حرص، ہوس اور لمبی امیدیں

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  جمعـء 16 فروری 2018
انسان کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لمبی امیدیں، بے جا حرص و طمع اور لالچ بے مقصد ہے۔ فوٹو : فائل

انسان کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لمبی امیدیں، بے جا حرص و طمع اور لالچ بے مقصد ہے۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تخلیق سے پہلے اس کے رزق کا انتظام فرما دیا تھا۔ پھر اس شاہ کار قدرت انسان نے جو دنیا میں کرنا تھا اچھا یا برا بہ طور تقدیر تحریر کر دیا گیا۔

صدقات و خیرات، صلۂ رحمی اور والدین و بزرگان دین کی دعا سے برکات دنیا و آخرت نصیب انسان میں رکھی گئیں۔ جب ہر چیز کا فیصلہ کر دیا گیا اور برکات والے عمل بتا دیے گئے تو پھر انسان کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لمبی امیدیں، بے جا حرص و طمع اور لالچ بے مقصد ہے۔

حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کا خطاب: حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا بات ہے تمہارے علماء اٹھتے جا رہے ہیں اور تمہارے جاہل لوگ علم حاصل نہیں کرتے۔ علما کے اُٹھ جانے کے ساتھ علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے پہلے علم حاصل کرو، اور فرمایا کیا بات ہے کہ تم اس چیز پر حریص ہو جس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے اور جو چیز تمہارے ذمے اور سپرد داری میں دی گئی ہے اسے ضائع کر رہے ہو۔ میں تمہارے شریر لوگوں کو یونہی پہچانتا ہوں، جیسے حیوانات کا ماہر گھوڑوں کی نسل سے واقف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو زکوٰۃ کو چٹی یعنی تاوان سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ نمازوں میں آخر وقت پر آتے ہیں۔ قرآن کو بے توجہی سے سنتے ہیں۔ آزاد لوگوں کو آزاد ہوتے ہوئے بھی رہا نہیں کرتے۔

حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حرص کی دو قسمیں ہیں: ایک مذموم اور ایک غیر مذموم۔ مگر چھوڑنا اس کا بھی افضل ہے۔ مذموم حرص تو یہ ہے کہ انسان کو خدائی احکام کی ادائی سے روکنے لگے یا مال اس غرض سے جمع کرنا کہ دوسروں سے بڑھ جائے یا فخر و مباہات کرے۔ غیر مذموم حرص یہ ہے کہ کسب مال میں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کا بھی تارک نہ ہو اور نہ ہی اس سے مقصود دوسروں پر فخر کرنا ہو۔ یہ مذموم نہیں، کیوں کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مال جمع کرتے تھے مگر حضور اکرم ﷺ ان پر منع نہ فرماتے تھے البتہ اس کے بھی ترک کو ہی افضل قرار دیا۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب: ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد بزرگوار حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی فراوانی اور رزق کی وسعت عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ عمدہ کھانا کھایا کریں اور موجودہ کپڑوں کے بہ جائے اعلیٰ اور نرم کپڑے پہنا کریں۔

عمرؓ فرمانے لگے: یہ فیصلہ میں تیرے ہی سپرد کرتا ہوں ۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی معیشت کا تذکرہ فرمانے لگے اور وہ حالات دہرانے لگے جو خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہ کر گزارے تھے۔ حتیٰ کہ وہ رونے لگ گئیں۔ پھر فرمایا میرے دو رفیق زندگی تھے جو ایک خاص طریق پر چلتے رہے۔ اب اگر میں ان کے طریق کے علاوہ کسی اور طریق پر چلوں گا تو پھر میرے ساتھ ان والا طریق اختیار نہیں کیا جائے گا۔ بہ خدا ! میں انہیں جیسی تنگ حالی کی معیشت اختیار کروں گا تاکہ آخرت میں ان کے ساتھ خوش عیشی اور فراخ حالی میں شریک ہو سکوں۔

حضور ﷺ کا ارشاد گھر میں داخل ہوتے وقت: حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا اماں جان! بھلا حضور اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوتے وقت اکثر کیا فرمایا کرتے تھے ؟ فرمانے لگیں میں نے آپؐ کو گھر میں داخل ہوتے اکثر یہ فرماتے سنا کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہو ں تو وہ تمنا کرے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی پُر کرسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ مال تو اس لیے بنائے ہیں تاکہ ان کے ذریعے نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے ۔

حرص اور لمبی امیدوں کا انجام : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کی ہر شے بوڑھی ہوجاتی ہے سوائے حرص اور امید کے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ مجھے سب سے زیادہ اندیشہ تمہارے متعلق دو چیزوں کا ہے: لمبی امیدوں اور خواہشات کی پیروی کا۔ لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور خواہشات کی پیروی حق سے روکتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں پوری ذمے داری سے تین آدمیوں کے لیے تین باتوں کی خبر دیتا ہوں: دنیا پر مرنے والے کے لیے ایسے فقر کی جس کے بعد کبھی غنا نہ ہوگا، اور دنیا کی حرص رکھنے والے کے لیے ایسے شغل و مصروفیت کی، جس سے کبھی فرصت نہ ہوگی اور دنیا میں بخل کرنے والے کے لیے ایسے غم کی، جس کے بعد کبھی فرحت نہ ہوگی۔

حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ اہل حمص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمہیں حیا نہیں آتی؟ ایسی ایسی عمارتیں بناتے ہو جن میں سکونت بھی نہیں رکھتے، ایسی امیدیں باندھتے ہو جنہیں حاصل نہیں کرپاتے اور ایسا کچھ جمع کرتے ہو، جس کا کھانا تمہیں نصیب نہیں ہوتا۔ تم سے پہلے لوگوں نے مضبوط عمارتیں بنائیں، کثیر مال جمع کیے، طویل طویل امیدیں باندھیں مگر قبور اُن کا مسکن بنیں اور امیدیں دھوکا ثابت ہوئیں اور مالی ذخیرے ہلاکت کا سامان بنے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر اپنے رفیق یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے ملنے کا ارادہ ہے تو اپنے کرتے کو پیوند لگایا کرو، اپنے جوتے کی مرمت کیا کرو، اپنی امیدوں کو مختصر کرو اور کھانا شکم سیر ہونے سے کم کھایا کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ بازار میں داخل ہوئے۔ ان کے بدن پر موٹے موٹے کپڑے تھے اور وہ بھی میلے ہو رہے تھے۔ عرض کیا گیا امیرالمومنین! ذرا اس سے نرم لباس پہن لیا ہوتا۔ فرمایا اس سے دل میں خشوع پیدا ہوتا ہے، صالحین سے مشابہت حاصل ہوتی ہے اور ایک مومن کے لیے بہتر نمونہ ہے۔

اچھے اور برے لوگ : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں لوگوں کی نفسیات سے یوں واقف ہوں جیسے حیوانات کا طبیب ان کی طبیعتوں سے واقف ہوتا ہے۔ ان میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دنیا میں زاہدانہ رو ش رکھتے ہیں اور بُرے لوگ وہ ہیں جو قدر کفایت سے زیادہ دنیا جمع کرتے ہیں۔

حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے:

عورت کے ساتھ دل نہ لگائو کہ وہ آج تیری ہے کل کسی اور کی ہوگی۔ اس کا کہنا مانے گا۔ مال کے ساتھ دل نہ لگائو کہ یہ مستعار چیز ہے، جو آج تیرے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہوگا۔ لہٰذا غیر کی چیز کے لیے خواہ مخواہ مشقت نہ اٹھائو کہ اس کا منافع تو غیر اٹھائیں اور تکلیفیں تُو برداشت کرے۔ اور یہ بھی ہے کہ مال کے ساتھ دل لگائو گے تو تجھے حقوق اللہ کی ادائی سے روکے گا، فقر کا خوف پیدا ہوگا اور شیطان کی اطاعت ہونے لگے گی۔ دل میں جو بات کھٹک پیدا کرے اسے ترک کردو، کیوں کہ مومن کا قلب گواہ کی مانند ہے جو شبہات پر اضطراب محسوس کرتا ہے، حرام سے بھاگتا ہے، حلال سے سکون پاتا ہے ۔ کوئی عمل اس وقت تک اختیار نہ کرو جب تک کہ اس کی قبولیت کا یقین نہ ہونے لگے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں یوں رہو جیسے کوئی اجنبی نو وارد ہو یا راہ گیر مسافر، اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کیا کرو۔

حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ صبح ہوجائے تو اپنے دل سے شام کی بات نہ کرو، اور شام ہوجائے تو اپنے دل سے صبح کی بات نہ کرو۔ مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے اور بیماری سے پہلے اپنی صحت سے کچھ فائدہ اٹھالے، کیوں کہ تجھے کچھ علم نہیں کہ کل تیرا کیا نام ہوگا؟

حضرت فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کی امیدیں مختصر ہوں، اللہ تعالیٰ اسے  اکرام سے نوازتا ہے :

٭اسے اپنی اطاعت و بندگی کی توفیق دیتا ہے۔ کیوں کہ بندہ جب یقین کرلیتا ہے کہ وہ عن قریب مرجائے گا تو وہ طاعات میں محنت کرنے لگتا ہے اور کوئی تکلیف بھی آئے تو پروا نہیں کرتا۔ اس سے اس کے اعمال بڑھ جاتے ہیں۔

٭اللہ تعالیٰ اس کے غم و فکر کو کم کر دیتا ہے، کیوں کہ جب بندے کو عن قریب مرجانے کا یقین ہے تو ناموافق بات بھی پیش آجائے تو چنداں خیال نہیں کرتا۔

٭اسے قلیل مقدار پر راضی اور قانع بنا دیتا ہے، کیوں کہ جب بندے کو عن قریب مرجانے کا یقین ہے تو وہ کثرت کو طلب ہی نہیں کرے گا۔ اس کا تو سارا فکر، فکرِ آخرت ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو منور فرماتا ہے۔

نورِ قلب چار چیزوں سے میسر آتا ہے۔ ایک بھوکا پیٹ، دوسرے نیک ساتھی، تیسرے یہ کہ اپنے سابقہ گناہوں سے بے فکر نہ ہو۔ چوتھے یہ کہ امید مختصر ہو۔

لمبی امیدوں کا انجام: بندہ لمبی امیدیں لگانے پر چار چیزوں میں مبتلا ہوجاتا ہے:

طاعات میں سستی، دنیا کی فکر کا ہجوم، مال جمع کرنے کی حرص، دل میں قساوت یعنی سختی پیدا ہو جاتی ہے۔

لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ اپنی امیدوں کو مختصر رکھے۔ کچھ پتا نہیں کس سانس میں اور کس قدم پر موت آجائے ؟

مومن کو چھے باتوں کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں : اول ایسا علم جو آخرت کے معاملے میں اس کی راہ نمائی کرے۔ دوسرے ایسا ساتھی جو طاعات میں اس کا معین بنے اور معصیت سے روکتا رہے۔ تیسرے اپنے دشمن کی پہچان اور اس سے پرہیز کرے۔ چوتھے اللہ تعالیٰ کی آیات و علامات اور شب و روز کے اختلافات سے عبرت حاصل کرے۔ پانچویں مخلوق سے انصاف قائم رکھنا کہ کل قیامت کے دن وہ مدعی اور خصم نہ بن جائیں۔ چھٹے موت سے قبل اس کی تیاری کرنا کہ قیامت کے دن رسوائی نہ ہو۔

بندہ میرا مال میرا مال پکارتا ہے، حالاں کہ اس کا مال وہی ہے جو اس نے کھا لیا اور ختم کردیا، پہن لیا اور بوسیدہ کردیا یا صدقہ کردیا اور آخرت کے لیے باقی رکھا۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے ۔ آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔