کیا بچوں سے زیادہ والدین کو جنسی تعلیم کی ضرورت ہے؟

تزئین حسن  ہفتہ 20 جنوری 2018
کیا ہمارے ہاں والدین بچوں کو ان کا اچھا برا سمجھاتے ہیں؟

کیا ہمارے ہاں والدین بچوں کو ان کا اچھا برا سمجھاتے ہیں؟

زینب قتل کے بعد سے جنسی تعلیم پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث چل نکلی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اسکولوں میں مغربی طرز کی جنسی تعلیم کی بات کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو سرے سے اس کی ضرورت ہی کے انکاری ہیں۔ میرا نکتہ صرف یہ ہے کہ ہمیں مسلمان والدین کےلیے قران اور حدیث کی تعلیمات پر مبنی ایک نصاب تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود اس معاملے میں بچوں کی رہنمائی کرسکیں۔

جہاں تک اسکولوں میں جنسی تعلیم دینے کی بات ہو رہی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بے حیائی پھیلانے کا ایک عالمی ایجنڈا ہے جو اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے، تیسری دنیا کے بدعنوان حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر ’’تعلیمی اصلاحات‘‘ کے نام پر رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بہت تیزی سے کامیابی کی منازل بھی طے کر رہے ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ اس ’’کارِ خیر‘‘ کےلیے پرنٹ، الیکٹرونک، انٹرٹینمنٹ، اور سوشل میڈیا کے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ حالیہ دو دہائیوں میں خود ہمارے ٹی وی چینلز اور پاپ میڈیا میں ہم جنس پرستی اور جنس تبدیل کروانے کے موضوع پر براہ راست یا بلا واسطہ بحث چھیڑی گئی ہے۔

پچھلے مہینے انصار عباسی کے ایک کالم سے علم ہوا کہ پنجاب حکومت نے اقوام متحدہ اور چند این جی اوز کے تعاون سے مغربی طرز کی جنسی تعلیم کو اسکولوں میں رائج کرنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے اور سندھ میں یہ کار خیر پہلے سے ہورہا ہے۔ راقم خود اس بات کی گواہ ہے کہ جنسی تعلیم کی آڑ میں کینیڈا، امریکا اور تمام مغرب میں ’’فری سیکس‘‘ کے تصورات کو عام کرنے کا کام ایک سیاسی مہم کے طور پر کیا جارہا ہے۔

عام تاثر کے برعکس، مغرب میں بھی عوام کی بڑی اکثریت اس کے خلاف ہے لیکن اس کے پُرزور احتجاج پر کان نہیں دھرے جاتے۔ اس کی ایک مثال کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے اسکولوں میں پہلی کلاس سے لازمی جنسی تعلیم کو رائج کرنے والوں کو مسلمانوں، سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں یہاں تک کہ یہودیوں کے بھی ایک فرقے کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہے۔

مغربی جنسی تعلیم کے نصاب میں بغیر شادی کے جنسی تعلقات کو جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی (ہم جنسی) کے فروغ کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جنسی حقوق کی آڑ میں بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں کسی بھی جنس کے فرد کو باہمی رضامندی سے اپنا پارٹنر بنانے کا حق ہے۔ محفوظ تعلقات کےلیے مشورے بھی اس تعلیم میں شامل ہیں۔

انصار عباسی صاحب کے کالم سے تصدیق ہوئی کہ یہ سب کچھ اب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چھٹی سے دسویں جماعت تک کے نصاب میں بھی شامل ہوگیا ہے۔ اسکولوں میں ناچ اور میوزک کی تربیت کی خبریں بھی مین اسٹریم میڈیا میں آچکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ تعلیمی اصلاحات کےلیے اتنی سرگرم سندھ حکومت کسی دوسرے شعبے میں کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔

دو سال پہلے ہارورڈ کےلیے ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں راقم کو ایک امریکی ہم جنس سے تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا جس کا کہنا تھا، ’’ہم جنسی کا فروغ ایک عالمی سیاسی تحریک ہے جسے بہت طاقتور لابی کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اس تحریک کے بہی خواہ اس کی تصویرکشی ’’انسانی حقوق کی جدوجہد‘‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے ہم جنسی کو تمام رکن ممالک میں قانونی حیثیت دلوانے کےلیے سرگرداں ہیں جس کے ثبوت ان کی ویب سائٹس پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

حالیہ دہائیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ہم جنسی، جنس تبدیل کروانے والوں، اور پیدائشی طور پر تیسری جنس کے لوگوں (خواجہ سراؤں) کو ایک ہی چھتری تلے LGBTQ کا نام دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا سمیت دنیا کے بہت سے خطّوں میں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، اس طبقے کے حقوق کی جدوجہد کو پیدائشی تیسری جنس میں پیدا ہونے والوں کے حقوق کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا ہے۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اس میں قصور معاشرے اور مذہبی طبقات کا بھی ہے، جو تیسری جنس کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں کے نصاب اور مذہبی دروس میں ان موضوعات کو درخورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں جاتا کہ عام معاشرے کی اس بارے میں تربیت ہوسکے کہ انہیں انسان کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے پاکستانی معاشرے میں جنسی تعلیم کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بڑے ایک ٹی وی چینل میں میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے والی ایک ’’مورت‘‘ نے ایک انٹرویو کے دوران مجھے بتایا کہ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں جنس تبدیل کرنے کے آپریشن ہوتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ پیدائشی طور پر کسی ایک صنف (مرد یا عورت) ہونے کے باوجود، اپنے فطری مزاج میں اس سے مخالف صنف والے رحجانات رکھتے ہیں۔

یہاں واضح کرتی چلوں کہ یہاں میں نے ’’مورت‘‘ کا لفظ ایسے افراد کےلیے استعمال کیا ہے جو بالعموم مرد کے طور پر پیدا ہوتے ہیں لیکن اپنی جنس تبدیل کروا لیتے ہیں۔ انہیں مغرب میں ’’ٹرانس جینڈرز‘‘ (Transgenders) کہا جاتا ہے۔ البتہ تبدیلئ جنس کا یہی کام عورتیں بھی کرواتی ہیں۔

ایسے افراد کو بچپن ہی سے گھروں میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ بچپن ہی میں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس میک اپ آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ ارد گرد افراد کے رویّے کی اذیت اٹھانے والے یہ لوگ ایک ’’خوش اخلاق مافیا‘‘ کے فریب میں آکر گھر چھوڑ دیتے ہیں جو انہیں جنس تبدیل کروانے کی ترغیب دے کر جسم فروشی کے کاروبار میں لے آتی ہے۔ یہ افراد جو ٹرانس جینڈر یا ’’مورت‘‘ کہلاتے ہیں، بہت جلد شدید پچھتاوے کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن واپسی کی راہیں مسدود ہوچکی ہوتی ہیں۔

مذکورہ مورت کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے والدین کو یہ آگاہی ہو کہ ہارمونز کے ذریعے معمولی علاج سے یہ کمزوری دور ہوسکتی ہے اور وہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، تو ہمیں اس انجام کا شکار نہ ہونا پڑے۔ لیکن ہمارے ہاں ان موضوعات پر بات کرنا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

زینب کا قتل ملک کی تاریخ کا بہت تکلیف دہ واقعہ ہے لیکن اس نے ضروری جنسی تعلیم کے حوالے سے اس مثبت بحث کو چھیڑنے میں مدد دی ہے۔

راقم زینب قتل سے بہت پیشتر اس موضوع پر ارباب حل وعقد کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ذیل میں اپنے ایک آٹھ ماہ پہلے لکھے ہوئے اور جولائی میں شمالی امریکا کی ایک پرنٹ پبلی کیشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے اقتباسات نقل ہیں۔ یاد رہے کہ آج جنسی تعلیم کی بات ہر ایک کررہا ہے لیکن اُس وقت یہ مضمون بہت ڈرتے ڈرتے چند ایک میڈیا آؤٹ لیٹس میں بھیجا گیا تھا۔

پاکستان میں مین اسٹریم کے علاوہ دائیں بازو کے اخبارات اور رسائل نے بھی اسے چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ وہی رسائل اب اس موضوع پر تفصیلی مضمون کی فرمائش کر رہے ہیں۔ دوبارہ واضح کردوں کہ یہ مضمون زینب قتل سے بہت پہلے لکھا گیا تھا اور اس کا مقصد عمومی طور پر مسلمان معاشروں کو یہ احساس دلانا تھا کہ جنسی تعلیم کو نظرانداز کرکے ہم ایک ایسے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں جس کا نتیجہ بہت خوف ناک ہو سکتا ہے۔ مضمون میں چند سوالات اٹھا کر ان کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی تھی۔

کیا جنسی آگہی مذہبی اعتبار سے کوئی ممنوعہ یا حرام چیز ہے؟

’’سوال یہ ہے کہ کیا جنسی تعلیم فی الواقع سرے سے ہی غلط ہے؟ یا ہمارے بچوں کو اس کی ضرورت ہے؟ اس تعلیم کےلیے دلیل قرآن اور حدیث سے ملتی ہے۔ دین کے یہ ماخذات بہت سے مقامات پر ان معاملات کو بہت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اگر دس سال کے بچے کو قرآن ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے، اور جو مسلمان گھرانوں میں پڑھایا جانا چاہیے، تو اس میں جنسی تعلیم سے متعلق بہت سی چیزیں از خود آجاتی ہیں۔ مگر عام طور سے مسلم معاشرے اور مملکت اغیار میں مقیم مسلم کمیونٹیز بچوں کو یہ تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت سرے سے محسوس ہی نہیں کرتیں۔

’’دین ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتا ہے اور اسے سیکھنے کے معاملے میں شرم کو پسند نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کی اس بات پر تعریف کی کہ وہ دین سیکھنے کے معاملے میں شرماتی نہیں تھیں۔ اپنے بچوں کو ہمیں یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ جہاں انہیں ایسے کسی معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ خود سوال کریں؛ اور اگر دینی یا دنیاوی معاملات میں کوئی پریکٹیکل (عملی) چیلنج انہیں محسوس ہو تو اس پر بھی اس اعتماد کے ساتھ گفتگو کرسکیں کہ ان کا یقین کیا جائے گا، اور انہیں مناسب رہنمائی دی جائی گی۔‘‘

کیا جنسی تعلیم شرم و حیا اور شریعت کے تقاضوں کے منافی ہے؟

ہمارے ہاں عام طور سے ان موضوعات کو شرم و حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے اور والدین، بچوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتے، چاہے بچے گلی محلے، اسکول مدرسے، کزنز، میڈیا اور انٹرنیٹ سے کچھ بھی اخذ کر رہے ہوں۔ ہم نے ڈرائیونگ سیٹ خود دوسروں کو دے دی ہے کہ وہ ہمارے بچوں کی کسی بھی طرح ذہن سازی کریں۔ ایسے میں صرف لڑکیاں ہی نہیں، لڑکے بھی جنسی زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔

’’ہو سکتا ہے بعض والدین انہیں نامناسب یا غیر ضروری تصور کریں مگر یہ یاد رکھیے کہ آج انٹرنیٹ کے دور میں اگر آپ کا بچہ فلموں، پاپ کلچر، لٹریچر سے بچا ہوا بھی ہے، تب بھی اسے یہ سب کسی دوسرے ذریعے سے معلوم ضرور ہوگا۔ اور مناسب یہی ہے کہ اس سے پہلے آپ خود اس کی رہنمائی کرنے والے ہوں۔ یہ چیز بچے کو آپ پر اعتماد بھی دے گی اور کسی ناگوار صورتحال سے نمٹنے کا شعور بھی۔‘‘

کیا ہمارے ہاں والدین بچوں کو ان کا اچھا برا نہیں سمجھاتے؟

’’اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان مسائل سے متعلق بہت سی تعلیمات ٹکڑوں کی صورت میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مسلمان والدین نئی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن زندگی کے اس اہم ترین پہلو کی اہمیت کے پیش نظر سائنٹفک بنیادوں پر والدین اور اساتذہ کےلیے ایک نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے مذہب کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اس کے لیے ہمیں مناسب انداز میں مختلف فورمز پر ان موضوعات کو زیر بحث لانا ہوگا۔‘‘

والدین اور بچے کے تعلق کی مضبوطی کیوں ضروری ہے؟

’’اس بات پر بھی زور دینا ضروری ہے کہ بچوں کو گھر کے اندر اور باہر کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی سمجھ دینے کےلیے ضروری ہے کہ والدین کا بچے سے تعلق بہت اچھا ہو۔ والدین کےلیے یہ تربیت تب ہی ممکن ہے جب وہ اس کی ضرورت محسوس کریں اور انہیں خود ان مسائل سے آگاہی ہو، اور اولاد ایک دوست کی مانند ان کے اس طرح قریب ہو کہ ان سے ہر موضوع پر بات کی جا سکے۔‘‘

والدین کو رہنمائی کہاں سے ملے؟

’’پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ضرورت کا احساس ہو بھی جائے تو والدین خود کہاں سے رہنمائی لیں؟ اس کےلیے باقاعدہ نصاب کے ذریعہ اہل علم کی رہنمائی کی ضرورت ہے، جس کےلیے دینی طبقوں ہی کو آگے آنا ہوگا۔ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ اگر کوئی سیکولر فرد یا ادارہ کینیڈا و امریکہ کے تعاون سے کوئی ڈاکیومنٹری، ٹی وی سیریل یا نصاب تیار کرلے تو ہمیں اعتراض ہوگا، لیکن خود اس معاملے میں پیش رفت کی ضرورت مشکل ہی محسوس کریں گے۔‘‘

آج میڈیا اور کارپوریٹ کلچرنے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔ جنسی بے راہ روی صرف شمالی امریکا یا مغرب کا مسئلہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد پاکستان اور باقی مسلم دنیا میں بھی یہ برائیاں، جن میں ہم جنسی بھی شامل ہے، بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں؛ یا باقاعدہ پلاننگ کے تحت پھیلائی جارہی ہیں اور اس کی روک تھام کےلیے ضروری ہے کہ مناسب عمر میں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی ایک جدید نصاب والدین کےلیے تشکیل دیا جائے اور میڈیا کی مختلف اصناف کو استعمال کرتے ہوئے اس کی ترویج بھی کی جائے۔ والدین خود اپنی نگرانی میں، یا جن قریبی لوگوں پر وہ اعتماد کرتے ہیں ان کے ذریعے، بچے کو یہ نصاب اس کی بڑھتی ہوئی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے مطابق زبانی گفتگو یا دوسرے ذرائع سے منتقل کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں کسی مغربی نصاب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہماری تمدنی، ثقافتی اور مذہبی اقدار مغرب سے بہت مختلف ہیں۔

آج کے دور میں نصاب کی ترویج سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے جبکہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے دوسرے ذرائع بھی استعمال کے جاسکتے ہیں۔ مسجد کے امام اور درس کے حلقے بھی ان تعلیمات کو اپنا موضوع بناسکتے ہیں۔ اگر مذہبی حلقے برائی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ مدرسوں کو آن بورڈ لینا بھی ضروری ہے۔ یہ ایجوکیشنل مٹیریل (تعلیمی مواد) کارٹون اینی میشن کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے، ٹاک شو کی صورت میں بھی، اور مختصر دورانیے کی فلموں (شارٹ فلمز) کی صورت میں بھی۔

اس وقت ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ خاندانی نظام ہے جس کے باعث پاکستان کی آبادی دنیا کی کم عمر ترین آبادی ہے۔ ہمارے بچے آج اپنے ماں اور باپ، دونوں کی سرپرستی میں پلتے ہیں۔ آج بغیر شادی کی ماؤں کا پاکستانی معاشرے میں تصور موجود نہیں۔ لیکن اگر ہمارے بکے ہوئے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنے بدیسی آقاؤں کو خوش کرنے کےلیے اسکولوں میں جنسی تعلیم کی آڑ میں ہمارے ہاں بھی جنسی آزادی (فری سیکس) کو فروغ دیا تو ہمارا یہ آخری قلعہ اور مضبوط حصار بھی زمین بوس ہوجائے گا۔

یاد رکھیے کہ جو لوگ جنسی تعلیم کے ذریعے جنسی بے راہ روی کو پھیلانا چاہتے ہیں، وہ انٹرٹینمنٹ اور سوشل میڈیا کے تمام وسائل استعمال کررہے ہیں۔ اگر مذہبی طبقے نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اب بھی مناسب آگہی دینے کی مخالفت کی تو اس کا فائدہ مخالف نظریات رکھنے والوں ہی کو ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تزئین حسن

تزئین حسن

تزئین حسن ہارورڈ یونیورسٹی امریکا میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انکے مضامین پاکستان سمیت شمالی امریکا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ تعلیم، بین الاقوامی سیاست، حقوق نسواں، میڈیا اور بہت سے دوسرے موضوعات پر مستقل لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔