اب کیا کرنا ہے ؟

وسعت اللہ خان  منگل 8 دسمبر 2015

بفضلِ خدا اور باحکمِ عدالت ِعالیہ انیس سو تہتر کے آئین میں موجود تیسرے لازمی جمہوری پائیدان یعنی بلدیاتی جمہوریت کے قیام کا انتخابی عمل مکمل ہوا مگر دو پائیدانوں (پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی ) پے کھڑے ہو کے سفر کرنے کے عادی سیاستدانوں کا یہ ڈر کب کم ہو گا کہ اگر اختیارات دو بالائی سطحوں سے تیسری سطح پر بھی منتقل کر دیے جائیں تو کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑے گا۔

لوگ کہتے ہیں پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام اس اعتبار سے بہتر تھا کہ اس میں منتخب ارکان کے اختیارات بھی زیادہ تھے اور نچلی سطح کے ترقیاتی کاموں کے لیے وسائل بھی زیادہ مختص کیے گئے تھے اور مشرفی نظامِ بلدیات سے موجودہ نظامِ بلدیات کا موازنہ کیا جائے تو اختیاری و وسائلی اعتبار سے صورتِ حال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں لگتی۔بادی النظر میں یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے۔

اگر چاروں صوبوں کے بلدیاتی ایکٹ کا مطالعہ کیا جائے تو صرف خیبر پختون خوا ایک ایسا وفاقی یونٹ نظر آتا ہے جس میں بلدیاتی اداروں کو نسبتاً زیادہ اختیارات و وسائل کی فراہمی کی نیت جھلکتی ہے۔ یہ بلدیاتی ڈھانچہ اس اعتبار سے بھی قدرے جمہوری  ہے کہ عام ووٹروں نے براہ راست نہ صرف اوپن سیٹوں پر امیدواروں کا انتخاب کیا بلکہ خواتین کی تینتیس فی صد اور اقلیتوں ، مزدوروں ، کسانوں اور نوجوانوں کی پانچ پانچ فیصد مختص سیٹوں پر بھی نمایندوں کا براہِ راست انتخاب کیا۔

خیبر پختون خوا کے برعکس باقی تین صوبوں کے بلدیاتی ایکٹ پڑھ کے یوں لگتا ہے جیسے اختیارات و وسائل کے ارتکاز کے عادی مقتدر سیاستدانوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سب سے چھوٹے بھائی یعنی بلدیاتی نظام کے قیام کی محض حجت تمام کی ہے۔بلوچستان ، سندھ اور پنجاب میں نہ صرف منتخب نمایندوں کے سر پر بیوروکریسی کی ویٹو پاور بٹھا دی گئی ہے بلکہ مخصوص نشستوں پر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخاب کو مضرِ صحت جانتے ہوئے اس عمل کو نامزدگی کی ٹوپی پہنا دی گئی۔ اس کے نتیجے میں یہ بوالعجبی پیدا ہوگئی کہ فرض کریں ایک یونین کونسل تیرہ ارکان پر مشتمل ہوگی ۔

جس میں چیئر پرسن اور وائس چیئر پرسن اور چھ کونسلر تو عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوں گے پھر یہی آٹھ منتخب ارکان مخصوص سیٹوں پر پانچ ارکان نامزد کریں گے۔گویا ایک یونین کونسل میں آٹھ ارکان کا انتخاب تو چار پانچ ہزار ووٹر کریں گے مگر اسی یونین کونسل کے پانچ دیگر ارکان کا انتخاب صرف آٹھ لوگ کریں گے۔اس آدھے جمہوری اور آدھے آمرانہ نظام کا نام بلدیاتی جمہوریت رکھنے اور اس کی باگیں بیورو کریسی کے ہاتھ میں دینے سے اوپر والوں کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نیچے والوں کو کتنا۔انتخابی ہلے گلے اور جوش و خروش میں یہ سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں تھا۔

دھیان سے تینوں صوبوں کے بلدیاتی ایکٹ پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو بے اختیار رکھنے اور ان پر بیوروکریسی کا مالی و انتظامی کنٹرول رکھنے کے پیچھے شائد یہ خوف تھا کہ خدانخواستہ مسلم لیگ ن کے مخالفین بڑی تعداد میں کامیاب ہوگئے تو ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔ سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی نے جو پوپلا بلدیاتی ایکٹ نافذ کیا اس میں بے اختیاری اس خوف سے رکھی گئی کہ ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ حیدرآباد اور کراچی کے بلدیاتی ادارے بھی بااختیار ہوگئے تو ایک نیا دردِ سر پیدا ہوجائے گا۔بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا رکھنے کے پیچھے شائد یہ خوف تھا کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف کونسلر بڑی تعداد میں منتخب ہوگئے تو کیا ہوگا ؟ کسی بھی صوبائی اسمبلی نے نہ سوچا کہ بلدیاتی اختیارات دینے نہ دینے کا فیصلہ عارضی اہداف حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ وسیع تر عوامی مفاد و ضروریات کو سامنے رکھ کے کیا جانا چاہیے۔

مگر اب اسی نظام میں سے ایک نئی کش مکش ابھرے گی ، اوپر والے تیسرے چھوٹے بھائی کو اختیاری جائیداد میں کم سے کم حصے پر ٹرخانے کی کوشش کریں گے اور چھوٹا بھائی زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کی کوشش کرے گا۔اس رسہ کشی میں موجودہ حکومت کے ڈھائی برس نکل جائیں گے۔اگلا نقشہ جب تک سیٹ ہوگا گلی کا پرنالہ وہیں بہتا رہے گا۔

پاکستان جیسے جمہوریت کو ترسے ممالک کے نظام اور نفسیات میں ایک ٹیڑھ یہ بھی ہے کہ جب آمرانہ ادوار میں سیاسی قوتیں بے اختیار ہوتی ہیں تو ان کی ساری تگ و دو اس بارے میں ہوتی ہے کہ کسی طرح آمرانہ حکومتوں کو جمہوری انتخابات اور انتقالِ اقتدار پر آمادہ کیا جائے۔ جب یہ منزل حاصل ہوجاتی ہے تو اسی کو جمہوریت کی معراج سمجھ کے حاصل شدہ اختیارات پارٹی قیادت ایسے صندوق میں بند کرکے اونچی جگہ پر رکھ دیتی ہے جہاں  درجن بھر بااعتماد لوگوں  کے سوا کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ خوف یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعی اتنی محنت سے کمائے  اختیارات دیگر سائلوں تک منتقل ہو گئے تو خود ان کی اتھارٹی کمزور ہوجائے گی۔یہ نفسیاتی خوف اس حقیقت کے باوجود پہلے سے زیادہ گہرا ہوتا جاتا ہے کہ جب جب بھی اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ دو تہائی اکثریت سے بااختیار بننے والی حکومتوں کو بھی جوتے کی نوک پر بٹھا کے روانہ کردیتی ہے۔

تو پھر سیاستدانوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ اختیار ریت کی طرح ہوتا ہے۔اسے اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے جتنی زیادہ مٹھی بھینچی جائے گی اتنی ہی تیزی سے ریت مٹھی سے پھسلے گی۔علم اور اختیار بانٹنے سے کم نہیں ہوتا  بڑھتا ہے۔ہاں اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس قابل ہیں کہ وہ امن و امان و معیشت کے معاملات بھی خوش اسلوبی سے چلا سکیں اور میرے محلے کی ٹوٹی نالی بھی مستعدی سے جوڑ سکیں تب تو اختیارات کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا جواز ہے۔لیکن اگر آپ معیشت ، خارجہ و داخلہ پالیسی جیسے کلیدی معاملات بھی ڈھنگ سے نہ چلا سکیں ، بہتر قانون سازی بھی نہ کر سکیں کہ جو آپ کا اصل کام ہے مگر یہ خواہش بھی رکھیں کہ نالی بنانے کا اختیار بھی آپ ہی کے پاس رہے تو پھر یہ جمہوری خواہش نہیں کوئی نفسیاتی مرض ہے اور اس کا علاج ووٹر نہیں کوئی اچھا ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔

چلیے اگر مذکورہ گفتگو ادق محسوس ہو رہی ہے تو سامنے کی مثال لے لیں۔اس سماج کے ہر روائیتی گھر میں مرد کماتا بھی ہے اور گھر سے باہر کے معاملات بھی دیکھتا ہے۔خاتونِ خانہ گھریلو انتظام و بجٹ اور بچوں کی تربیت و نگہداشت کی ذمے دار ہوتی ہے اور بچے والد اور والدہ کی حسبِ ضرورت مدد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔یہ غیررسمی انتظامی و اختیارتی تقسیم اس لیے ہے کیونکہ گھر کا کوئی فرد معمول کے حالات میں تمام اندرونی و بیرونی کام کماحقہہ نہیں کرسکتا۔لیکن اگر مرد بضد ہوجائے کہ اسے گھر کے باہر کے اختیارات کے ساتھ ساتھ گھریلو بجٹنگ ، کون سا کھانا کب پکے گا ۔

کون سے ملازم کو کب چھٹی دی جائے گی، بیوی کیا پہنے گی اوڑھے گی اور بچے کب کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے سمیت تمام اندرونی اختیارات بھی چاہئیں کیونکہ میرے ہی پیسے سے یہ گھر چل رہا ہے۔ سوچئے کہ صرف دو دن میں ایسے بااختیار مرد کے گھر کا کیا حشر ہوگا ؟ خود یہ مرد تمام اختیارات و ذمے داریوں کے بوجھ کے ساتھ کتنے گھنٹے تک اپنے مزاج کی خوشگواریت برقرار رکھ پائے گا اور تیسرے دن کاٹ کھانے کو نہیں دوڑے گا اور گھر کے دیگر ارکان اس مرد سے بدظن ہوتے نہیں چلے جائیں گے؟

ریاست بھی تو گھر  ہے۔مرکز باپ ہے ، صوبے ماں ہیں اور بلدیات ان ماں باپ کے بچے۔والدین اپنے بچوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے ؟ اگر صرف اپنی ذات کے لیے جمہوریت مانگنے والے سیاستداں یہ معمولی سی بات سمجھ لیں تب کہیں جا کے جمہوریت نعمتِ خداوندی محسوس ہوگی۔اس وقت تو جو بھی ہے ایک آمرانہ و خود غرض نظام کے سوا کیا ہے کہ جس پر جمہوری لیبل لگا ہوا ہے ؟ کیا لگڑبگا چیتے کا اسٹیکر چپکا کے چیتا بن جاتا ہے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔