زنجیروں میں جکڑا کشمیر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے

غلام محی الدین  پير 5 فروری 2018
سیاسی مسئلے کو امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر بھارت اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ فوٹو: فائل

سیاسی مسئلے کو امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر بھارت اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ فوٹو: فائل

کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ارضی ہے جو دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کاشکار ہو کر مسلسل بدامنی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔

انسانی معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے لائی جانے والی مثبت تبدیلیورں کی مسلسل کڑی نگرانی نہ کی جائے تو آہستہ آہستہ یہ مثبت تبدیلیاں زور آوروں کے مفادات کی کھینچا تانی کا ایک ہتھیاربن کر رہ جاتی ہیں۔

پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں جنگ کو روکنے کے لئے لیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی لیکن محض 21 برس بعد دنیا کو اس سے بھی کئی گنا بڑی اورہولناک جنگ کا سامنا تھا‘ وجہ یہی تھی کہ لیگ آف نیشنز بڑی طاقتوں کے مفادات کے حصول کیلئے آلہ کار بن کر رہ گئی تھی۔ 6 برس کے طویل عرصہ پر محیط دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ جیسا ادارہ وجود میں آیا، مقصد پھر وہی تھا کہ جنگ کی ہولناکی سے بچا جا سکے۔ لیکن یہ ادارہ بھی رفتہ رفتہ اپنا اعتبار کھوتا جا رہا ہے۔

یہاں عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے فیصلے ہوتے ہیں، صورت یہ ہے کہ ساری دنیا کے تمام ممالک کی رائے کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین میں سے کوئی ایک ویٹو کرکے رد کرسکتا ہے۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اگر ساری دنیا اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے عراق پر حملے کی مخالفت بھی کر دے پھر بھی امریکہ عراق پر حملہ کر دیتا ہے۔

اس ادارے کی صورتحال بھی یہ ہے کہ یہاں فیصلے کسی انسانی المیے یا تاریخی حقائق کے تناظر میں نہیں ہوتے بلکہ اگر عالمی طاقتوں کے مفادات کسی استحصالی ملک کے ساتھ وابستہ ہیں تو اسے استحصال کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے‘ فلسطین اور کشمیر اس عالمی دوغلے پن کی بڑی مثالیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے المیے کا آغاز 1947ء میں برصغیر کی تقسیم سے نہیں ہوا بلکہ کشمیر کے باسی تقسیم سے پہلے کئی دہائیوں سے بدترین امتیاز کا شکار چلے آرہے ہیں۔

برصغیر میں بسنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کو ہندو اکثریت کے استحصال سے کسی نہ کسی حد تک یوں امان حاصل تھی کہ برطانوی سرکار بوقت ضرورت بیچ بچاؤ کیلئے اقدامات کا اختیار رکھتی تھی لیکن کشمیر کے مسلمانوں کو ہندو راجہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا جس نے اپنی ریاست میں مذہبی امتیاز پر مبنی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ مثال کے طور پر 13 جولائی 1931ء کے روز 22 کشمیری مسلمانوں کو ایک ایسے تنازع پر قتل کر دیا گیا جس کی وجہ ایک ہندو کا قبول اسلام تھا۔

جموں کے علاقے اودھم پور کے ایک بڑے زمیندار نے ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا۔علاقے کے ہندو تحصیلدار زمین کے کاغذوں میں تبدیلی کر کے ساری زمین اس کے ہندو بھائی کے نام کر دی۔جب اس نے داد رسی کیلئے عدالت سے رجوع کیا تو وہاں سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ جب تک وہ دوبارہ ہندو دھرم اختیار نہیں کرتا زمین رکھنے کا اہل نہیں ہوگا۔

یہ فیصلہ 31 دسمبر 1882ء کو ڈوگرا راج کی طرف سے جاری کئے جا نے والے حکم نامے کے تحت کیا گیا تھا۔ پھر یہ ہواکہ مقامی امام مسجد نے اپنے خطبے میں فرعون کے ظلم و ستم کا تذکرہ کیا تو اسے علامتی طور پر حکومت کی مخالفت اور بغاوت قرار دیتے ہوئے مقامی سب انسپکٹر نے خطبے پر پابندی لگا دی۔ اس موقع پر میر حسین بخش نامی ایک نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے لوگوں کو بتایا کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔

مسجد میں موجود لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی جامع مسجد پہنچے اور اسی شام احتجاج کااعلان کردیا گیا۔ یہ احتجاجی اجتماع شہرکی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی اجتماع قرار پایا۔ مسلمان پہلے ہی سیاسی اور معاشی اعتبار سے پسے ہوئے تھے اب دینی معاملات میں امتیازی سلوک نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔

اسی معاملے کو لے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں سب انسپکٹر کے خلاف اپیل دائر کی گئی تو ہندو مجسٹریٹ نے یہ کہہ کر اپیل مسترد کردی کہ خطبہ نماز کا حصہ نہیںہوتا۔ جیسے ہی فیصلہ سنایا گیا عدالت کے احاطہ میں جمع ہندوؤں نے مجسٹریٹ اورہندو دھرم کے حق میں نعرہ بازی کی۔ پھر4 جون کو سنٹرل جیل جموں میں میرپور کے ایک مسلمان کانسٹیبل فضل داد خان ہندو سب انسپکٹر اور ہیڈوارڈن کے ہاتھوں تذلیل کا سامنا کرناپڑا ان ہندوپولیس اہلکاروں نے فضل داد کی چارپائی پر پنج سورۃ کی بے حرمتی کی۔20 جون 1931ء کو قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا۔

مسلمانوں کے اندر لاوہ تو پہلے ہی پک رہا تھا۔13 جولائی 1931ء کے واقعہ کی فوری وجہ ایک برطانوی فوجی افسر کا ملازم عبدالقدیر خان بنا۔ یہ انگریز افسر چھٹیاں گزارنے سری نگر آیا ہوا تھا۔ عبدالقدیر خانقاہ معلی میں جاری ایک اجتماع میں شامل تھا جہاں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے وہاں پر مسلمانوں کے حق میں ایک انقلابی تقریر کر ڈالی۔ اس کی تقریر خفیہ والوں نے ریکارڈ کر لی اور اس پاداش میں عبدالقدیر خان کو گرفتار کر لیا گیا۔

عبدالقدیر نے اپنی تقریر میں لورگوں سے کہا تھاکہ وہ اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اُٹھیں اور غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں یہ کہتے ہوئے اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف اشا رہ بھی کیا جو وہاں سے نظر آتا تھا۔ 25 جون کو عبدالقدیر گرفتار ہو گیا۔4 جولائی کو سری نگر کے سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ جب بڑی تعداد میں مسلمان ہر پیشی پر جمع ہونا شروع ہوگئے تو مقدمے کی سماعت سنٹرل جیل میں منتقل کر دی گئی۔

13 جولائی کے روز 5 ہزار مسلمان سنٹرل جیل کے سامنے جمع تھے۔ 1:00 بجے وہیں پر آذان دے کر ظہر کی نماز کی ادائیگی کی تیاری شروع ہوئی۔ اسی اثناء میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سٹی منصف پولیس سپرنٹنڈنٹ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ وہاں پہنچے جیسے ہی یہ سرکاری اہلکار گاڑیوں سے اُترے لوگوں نے اللہ اکبر، اسلام زندہ باد اورعبدالقدیر زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ ماحول بگڑتے دیکھ کر پولیس نے ہجوم پردھاوابول دیا۔

یہاں دست بدست لڑائی شروع ہوگئی اسی دوران غلام محمد حلوائی نامی ایک سابق پولیس اہلکار نے ایک کانسٹیبل سے اس کی رائفل چھین لی جس پر دوسرے کانسٹیبل نے اپنی رائفل سے فائر کر کے اسے شہید کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں 22 نہتے کشمیری شہید کر دیئے گئے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے اس واقعے کے بعد کرفیو نافذ کر کے علاقہ فوج کے حوالے کردیا گیا۔ شہدا کی تدفین خانقاہ معلی میں ہوئی جسے اب مزار شہدا کہا جاتا ہے۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں کے طویل سلسلے کا یہ محض ایک باب ہے۔ ہزاروں لوگ اس جدوجہد میں خون کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کی صورت میں کشمیر کے مسلمانوں کیلئے اُمید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب انہیں غلامی سے نجات مل جائے گی لیکن کشمیر کا بڑا علاقہ ڈوگرا راج کے شکنجے سے نکل کر بھارتی سرکار کی بدترین غلامی کے نرغے میں پھنس گیا۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اب الحاق پاکستان کی جدوجہد کے عنوان سے جاری ہے۔ اور بھارت اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود کہ ایک سیاسی مسئلے کو امن و امان کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی‘ مسلسل خود فریبی میں مبتلا ہے۔ تاریخ عالم اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک کسی مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں نہیں سمجھا جاتا اس کا حل ممکن نہیںہوتا۔

5 فروری کا دن جدوجہد آزادی کشمیر کے از سر نو آغاز کا دن ہے۔ 1990ء کے برس سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد ایک نئے ولولے کے ساتھ منظر عام پر آئی تھی اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر اور ممتاز سیاسی و مذہبی مدبر قاضی حسین احمد نے پاکستان سے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے اظہار یکجہتی کا نعرہ بلند کیا تھا۔

اس اظہار یکجہتی کا علامتی مظاہرہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے والے تین راستوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کیا گیا تھا۔ گو کہ جماعت اپنی ایک الگ سیاسی حیثیت رکھتی ہے لیکن کیونکہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی ایک قومی اور آئینی فریضہ ہے اس لئے اس عمل کو ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی قوتوں کی حمایت اور تعاون حاصل ہوا۔ اگردیانتداری سے دیکھا جائے تو پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری قوت سے ادا نہیں کررہا۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پرکشمیر کے المیے کو نمایاں کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کارلائے جائیں۔

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

یہ شعلہ نہ دب جائے یہ آگ نہ سو جائے
پھرسامنے منزل ہے ایسا نہ ہو کھو جائے

ہے وقت یہی یارو‘ جو ہونا ہے ہوجائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم
اس وادی ُپرخوں سے ا ٹھے گا دھواں کب تک

محکومی گلشن پر روئے گا ساماں کب تک
محروم نوا ہوگی غنچوں کی زباں کب تک

ہرپھول ہے فریادی آنکھوں میں لیے شبنم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

وتنام و فلسطیں ہو انگولا کہ ہو کانگو
انسان کی آنکھوں سے گرتے ہوں جہاںآنسو

اے شامِ ستم ہر جا توڑیں گے ترا جادو
دیکھا نہیں جاتا اب مظلوم کا یہ عالم

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
اُٹھے ہو نگاہوں میں تم سوز یقیں لے کر

امریکہ کی بندوقیں ہو جائیں گی خاکستر
پروردئہ واشنگٹن جائیں گے کہاں بچ کر

ان جنگ پرستوں سے ہے سارا جہاں برہم
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

حبیب جالب

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔