انٹربورڈ کے نتائج تحقیقات مکمل رپورٹ حکومت کو پیش

تحقیقات میں کمیٹی کے ایک رکن کے شامل نہ ہونے کا انکشاف


Safdar Rizvi January 23, 2018
نتائج میں10فیصد تک انحراف یاتجاوزپایاگیا جن میں سے2 فیصد امتحانی کاپیاں زائد مارکس کی حامل ہیں، رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے تحت انٹرکے نتائج میں شہرکے نمایاں کالجوں کے طلبہ کوفیل کیے جانے کے معاملے پرکی گئی تحقیقات میں کمیٹی کے ایک اہم رکن کے شامل نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ تحقیقات سے علیحدہ ہونے کے باوجود محض 2 ارکان نے تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ حکومت سندھ کوپیش کردی۔

''ایکسپریس''کوموصولہ رپورٹ میں اس امرکاانکشاف ہواہے کہ ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے سابق ناظم امتحانات تحقیقات کے عمل میں محض ابتدائی اجلاس کے علاوہ کسی بھی اجلاس یاانکوائری میں شریک ہی نہیں ہوئے، ادھر حکومت سندھ کے ایک افسرنے بھی اس بارے میں حیرت کااظہار کیاہے کہ جب ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے سابق ناظم امتحانات تحقیقات سے الگ ہوئے تھے توکمیٹی کے کنوینر نے متعلقہ اتھارٹی کو اس امرکی اطلاع نہیں دی تاکہ ان کی جگہ کسی دوسرے رکن کوبطور''ایکسپرٹ''کمیٹی میں شامل کیاجاتا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں مزیدانکشاف ہواہے کہ بورڈ کی جانب سے انٹرسال اول کے جاری نتائج پرعدم اعتماد کرنے والے شکایتی طلبہ کی امتحانی کاپیوں میں اسسمنٹ میں 10فیصد تک انحراف یاتجاوزبھی پایاگیاہے، 2 فیصد امتحانی کاپیاں زائد مارکس کی حامل جبکہ 3فیصد کاپیاں کم مارکس کی حامل پائی گئی جن میں 1سے 4نمبرتک کم نمبردیے گئے تھے تاہم قابل ذکربات یہ ہے کہ کمیٹی کے دونوں اراکین نے اپنی رپورٹ میں 10 فیصد تک امتحانی کاپیوں میں ''Deviation'' (انحراف) پائے جانے کاواضح تذکرہ توکیاہے تاہم اس کے باوجود متاثرہ طلبہ کے حوالے سے کوئی تجویزدی ہی نہیں۔

ادھر ذرائع نے اس بات کابھی انکشاف کیاہے کہ کمیٹی نے جن اساتذہ سے امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ کے عمل کی اسکروٹنی کرائی ہے ان اساتذہ کی فہرست بھی متعلقہ بورڈ(کراچی انٹربورڈ)کی انتظامیہ کی جانب سے ہی فراہم کی گئی تھی جبکہ اس سے قبل جن اساتذہ نے کاپیاں جانچی تھی ان کی خدمات بھی کراچی کے سرکاری کالجوں سے انٹربورڈکراچی نے ہی حاصل کی تھی۔

ذرائع کاکہناتھاکہ جب یہ انکوائری انٹربورڈ کراچی کے خلاف تھی اور انٹربورڈاس انکوائری میں خود ایک پارٹی یاحریف کی حیثیت رکھتاتھاتوآخرکیوں اسکروٹنی کرنے والے اساتذہ کی لسٹ اس بورڈ سے لی گئی اوراس سلسلے میں سندھ کے کسی دوسرے تعلیمی بورڈ کی خدمات کیوں نہیں لی گئیں۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ ایک جانب رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ممتحن کی جانب سے امتحانی کاپیوں کی جانچ اورمارکس دینے کے عمل میں کسی قسم کی لاپروائی یاغفلت نہیں پائی گئی مزیدبراں رپورٹ میں حیرت انگیزطورپرامتحانی کاپیاں گھرلے جاکرجانچنے کے عمل کودرست قرار دیا گیا۔

بورڈ کے قوانین اورپالیسیزامتحانی کاپیاں گھرلے جانے کی اجازت دیتے ہیں اوریہ عمل ماضی میں بھی جاری رہاتاہم اسسمنٹ کے عمل سے مطمئن ان دونوں اراکین نے دوسری جانب اپنی تجاویزمیں کہاہے کہ بورڈ میں ناظم امتحانات کے عہدے پر کسی تجربے کار اوراچھی شہرت کے حامل شخص کاتقررکیاجائے اورامتحانی کاپیاں جانچنے والے ایگزامینرز کے لیے مستقل بنیادوں پر ورکشاپس کا انعقاد کرایا جائے اورامتحانی کاپیوں کے ایگزامینرزکواجرا اور واپس کے وقت کمپیوٹرائزڈٹریکنگ سسٹم متعارف کرایاجائے۔

کمیٹی کے دونوں اراکین نے اپنی دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ کراچی کے 54کالجوں کے 2385طلبا و طالبات نے بورڈکے نتائج کے خلاف شکایات کی تھیں جو مجموعی تعدادکا4.4فیصدہے جس میں سے 98فیصدامتحانی کاپیاں چیک کی گئی اور95فیصد کے نتائج درست پائے گئے تاہم اس کے باوجود ناظم امتحانات کی تقرری کی سفارش کی گئی۔

کمیٹی کے دواراکین جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسرڈاکٹرارشداعظمی اوراین ای ڈی یونیورسٹی کے موجودہ ناظم امتحانات پروفیسرڈاکٹرناصرالدین شیخ کی جانب سے جمع اس رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کے سابق ناظم امتحانات ڈاکٹرامان اللہ منگی نے صرف تعارفی اجلاس میں شرکت کی جس کے بعد وہ کسی اجلاس میں آئے اورنہ ہی کسی فون کال کاجواب دیا۔

 

مقبول خبریں