زینب امین اور ہماری کھوکھلی سماجی اقدار

عماد ظفر  بدھ 10 جنوری 2018
جو معاشرہ زینب جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا، خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ (فوٹو: فائل)

جو معاشرہ زینب جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا، خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ (فوٹو: فائل)

زینب امین اپنے نام ہی کی طرح خوبصورت ننھی سی تتلی تھی۔ آٹھ سالہ اس بچی کو قصور میں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے سڑک پر پھینک دیا گیا۔ یہ عمر تتلیوں اور جگنوؤں سے کھیلنے کی ہوتی ہے جس میں ارد گرد بسے تمام افراد بچوں کو اپنے باپ، اپنے بھائی جیسے لگتے ہیں۔ زینب گھر سے ٹیوشن سینٹر جانے کےلیے نکلی اور پھر اس کی لاش ہی گھر واپس آئی۔

قصور میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ پچھلے ایک سال میں زینب سمیت 12 کم سن بچیاں حیوانیت کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھوچکی ہیں۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ نہ تو پنجاب حکومت کے کان پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ کسی این جی او کو توفیق ہوتی ہے کہ وہ زینب اور اس جیسی کئی بچیوں کے حق میں، جو قصور کی دھرتی پر حیوانیت و بربریت کے بدترین اظہار کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، کوئی آواز ہی اٹھائے۔

زینب محض آٹھ برس کی بچی تھی۔ اس عمر میں زندگی تتلی کے رنگوں کی مانند حسین معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہ زندگی کا حسین ترین دور ہوتا ہے اس لیے اسے بچپن کہتے ہیں۔ ضد کرو اور بات منوا لو، چاہو تو اڑتے گگن کو چھو لو۔ زینب بھی شاید باقی بچوں کی مانند ایسا ہی سوچتی اور چاہتی ہوگی۔ لیکن پھر اس کا سامنا ہماری دنیا سے ہوا، اور اس آٹھ برس کی معصوم بچی کو معلوم ہوا کہ ہماری دنیا میں نہ تو رنگ ہیں نہ ہی خواب۔ یہ تو فقط منافقت کا لبادہ اوڑھے ایسی دنیا ہے جہاں آج بھی انسانوں اور انسانیت کے روپ میں چھپے بھیڑیئے ہر آن شکار کو دبوچنے کی خاطر تیار بیٹھے ہیں۔ اور جہاں آج بھی حیوانوں کا ہی فرمان چلتا ہے۔ زینب جیسی کئی بچیاں اکثر و بیشتر نہ جانے کتنے حیوانوں کی جنسی تسکین کے سامان کا باعث بنتی ہیں، کتنی ہی تنازعات میں زندہ جلا دی جاتی ہیں۔

لیکن اس نام نہاد انسانی معاشرے پر نہ تو اس کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس طرح کی خبریں ہمیشہ کی طرح چند لمحات کےلیے ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز کی زینت بنتی ہیں، چند اخبارات کی سرخیوں کے طور پر کام آتی ہیں، اور پھر سب کچھ بھول بھال کر ٹرمپ کے متنازعہ بیانات اور ظالمانہ پالیسیوں کے متعلق شور و غل شروع ہو جاتا ہے۔ ٹرمپ متعصب ہے، ٹرمپ مسلمانوں سے خائف ہے، ٹرمپ پاکستان سے برا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ مغربی دنیا ہمارے معاشرے میں بے حیائی اور انتشار پھیلانا چاہتی ہے اور یہ شور و غل مچا کر اپنی معاشرتی کھوکھلی اور حیوانی اقدار سے انتہائی آسانی کے ساتھ چشم پوشی اختیار کرلی جاتی ہے۔

آپ کو اوریا مقبول جان جیسے شدت پسند بھی کروڑوں کی تعداد میں معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو جنسی زیاستی کی شکار خواتین کو اکثر و بیشتر ہمدردی کے بجائے مجرم ٹھہراتے ہوئے ان کے لباس یا اطوار کو اس زیادتی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اکثر و بیشتر عورت سے کہا جاتا ہے کہ اپنا آپ ڈھانپ کر رکھو تاکہ مردوں میں شہوانی لذت حاصل کرنے کی تحریک نہ پیدا ہو۔

جب معاشرے میں جنسی آسودگی کے خیالات، جو انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ہیں، انہیں بھی دبادیا جائے تو نتیجتاً جبلت تو نہیں مرتی لیکن چھپ چھپا کر جنسی تسکین حاصل کرنے کا عمل ضرور جاری رہتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے نفسیاتی مریض بھی پیدا ہوجاتے ہیں جو کہیں بھی موقع نہ ملنے کے باعث کم سن بچوں اور بچیوں تک کو اپنی جنسی تسکین کا سامان بنا ڈالتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی ہم پردوں اور برقعوں میں ڈھانپ دیں اور جنسی مریضوں کو کھلے عام دندنانے کی اجازت دے دیں؟ خدارا ثواب و جزا کے چکر سے نکل کر انسان کی بنیادی جبلتوں کو سمجھیے اور اپنے بچوں اور بچیوں کو ان پر آگاہی دینے کے علاوہ اپنے معاشرے میں اس سے متعلق ایک صحت مند مکالمے کا آغاز کیجیے۔

شاید آئینہ دیکھ کر اپنے معاشرتی رویوں اور اقدار کا مکروہ چہرہ دیکھنا بے حد مشکل کام ہے، اسی لیے کبھی بے حیائی، عریانی اور کبھی امریکہ اور دیگر مغربی معاشروں کی خامیوں پر آہ و بکا کرکے ایک شور پیدا کیا جاتا ہے جس میں زینب اور اس جیسی دیگر بچیوں کی آوازیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے؛ اور شاید اسی لیے بچیوں اور بچوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کی آگاہی کی مربوط و منظم مہم چلانے کے بجائے اربابِ اختیار میں سے کوئی ان واقعات کا شوبازی والا نوٹس لے لیتا ہے، تو کوئی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کرتا ہے۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کے مترداف، محض باتوں اور دعووں تک محدود رہتا ہے۔

یہ مسئلہ دراصل ہماری ان منافقانہ اقدار اور سوچ کی پیداوار ہے جو بچے بچیوں یا خواتین سے جنسی زیادتی کو کہیں نہ کہیں آج بھی قبولیت کی سند عطا کرتی ہیں۔ دراصل یہ ایک ایسی گھٹیا اور فرسودہ سوچ ہے جو محض اپنی انا، اپنی برتری اور اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کےلیے وطن عزیز کے طول و عرض میں پنپ رہی ہے۔ اس سوچ کی آبیاری اسکول، کالج، مدارس، مساجد حتی کہ گھروں تک میں ہوتی ہے جہاں عورت کو کمزور ثابت کرتے ہوئے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ عورت چولہا جلانے، بچے پالنے اور مرد کی ہم بستری کے علاوہ زندگی میں کچھ اور ارمان نہیں رکھ سکتی وگرنہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور خاندان یا برادری کی غیرت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

حال ہی میں پیش آنے والا یہ واقعہ دراصل سماجی رویوں کے حیوانی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے، ایک ایسا حیوانی رویہ جو کسی بھی بچی یا عورت کو قہقہہ لگاتا دیکھے، خوش دیکھے تو فوراً اس بچی کو آوارہ بدچلن کہتے ہوئے غیرت کے نام پر ایک خطرہ قرار دے دیتا ہے۔ جہاں کوئی بھی معصوم بچہ اگر نیکر پہنے باہر کھیلنے کو نکلے تو وہ بھی غیرت مندوں کی شہوانی لذت بھڑکانے کا مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔

یہ شدت پسندانہ رویہ اور سوچ دراصل ’’کمزوری‘‘ کے شکار معاشرے کی پہچان ہے، ایسا معاشرہ جہاں مرد آج تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غیرت یا مردانگی کا تعلق محض شہوانی لذتوں کی تسکین کا نام نہیں اور نہ ہی مردانگی غصہ دکھانے کا نام ہے۔ وہ تمام عوامل جو بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال کا باعث بنتے ہیں، ان سے متعلق نہ صرف صحت مندانہ مباحثوں اور بحث کی ضرورت ہے بلکہ ملک میں موجود قوانین کو بھی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے گھناؤنے فعل کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔

بصورت دیگر جو معاشرہ زینب جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا، خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کم سے کم بچوں کو ہماری اس سفاک دنیا سے متعلق، جو ایک جنگل کی مانند ہے، آگاہی ضرور فراہم کرنی چاہیے اور زینب جیسی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی یہ بتادینا چاہیے کہ ہماری بنائی ہوئی اس خود ساختہ دنیا اور معاشرے سے زیادہ محفوظ تو جنگل ہوتا ہے۔

زینب جیسی ننھی پریوں کو جنسی تسکین کا سامان بنانے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس گھٹیا اور فرسودہ سوچ سے بھی جان چھڑانا بے حد ضروری ہے جو لواطت اور بچیوں کی عصمت دری کو محض حادثہ یا انفرادی جرم قرار دیتی ہے۔ قالین کے نیچے گند چھپانے کے مصداق، ان واقعات سے نگاہیں چرانے کے بجائے ان کے عوامل اور ان کے تدارک پر ایک مثبت بحث کا آغاز ہونا چاہیے۔ ننھی زینب کے خواب تو اس کی زندگی کے ساتھ کہیں دفن ہوگئے لیکن اپنے معاشرے میں موجود، خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والی کروڑوں بچیوں اور بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کےلیے اب معاشرے میں غیرت کے تصور کو تبدیل کرتے ہوئے بنیادی معاملات اور جبلتوں کے متعلق صحیح مقام اور وقت پر بحث و آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔

پورن سرچ میں اول نمبر، مرغی اور اندھی وہیل مچلی سے جنسی تسکین حاصل کرنے جیسے واقعات، لواطت میں اقوام عالم میں سرفہرست قوم اور اب ننھی بچیوں کو بھی جنسی تسکین کا نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ہمارے معاشرے میں اجتماعی طور پر نفسیاتی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔