ترکی کی ثقافتی یلغار

نصرت جاوید  منگل 11 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سی آئی اے کے ڈالروں اور اسٹنگر میزائلوں سے افغان جہاد کی پشت پناہی کرتے ہوئے 1980کی دہائی سے ہماری ریاست نے جو نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی کھیپ تیار کی، اس کی اکثریت ذہنی طورپر بڑی مفلس اور خوفزدہ ہے۔ اسے یقین ہے کہ واشنگٹن میں چند مکار لوگوں پر مشتمل کوئی گروہ کام کررہا ہے جو بڑی تن دہی سے ہماری ’’اخلاقی‘‘اقدارکو تباہ کرنے کے منصوبے بنارہا ہے ۔ واشنگٹن سے پہلے اسی طرح کا سازشی گروہ بھارت میں بھی موجود بتایا گیا تھا۔مجھے آج بھی 1973-74 کے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب امرتسر سے دور درشن نے بھارتی فلمیں دکھانا شروع کی تھیں ۔

لاہور کے پرانے محلوں میں ان دنوں شام ہوتے ہی بہت سے نوجوان اپنے گھروں کے کوٹھوں پر جاکر لمبے بانسوں پر لگے ایریل گھما گھما کر ٹی وی کی ایڈجسٹمنٹ کرتے تاکہ اسکرین پر فلم صاف نظر آئے۔ بازار اور گلیاں تقریباََ سنسان ہوجاتے ۔ان ہی دنوں نظریہ پاکستان کے خود ساختہ محافظوں نے بھی بھارت کے اس ’’ثقافتی حملے‘‘ کے خلاف واویلا شروع کردیا تھا۔ان کی مسلسل سینہ کوبی کے باوجود پاکستان ٹیلی وژن نے اپنی تاریخ کے بہترین ڈرامے ان ہی دنوں میں بناکر دکھائے تھے۔1984 میں جب میں صحافیوں کی ایک ورکشاپ میں شمولیت کے لیے پہلی بار بھارت گیا تو دور درشن کے ایک بڑے افسر سے ملاقات ہوگئی۔

انھیں جب پتہ چلاکہ میں پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے بھی لکھتا ہوں تو بڑے اصرار کے ساتھ آمادہ کیا کہ میں دور درشن کی ایک تربیتی اکیڈمی میں جاکر وہاں ٹیلی وژن پروگرام بنانے کے طریقے سیکھنے والوں کے سوالات کا جواب دوں ۔ مجھ سے سوالات کرنے والوں کی اکثریت نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایسے بہت سارے ڈراموں اور فن کاروں کا ذکر کیا جن کی مجھے بھی خبر نہ تھی۔ اگرچہ اس بات پر دل ہی دل میں بڑا فخر محسوس کرتا رہا کہ پاکستانی ڈراموں کی ویڈیو ٹیپس اسمگل ہوکر وہاں پہنچتی ہیں۔اس سب کے باوجود میں نے کسی بھارتی کو پاکستانی ’’ثقافتی حملے‘‘ یا یلغار کا ذکر کرتے نہیں سنا۔

ہماری نام نہاد’’ثقافتی اور اخلاقی اقدار‘‘ سنا ہے ایک مرتبہ پھر بڑے خطرے میں ہیں۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اب کی بار یہ ’’ثقافتی حملہ‘‘ بت پرست بھارت یا’’مادرپدرآزاد‘‘ امریکا کی طرف سے نہیں ہوا، یہ محاذ ہمارے برادر ملک ترکی میں سجایا گیا ہے جہاں اللہ کے فضل سے گزشتہ دس برسوں سے اپنی جماعت اسلامی سے ملتی جلتی جماعت برسرِاقتدار ہے۔وہاں کا ایک سوپ اوپراجسے عرب دنیا میں’’تسلسل‘‘ کہا جاتا ہے، اردو میں ڈب ہوکر دکھایا گیا اور لوگوں میں بہت مقبول ہوگیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے’’ڈراما نگار اور ٹی وی پروگرام بنانے والے ترکی کے اس سلسلہ وار ڈرامے کی مقبولیت کے اسباب جان کر اپنی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ۔مگر ہوا اس کے بالکل برعکس ۔سارا غصہ اس ڈرامے کے مواد اور کردار پر نکالا جارہا ہے جو ہماری’’مذہبی اور ثقافتی اقدار‘‘ کے قطعی منافی بتائے جارہے ہیں ۔

اردو میں ڈب ہوئے ترکی کے ڈراموں کے خلاف واویلا کرنے والے  پارسائوں کی خدمت میں مودبانہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان سے بہت پہلے ترکی کے سلسلہ وار کھیل عرب دنیا میں بھی بہت مشہور ہوئے تھے۔تاریخی طورپر عراق اور شام سے عرب قوم پرستی کی لہراُٹھی تھی۔وہاں کے لوگ خود کو خلافت عثمانیہ کے غلام سمجھا کرتے تھے ۔مصر کے جمال ناصر اور بعدازاں شام اور عراق کی بعث پارٹیوں کے آمروں نے عرب قوم پرستی کو انتہائوں تک پہنچا دیا۔ صدام حسین کے بعد والے عراق پر امریکی قبضے اور تباہ کن خانہ جنگی کے دنوں میں تفریح کا واحد ذریعہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر عربی میں ڈب ہوئے ترکی ڈرامے دیکھنا ہی رہ گیا۔عراق سے یہ عادت اردن پہنچی اور عرب بہار کے بعد اب مصر بھی جاپہنچی ہے۔مراکش اور تیونس بھی ترکی کے ڈراموں کی بہت بڑی منڈی بن چکے ہیں۔

میرے ناقص علم کے مطابق مصر،شام ،عراق اور مراکش وغیرہ اسلامی ممالک ہیں۔وہاں  عرب ثقافتی اقدار بھی بڑی شدت سے موجود ہیں ۔مگر وہاں کی ریاستیں اور میڈیا کسی ’’ترک‘‘ ثقافتی یلغار‘‘ کا ذکر تک نہیں کرتے ۔ابھی چند روزپہلے نیویارک ٹائمز میں ایک لمبا چوڑا مضمون چھپا ہے جو بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ کس طرح ترکی کی چنڈ ڈرامے بنانے والی کمپنیاں اپنی سلسلہ وار کہانیوں کو عربی میں ڈب کرکے اربوں ڈالر کمارہی ہیں۔ ترکی کے ساتھ ہی ساتھ لاطینی امریکا کے برازیل اور ارجنٹائن جیسے ملک بھی نہ صرف عرب ممالک بلکہ جرمنی،اسپین اور روس جیسے ملکوں میں بھی یہی دھندا کررہے ہیں ۔ یہ بات کرتے ہوئے میں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ جرمنی نے بریخت جیسا نابغہ ڈراما نگار پیدا کیا تھا۔روس چیخوف کا وطن تھا اور اسی ملک نے اسٹانیلوسکی جیسا ہدایت کار بھی پیدا کیا تھا۔

جس نے Methodاداکاری کی بنیاد ڈالی تھی جسے مارلن برانڈوجیسے فن کاروں نے عروج تک پہنچایا۔پاکستان نے چیخوف کے پائے کا ایک بھی ڈراما نگار پیدا نہیں کیا۔ریڈیو کا آغاز ہوا تو ہمارے افسانہ نگاروں نے ڈرامے لکھنا بھی شروع کردیے ۔مگر منٹو کا لکھا ایک ریڈیائی ڈراما بھی اس کی کمزور ترین کہانی کا فنی اعتبار سے مقابلہ نہیں کرسکتا ۔

اسٹیج پر ہمارے زیادہ تر ڈرامے مشہور انگریزی ڈراموں سے ماخوذ ہوا کرتے تھے یا ان کا بازاری نوعیت کا چربہ۔پاکستان ٹیلی وژن کی ابتداء میں بھی یہی کچھ ہوا مگر بعدازاں لکھنے والوں کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوگئی جس نے طبع زاد جو ہر دکھاکر دیکھنے والوں کو مبہوت کردیا۔یہ سلسلہ جاری رہنے دیا جاتا تو مجھے پورایقین ہے کہ آج پاکستان کے سلسلہ وارڈرامے نہ صرف بھارت بلکہ بہت سارے اسلامی ممالک میں بھی  مشہور ہوکر ڈالر کمارہے ہوتے۔ ضیاء الحق نے مگر پاکستان ٹیلی وژن کا ’’قبلہ درست‘‘کرنے کی ٹھان لی جس کے نتیجے میں بالآخر ہم کسی بھی قسم کا قبلہ ڈھونڈنے سے بھی محروم ہوگئے ۔

2005 کے بعد سے جب نجی ٹیلی وژن شروع ہوئے تو سیاسی ٹاک شوز’’ڈراما‘‘ بن گئے ۔زلزلے اور عدلیہ بحالی کی Live Coverageنے ان تمام جبلی جذبات کی ترجمانی شروع کردی جو سلسلہ وارڈرامے بڑی مشکل سے تخلیق کرپاتے ہیں۔سیاسی ٹاک شوکرنے کے لیے بس ایک ڈرامے باز اینکر چاہیے جو مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو بلاکر ایک دوسرے سے بھڑادے ۔یا پھر ایسا کلاکار جو جدید ترین فیشن کے کپڑے پہنے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ذاکروں والی کڑک دار آواز میں جمہوریت کے نام پر ہماری قسمتوں کے مالک بنے ’’چوروں،لٹیروں اور جعلی ڈگریوں والوں‘‘ پر تبّرے بھیجے۔ایسے پروگرام کرنے میں کچھ زیادہ خرچ نہیں آتا۔بس اینکر کو خوش رکھنا ہوتا ہے ۔

مگر اشتہاربے تحاشہ آجاتے ہیں ۔اینکروں سے لوگوں کا دل بھرنا شروع ہوا تو ہم نے جگت بازوں کو سیاست سمجھانے پر لگادیا ۔کوئی زیادہ ہینگ یا پھٹکڑی لگائے بغیر دھندہ چل رہا ہے۔ایسے میں کوئی بے وقوف سیٹھ ہی جرأت کرے گا کہ چوٹی کے لکھنے والوں کو جمع کرکے ڈراما لکھوائے۔ شاندار سیٹ تعمیر کروائے اور پھر اپنے فن میں ماہر ہدایت کاروں اور فن کاروں کو ڈھونڈے اور ان کے نخرے اُٹھانے میں مصروف ہوجائے ۔ ترکی اور عرب دنیا میں پہلے سے مقبول ڈرامائی سلسلوں کو صرف اردو میں ڈب کرکے منافع کمانے کے راستے موجود ہیں تو مزید کسی تردد کی ضرورت نہیں ۔بس امید کرنا چاہیے کہ ترکی کے ڈراموں کی کامیابی سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی کوئی بڑے دل والا سیٹھ پیدا ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔