بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

امجد اسلام امجد  جمعرات 18 جنوری 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کرکٹ ٹیم میں محمد حفیظ اور مرکزی کابینہ میں احسن اقبال دو ایسے چہرے ہیں جو اگر نہ بھی بولیں تب بھی پڑھے لکھے نظر آتے ہیں۔ محمد حفیظ سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات گزشتہ ماہ لاہور سے کراچی کے ایک فضائی سفر کے دوران ہوئی جب کہ احسن اقبال سے رابطے کی مدت چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے آغاز کے وقت وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی یونین کے جنرل سیکریٹری یا شاید صدر ہوا کرتے تھے۔

اتفاق کی بات ہے کہ دونوں سے اگلی صبح کم و بیش ایک ہی وقت میں یک طرفہ ملاقات کچھ اس طرح ہوئی کہ ٹی وی پر چینل بدلنے کے دوران حفیظ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے اور احسن اقبال ایوان صدر میں ’’پیغام پاکستان‘‘ کی تقریب میں خطاب کرتے نظر آئے، دونوں بالترتیب اور حسب معمول اچھا کھیل اور اچھا بول رہے تھے جب کہ مجموعی طور پر دونوں اپنے اپنے حوالے سے Bad Patch یعنی برے دور سے گزر رہے ہیں۔

حفیظ کا بالنگ ایکشن ایک بار پھر ’’نااہل‘‘ قرار دیا جا چکا ہے جب کہ وزارت داخلہ کے قلم دان اور میاں محمد نواز شریف کی قربت اور محبت کے تقاضوں نے احسن اقبال کو بیک فٹ پر ڈال رکھا ہے اور یوں دونوں کی بہت سی انفرادی اور شخصی خوبیاں دبتی چلی آ رہی ہیں اور اس بات کا شدید احتمال ہے کہ دونوں سلیکٹرز کی توجہ اور پسندیدگی سے محروم ہو کر کہیں ٹیم سے ہی خارج نہ ہو جائیں جو یقیناً کھیل اور سیاست دونوں کے لیے بری خبر ہوگی کہ وہاں پہلے ہی قحط الرجال پڑا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اس صورت حال پر عباس تابش کا یہ شعر بار بار یاد آ رہا ہے کہ

اس زمانے میں غنیمت ہے‘ غنیمت ہے میاں

کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے

احسن اقبال کی گفتگو اور اسکرین پر دکھائی جانے والی کچھ امیجز سے اندازہ ہوا کہ ایوان صدر سے براہ راست نشر کی جانے والی اس تقریب کا تعلق موجودہ صورت حال میں جہاد اور دہشت گردی کے فرق کی وضاحت اور اس ضمن میں تمام مسالک کے علماء کے اس مشترکہ اعلان سے ہے جس میں اس معاملے کی دین کے حوالے سے پوزیشن کی وضاحت کی گئی ہے اور جس کے بارے میں گزشتہ کئی مہینوں سے وہ کام ہو رہا تھا جسے اصولاً اگر چالیس برس قبل نہیں تو کم از کم نائن الیون کے فوراً بعد کر لیا جانا چاہیے تھا کہ اس سے تساہل کی سزا کے ضمن میں ہم نہ صرف ستر ہزار پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی پر مامور انتہائی قیمتی افراد کی جانی قربانیاں دے چکے ہیں بلکہ قومی دولت سے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اور باوجود امریکی سرکار کی طرف سے ایک ایسے محاسبے اور پابندیوں سے بھی گزر رہے ہیں جسے اگر insult to injury  addکہا جائے تو یہ کسی طور غلط نہ ہو گا کہ ساری باخبر اور باضمیر دنیا کے ساتھ ساتھ خود سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کلنٹن کھلے لفظوں میں اقرار کر چکی ہے کہ طالبان اور اس سے جڑے ہوئے القاعدہ اور داعش کے سلسلے خود امریکا کے شروع اور پیدا کیے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر پاکستان کے عوام کو خود کش حملوں کی آماجگاہ بنانے کا کریڈٹ بھی اس کے سر جاتا ہے۔

پاکستانی حکومت کی طرف سے اس ’’پیغام پاکستان‘‘ کا محرک بھی ایک طرح سے امریکا بہادر بھی ہے کہ اگر ٹرمپ ’’نئے سال کی مبارکباد‘‘ نہ دیتا تو شاید اب بھی ہم اس پر غور ہی کر رہے ہوتے۔ اندریں حالات اس پیغام کی تفصیل اور مضمرات میں جانے سے پہلے فوری تاثر یہی بنتا ہے کہ ’’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘

احسن اقبال کی گفتگو کے مرکزی اور بنیادی نقاط وہی تھے جن سے اس مسئلے سے دلچسپی رکھنے والے اہل نظر بخوبی واقف ہیں لیکن چونکہ اب ان کو ایک باقاعدہ پیغام کے انداز میں پس اور پیش منظر کے ساتھ دہرایا گیا ہے سو اس ساری صورت حال کو زمانی اعتبار سے یوں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ ستر کی دہائی کے آخری دنوں میں پاکستان نے امریکا اور سوویت یونین کی لڑائی میں باقاعدہ پارٹی بن کر بہت بڑی اور دور رس اثرات کی حامل غلطی کا ارتکاب کیا کہ اس کے بدلے میں اسے ایک سپر پاور سوویت یونین کی دشمنی کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف مستقل خطرات اور بدامنی کا شکار بننا پڑا کہ امریکا تو اپنی مطلب براری کے بعد آنکھیں ماتھے پر رکھ کر درمیان میں سے نکل گیا لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کو ایسے 35لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دینا پڑی جن کی وجہ سے زبردست معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ اسے پہلے کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر اور بعدازاں جہاد کے نام پر دہشت گردی‘ ڈرون حملوں اور خود کش بمباروں کی ایک ایسی افتاد کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک طرف تو فاٹا کا سارا علاقہ میدان جنگ گیا اور دوسری طرف افغانستان میں قائم ہونے والی بیشتر حکومتیں احسان مندی کے بجائے الٹا مخالفت اور دشمنی پر اتر آئیں اور یوں ان کی لگائی ہوئی آگ تحریک طالبان پاکستان‘ مسلکی گروہ بندی اور غیرملکی ایجنسیوں کی تخریبی کارروائیوں کی شکل میں فاٹا اور جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔

اس آگ کو مزید بڑھاوا نائن الیون کے ردعمل میں جنم لینے والی اسلام دشمن مہمات کی شکل میں ملا کہ امریکا بھارت اور اسرائیل نے مل کر ایک ایسی فضا پیدا کر دی کہ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور شام کی تباہی کے پہلو بہ پہلو سارے اسلامی بلاک میں مسلکی اختلافات مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں بھی ایٹمی طاقت کا حامل واحد اسلامی ملک ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی کو سہنا پڑ رہا ہے کہ چین کے ساتھ دوستی اور سی پیک معاہدے کی وجہ سے عالمی سیاست میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں اور گوادر کے حوالے سے پاکستان کے معاشی مستقبل میں جو نئے اور روشن راستے کھل رہے ہیں وہ بھی اپنی اپنی وجہ سے ان تینوں یعنی امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کو پسند نہیں آ رہے سو پاکستان کو عدم استحکام کے آشوب میں مبتلا رکھنا ان کی اولین ترجیح اور دہشت گردی اور مسلکی اختلافات کو فروغ دینا وہ آزمودہ طریقہ کار ہے جس کے ڈانڈے جہاد کے اسی گمراہ کن تصور سے جا ملتے ہیں جس کے بیان صفائی کے طور پر یہ ’’پیغام پاکستان‘‘ 1800علماء کے دستخطوں کے ساتھ بالآخر پیش کر دیا گیا ہے۔

سو اب ضرورت ہے کہ آئندہ تمام فیصلے اور پالیسیاں اسی کی روشنی اور تائید میں بنائی جائیں اور اس اصولی موقف پر ہر صورت میں قائم رہا جائے کہ عسکری جہاد کا حکم اور فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کرنا صرف اور صرف حکومت وقت کا حق ہے البتہ افراد اپنی ذات اور خواہشات کے خلاف ایسا جہاد کرنے میں بے شک آزاد ہوں جس کا مقصد اپنے آپ کو درست کرنا ہو اسی طرح خود کش حملوں کو متفقہ طور پر حرام قرار دینے کا اعلان بھی اسلام کے اس حقیقی چہرے کو سامنے لانے کی طرف ایک مثبت قدم ہے کہ جو مخالفانہ اور سازشی پروپیگنڈے کے باعث بری طرح سے دھندلا گیا تھا۔

توقع کی جانی چاہیے کہ اس سے بندوق کے ذریعے اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے خطرناک رجحان کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور تمام مثبت سوچ رکھنے والے لوگ مل جل کر اس فکر اور طاقت کا مظاہرہ کریں گے جو ان انتشار پھیلانے والوں کے خلاف سب سے اہم اور موثر ہتھیار ہے یعنی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیر آید۔ درست آید۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔