سونیا گاندھی اپنی ساس اندرا کے نقش قدم پر

کلدیپ نئیر  جمعرات 17 دسمبر 2015

’’میں مسز اندرا گاندھی کی بہو ہوں‘‘۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے دو ہفتے قبل یہ کہا تھا لیکن مجھے اب تک ان کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ کالعدم نیشنل ہیرالڈ نے 90 کروڑ روپے کی جو رقم حکومت سے لی تھی وہ واپس نہیں کی گئی۔ ایک عدالت نے رقم ادا نہ کرنے کو جرم قرار دیا  ہے۔

سونیا کے بیٹے راہول نے عدالتی فیصلے کو مودی حکومت کے ان کے اور کانگریس پارٹی کے خلاف سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ یہ تو عدالت کا فیصلہ ہے آخر اس میں حکومت کا کیا عمل دخل ہے؟ عوامی ناپسندیدگی کے باعث کانگریس اب اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے راہول کے تبصرے کو عدالتی فیصلے سے لاتعلق قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس کے سابق وزیر قانون نے راہول کے غیر ذمے دارانہ تبصرے کی حمایت کرتے ہوئے اسے بی جے پی کی حکومت کی طرف سے کانگریس کے خلاف انتقامی کارروائی کے مترادف قرار دیا۔

تاہم کپل کی بات میں اس لیے وزن پیدا نہیں ہو سکا کیونکہ راہول کا تبصرہ عدالتی فیصلے کے ایک دن بعد میڈیا میں آیا۔ ظاہر ہے کہ سونیا اور راہول نے اس قرضے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس قرضے کی واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ دونوں ماں بیٹے نے مودی کی حکومت اور بی جے پی کو غیر ضروری طور پر گھسیٹ لیا ہے آخر پارٹی اور وزیر اعظم کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟

سونیا گاندھی وہی طرز عمل اختیار کر رہی ہیں جیسا کہ ان کی ساس کرتی رہی ہیں۔ اگر سونیا خود اقتدار سنبھالتی تو وہ اپنی ساس کے نقش قدم پر ہی چلتیں اور آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر دیتیں۔ پریس پر قدغن عائد کر کے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے قید میں ڈال دیتیں۔ اندرا گاندھی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے انتخابی مہم میں سرکاری مشینری کے استعمال کرنے کے الزام میں نااہل قرار دیتے ہوئے ان پر 6 سال کی پابندی عاید کر دی۔

اس پر اندرا گاندھی گویا اپنے حواس ہی کھو بیٹھی اور لوک سبھا سے مستعفی ہونے کے بجائے ملک پر ایمرجنسی نافذ کر دی اور اپنے غیر قانونی انتخاب پر پردہ ڈالنے کے لیے انتخابی قانون ہی تبدیل کر دیا۔ جسے پارلیمنٹ سے منظور بھی کروا لیا کیونکہ ساری اپوزیشن کو تو مقدمہ چلائے بغیر حراست میں لیا جا چکا تھا۔ لہٰذا پارلیمنٹ میں اس قانون کی کوئی مخالفت نہ ہوئی۔ جس  بات کی کانگریس پارٹی کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ جمہوری سیاست میں اپوزیشن بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی کہ حکمران جماعت۔ بنیادی سوال جس کا جواب دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اداروں کی آزادی جمہوری ڈھانچے کو مضبوطی فراہم کرتی ہے۔

ان پر حملہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے عوامی حقوق کا تحفظ کرنیوالے اداروں پر حملہ کیا جائے۔ مودی حکومت کے گناہ جو بھی ہوں لیکن اس پر ان قوانین کی منظوری کا الزام نہیں عائد ہو سکتا جس سے اجتماعیت کے نظریے کو ضعف پہنچا ہو جو کہ پہلے سے منظور کر لیے گئے تھے۔ بی جے پی چونکہ ہندو راشٹریہ پر زور دیتی ہے اس لیے اصل قصور وار وہی ہے کیونکہ اس سے سیکولر ازم کے نظریے کو زک پہنچتی ہے جو کہ جمہوری بھارت نے اپنے آئین میں شامل کر رکھا ہے۔

مودی حکومت انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے زیر اثر ہے۔ بی جے پی کوئی ایسا قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے جس سے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی رونما ہو مثال کے طور پر یہ اجتماعیت کے فلسفے کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتی کیونکہ اس پارٹی کو احساس ہے کہ بھارتی عوام کی اکثریت ہندوتوا کو قبول نہیں کرے گی جو کہ سیکولر ازم کا متضاد ہے۔

یہ البتہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مودی حکومت  نے عدم برداشت کا دور پیدا کر دیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے بلکہ مجموعی طور پر ملک کے تمام اہل دانش اس کے خلاف ہیں۔ بھارت کو اس وقت حکومت کی طرف سے مختلف شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تا کہ تعمیر و ترقی کا پہیہ پھر رفتار پکڑ سکے۔ اس ضمن میں وزیر خارجہ سشما سوراج مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے جمود کو توڑنے میں پیش قدمی کی ہے۔

یہ درست ہے کہ انھوں نے بھارت کے اس موقف کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس وقت تک بات نہیں ہو گی جب تک کہ پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ سشما کا اقدام بھارت کے مفاد میں ہے بلکہ ہماری تو خواہش ہے کہ یہ قدم پہلے ہی ٹھا لیا جانا چاہیے تھا۔ بہت سے سال بلاوجہ ضایع کیے جا چکے ہیں۔

سشما کی پیشرفت کو پورے ملک میں سراہا گیا ہے۔ نئی دہلی حکومت اپنے عوام کی تمناؤں کی عزت کرتی ہے اور پاکستان کے ساتھ معمول کے پڑوسیوں جیسے تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں شاید انتہا پسندوں کا غلبہ ہے اور اسلام آباد حکومت پر یہ دباؤ ہے کہ وہ دوستی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ اس کے باوجود اس بات کو محسوس کیا جانا چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ یہ آج ہو یا کل ہو دونوں ممالک کے لیے اس سے مفر ممکن نہیں۔ جتنی جلدی اس کا احساس کر لیا جائے اتنا بہتر ہو گا اور پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام کے لیے فائدے مند ہو گا۔

بعض عناصر کو دونوں طرف اس کا ادراک ہے لیکن مخالفین کا رسوخ زیادہ ہے اس وجہ سے تعلقات کی بحالی کے خواہش مند ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ بے سود کھچاؤ اور کش مکش میں سات عشرے گزر چکے ہیں۔ دونوں ملکوں نے دو مکمل جنگیں لڑی ہیں جب کہ ایک کارگل کی چھوٹی جنگ  بھی شامل  ہے۔ دونوں جانب سے ہزارہا فوجی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ کشمیر بیماری کی علامت ہے بیماری نہیں۔ اصل بیماری بھروسے کی کمی ہے۔

اس صورت حال کا حل یہی ہے کہ دونوں ملک بے شک دوستی اختیار نہ کریں لیکن کم از کم معمول کے پڑوسیوں کی طرح تعلقات تو قائم کریں۔ پاکستان کو اپنی نصابی کتابیں اور اسکولوں کالجوں کا تدریسی نظام بدلنا ہو گا جس میں مذہبی عدم برداشت کا کوئی عمل دخل نہ ہو انتہا پسند مسلمانوں اور ہندوؤں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔