کہا تو سوال پیدا ہوا کہ اب ان کے گھر والوں کا کیا بنے گا جن کا ذریعہ معاش یہی کاروبار تھا۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں خلیفہ وقت نے کہا کہ میری تنخواہ مقرر کر دی جائے اور خود ہی تجویز کیا کہ مدینہ کے عام مزدور کی جو تنخواہ ہے وہ میری تنخواہ ہو گی۔ اس پر ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اس قدر کم تنخواہ میں آپ خلافت کی ذمے داریوں کو صحیح انداز میں ادا نہیں کر سکیں گے۔ جواب ملا درست ہے تو پھر ہم مزدور کی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں اس سے میری تنخواہ بھی بڑھ جائے گی۔

خدا کے لیے اپنے سب سے پہلے حکمران کی ان باتوں کو آج کے حکمرانوں کے لیے درست مت سمجھیں ورنہ آپ کا کاروبار مملکت بند ہو جائے گا۔ کسی مزدور کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ کے برابر تنخواہ تو وہ اپنے لیے ایک توہین سمجھتے ہیں اور مزدور کی تنخواہ کو اپنے برابر کرنے کو تو وہ اپنے لیے سزائے موت سے بھی زیادہ بڑی سزا سمجھتے ہیں۔ بات حکمرانوں کی تجارت کی ہو رہی تھی جسے ہر دور کے دانشوروں نے حکمرانی کے لیے غلط قرار دیا ہے۔

یونان کا سقراط بھی جو ایتھنز کے نوجوانوں کو گلیوں اور چوکوں میں اپنے ننگے پاؤں اور معمولی لباس کے ساتھ بڑے بڑے لیکچر دیا کرتا تھا یہی کہتا تھا کہ جہانبانی خدا کا ایک عطیہ ہے اور اس کا احترام کوئی لالچی اور کاروباری شخص نہیں کر سکتا۔ ہماری اپنی تاریخ میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کا ذاتی طرز عمل بھی تجارت اور حکومت کو الگ الگ رکھتا ہے۔

جب ہمارے ملک کے بہت بڑے کاروباری لوگوں نے حالات کا رخ اپنی طرف موڑ لیا تو رفتہ رفتہ حکمرانی بھی ان کے پاس چلی گئی۔ ہمارے ہاں بار بار کے مارشل لاؤں اور غیر عوامی حکومتوں نے ہمارے عوام کی جمہوری سوچ کو ختم کر دیا ہے اور ہماری کوئی حکومت ذہنی طور پر دیوالیہ لوگوں کی حکومت بنتی جا رہی ہے جب کہ اس کے گرد ہر طرف اس کے ہوشیار اور ذہین دشمن موجود ہیں جنہوں نے اس ملک کو دو حصوں میں بانٹ کر یہ حوصلہ پا لیا ہے کہ اس ملک کے مزید ٹکڑے بھی کیے جا سکتے ہیں اور اس کے عوام اسے اللہ کی مرضی سمجھ کر برداشت کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سیاسی حالات آج ہیں کچھ ایسے ہی سقوط ڈھاکا کے وقت بھی تھے اگر اس وقت اقتدار کے لیے کوئی ملک کی سلامتی کی پروا نہیں کرتا تھا تو آج تو اقتدار اور مال و دولت دونوں کے لیے ملک کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

بات لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ موضوع حکومت کی طرف سے پی آئی اے کی نجکاری سے ذہن میں آیا اور شدید پریشانی کے عالم میں حالات کو بدلتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کا یہ ادارہ ہماری خوش قسمتی سے ایک ایسا عالمی ادارہ ہے جس کی دھاک کبھی دنیا بھر کی ہوائی کمپنیوں میں سنی جاتی تھی۔ یہ ادارہ ہمارے ملک کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ یہ ادارہ ایک دوسرا پاکستان ہے اور اس کے ادارے کو پھر سے اس کی سابقہ شان و شوکت کے ساتھ توانا کیا جا سکتا ہے۔

اگر کمزور کر دیے جانے والے اداروں سے ہم ان سے جان چھڑانے یا انھیں اپنی خاص پسند کے لوگوں کو عطیہ کر دینے پر مصر رہے تو خطرہ ہے کہ خدانخواستہ ہم… بہر حال پی آئی اے کو زندہ سلامت رکھا جا سکتا ہے۔ خدا کے لیے قومی اداروں کو سامان تجارت نہ سمجھا جائے۔ یہ اس قوم کی غلامانہ اور مودبانہ گزارش ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔