بٹ کوائن امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بنائی؛ آئی ٹی ماہر کا انکشاف

سید عاصم محمود  منگل 30 جنوری 2018
کرنسی کی خریدو فروخت کا یہ طریق کار ظاہر ہے، خفیہ ایجنسیوں کے لیے بہت موزوں ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کرنسی کی خریدو فروخت کا یہ طریق کار ظاہر ہے، خفیہ ایجنسیوں کے لیے بہت موزوں ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نتالیا کاسپرسکی نے انکشاف بھی کیا کہ امریکا اور برطانیہ ہی بٹ کوائن کی شرح قیمت بھی طے کرتے ہیں۔ 

نتالیا کا سپرسکی روس کی مشہور ماہر آئی ٹی ہے۔ اس نے 1997ء میں اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کاسپرسکی لیب کی بنیاد رکھی۔ اس آئی ٹی کمپنی نے بعد ازاں بہترین اینٹی وائرس پروگرام تخلیق کیے۔ دنیا کے ممتاز سرکاری و نجی ادارے دنیائے انٹرنیٹ سے ہونے والے ان گنت حملے روکنے کی خاطر کاسپرسکی کے اینٹی وائرس پروگراموں سے مدد لیتے ہیں۔

پچھلے دنوں نتالیا نے ماسکو میں منعقدہ ایک کمپیوٹر کانفرنس میں یہ انکشاف کرکے سنسنی پھیلا دی کہ بٹ کوائن امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تخلیق کی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی و برطانوی خفیہ ایجنسیاں دنیا بھر میں جاسوسی کی جو سرگرمیاں انجام دیتی ہیں، ان کے لیے چوری چھپے سرمایہ مل سکے۔ حقائق دیکھے جائیں تو اس دعویٰ میں وزن دکھائی دیتا ہے۔

یہ امریکی عسکری و خفیہ ادارے ہی ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ ایجاد کیا۔ اس دنیا کا بہت بڑا حصہ عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے جو ’’ڈارک ویب‘‘ کہلاتا ہے۔ اس حصے میں امریکی حکومت سمیت دیگر حکومتوں کا بھی خفیہ و عیاں ڈیٹا موجود ہے۔مگر اسی دنیا میں اسلحہ بیچنے والے۔دہشت گرد اور دیگر جرائم پیشہ بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ ڈارک ویب میں داخلے اور گھومنے پھرنے کی خاطر امریکی اداروں نے ہی ’’تور‘‘ نامی سافٹ ویئر ایجاد کیا جو ایک براؤزر کو اجنبی تشخص دے ڈالتا ہے۔

جنوری 2009ء میں بٹ کوائن سامنے آئی جو اب دنیائے ڈارک ویب کی سرکاری ڈیجیٹل کرنسی بن چکی۔ یہ ایک خفیہ کرنسی ہے، اس معنی میں کہ بٹ کوائن کی خریدو فروخت کے دوران بیچنے اور خریدنے والے، دونوں کی شناخت خفیہ رہتی ہے۔ بٹ کوائن بیچنے والے کو پتا نہیں چلتا کہ اس نے اپنی کرنسی کسے بیچی اور نہ ہی خریدنے والا جانتا ہے کہ اس نے بٹ کوائن کس سے خریدی۔

کرنسی کی خریدو فروخت کا یہ طریق کار ظاہر ہے، خفیہ ایجنسیوں کے لیے بہت موزوں ہے۔ وہ اپنے منصوبوں اور سازشوں کی تکمیل کے لیے بٹ کوائن کی شکل میں ادائیگی کریں، تو کسی کو علم نہیں ہوسکتا کہ فلاں بم دھماکے یا خودکش حملے کے پیچھے دراصل امریکا یا برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے کہ انہی کے سرمائے سے یہ منصوبہ عملی جامہ پہن سکا۔

نتالیا کاسپرسکی نے انکشاف بھی کیا کہ امریکا اور برطانیہ ہی بٹ کوائن کی شرح قیمت بھی طے کرتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات انجام دینے کی خاطر کبھی اس کرنسی کی شرح بڑھاتے اور کبھی اچانک گھٹا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، بٹ کوائن قیمت کے اتار چڑھاؤ کے اعتبار سے نہایت ہنگامہ خیز ڈیجیٹل کرنسی بن چکی۔ اس اتار چڑھاؤ کی تاریخ محیر العقول ہے۔

جنوری 2009ء سے مارچ 2010ء تک ایک بٹ کوائن کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 0 تھی۔ فروری 2011ء میں ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک ڈالر کے برابر ہوگئی۔ یہ پھر آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ نومبر 2013ء میں ایک بٹ کوائن کی قیمت 350 ڈالر سے بڑھ کر اچانک 1156 ڈالر تک پہنچ گئی۔بعدازاں بٹ کوائن کی قیمت پھر گرگئی۔

پچھلا سال اسی کرنسی کے لیے نہایت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ یکم جنوری 2017ء کو ایک بٹ کوائن کی قیمت 963 ڈالر تھی جو آنے والے مہینوں میں بڑھتی چلی گئی۔ 17 دسمبر کو اس کی قیمت 20,089 ڈالر ہوگئی جس نے سبھی کو چکرا کر رکھ دیا۔ گویا تب پاکستانی کرنسی کے حساب سے ایک بٹ کوائن کی قیمت تقریباً اکیس لاکھ روپے تھی۔

لیکن بٹ کوائن کی قیمت پھر گرنے لگی اور 24 جنوری 2018ء کوایک بٹ کوائن کی قیمت  11,501 ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ اس زبردست اتار چڑھاؤ سے عیاں ہے کہ بٹ کوائن کے پیچھے حکومتوں کا ہاتھ ہے جو اپنے مالی و سیاسی مفادات پورے کرنے کی خاطر بٹ کوائن کی قیمت کبھی گھٹاتی اور کبھی اچانک بڑھا دیتی ہیں۔n

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔