مدارس کا ڈیٹا ازسرنو مرتب کرنے کا صائب فیصلہ

حکومت نے ملک بھر میں مدارس کے جامع اور مکمل کوائف جمع کرنے کے لیے سروے شروع کردیا ہے


Editorial November 20, 2017
ملک بھر میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 35ہزار کے لگ بھگ ہے، فوٹو: فائل

ایک خبر کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں مذہبی مدارس کا ڈیٹا ازسرنو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مدارس کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے تمام مسالک کے علمائے کرام اور مدارس کے منتظمین کو اعتماد میں لیا جائے گا، علما اور مدارس بورڈز کی مشاورت سے مدارس کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈکرنے، مدارس میں اصلاحات اور غیر رجسٹرڈ مدارس کو رجسٹرڈکرنے کے حوالے سے پالیسی متعین کی جائے گی۔ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث مدارس کو بندکردیا جائے گا۔ سندھ کے 10 اضلاع میں 100 سے زائد غیر رجسٹرڈ مدارس کو پہلے ہی بندکیا جاچکا ہے۔ سندھ میں مدارس کی تعداد 9590 کے لگ بھگ ہے جن میں سے تقریبا 6500 مدارس کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے۔

حکومت نے ملک بھر میں مدارس کے جامع اور مکمل کوائف جمع کرنے کے لیے سروے شروع کردیا ہے۔ ڈیٹا ازسرنو مرتب کرنے کے پروگرام میں مدارس کے فنڈزکا ریکارڈ،علما اوراساتذہ کا ڈیٹا بھی چیک کیا جائے گا، غیر رجسٹرڈ مدارس کونوٹسز بھی بھیجے جائیں گے تاکہ وہ اپنی رجسٹریشن فی الفورکروا لیں۔ واچ لسٹ میں شامل مدارس کے اثاثہ جات، غیرملکی طلبہ کی تعداد، فنڈز کا حصول، اخراجات اور زیر تعلیم طلبہ کی جماعتی وابستگی کو بھی چیک کیا جائے گا۔ مدارس کا ڈیٹا مرتب کرنے کے لیے متعدد بار تجاویز پیش ہوئیں لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ کام تاخیر کا شکار ہوتا رہا ۔ اب حکومت نے مدارس کا ڈیٹا ازسرنو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کام کو علما کرام کی مشاورت سے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دینا چاہیے۔ مدارس دین کی جس بڑے پیمانے پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے' اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 35ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں 40لاکھ سے زائد طلباء و طالبات مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

مدارس کا اتنا بڑا نیٹ ورک مقامی افراد کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے لیکن چند ایک مدارس کے بارے میں ایسے تحفظات بھی سامنے آئے کہ وہ نہ صرف انتہا پسندانہ نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں بلکہ انتہا پسند تنظیموں کو افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس سلسلے کو روکنے کے لیے مدارس کا ڈیٹا مرتب کرنے کا فیصلہ کیا جو خوش آیند ہے ،اب اس پر جلد از جلد عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔ ڈیٹا مرتب کرنے کی راہ میں مدارس کے منتظمین کی جو شکایات اور مشکلات ہیں حکومت کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ کام بخیر و خوبی سرانجام دیا جاسکے۔ علما کرام پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت سے بھرپور تعاون کریں تاکہ انتہا پسندی میں ملوث ان چند مدارس کو منظرعام پر لا کر انھیں ان کی ان سرگرمیوں سے روکا جا سکے۔

مقبول خبریں