​​مودی؛ اسرائیل کا چپراسی

صابر کربلائی  ہفتہ 17 فروری 2018
جب مسلم دنیا کے حکمران امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی کرتے رہیں گے تو پھر مودی جیسے چپراسی بھی فلسطین کاز کا سودا کرنے کےلئے اسرائیلی نمک خواری کیوں نہ کریں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب مسلم دنیا کے حکمران امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی کرتے رہیں گے تو پھر مودی جیسے چپراسی بھی فلسطین کاز کا سودا کرنے کےلئے اسرائیلی نمک خواری کیوں نہ کریں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حالیہ دنوں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے فلسطین سمیت اردن، عرب امارات اور مسقط کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا وقت انتہائی اہم ترین ہے کہ جب کچھ ماہ قبل مودی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ کچھ دن قبل ہی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور اب مودی کا یہ چار ملکی دورہ بہت سے سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ متعدد سوالات سے پردہ بھی اٹھا رہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مودی عرب امارات سے ہوتے ہوئے اردن پہنچے جہاں سے پھر فلسطین آئے اور محمود عباس سے ملاقات بھی کی، اس ملاقات میں مودی نے بھارت کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی اور وعدہ کیا کہ بھارت فلسطینیوں کے مفادات کو فراموش نہیں کرے گا۔

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ مودی کے پڑوس میں ہی ایک خطہ وادی کشمیر کہلاتی ہے کہ جہاں روزانہ کی بنیادوں پر کشمیریوں کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں اور ابھی چند ماہ پہلے ہی تو مودی اور نیتن یاہو کی مسلسل دو ملاقاتوں میں فلسطین کو فراموش کیا گیا تھا تو اب آخر مودی فلسطین کے کمزور ترین صدر محمود عباس کو کیا یقین دلانا چاہتے ہیں؟ یا پھر یہ کہ وہ دنیا بھر میں اور بالخصوص بھارت میں فلسطین کے معاملے پر عوامی غم و غصہ کم کرنا چاہتے ہیں یا شاید یہ کہ اس دورے میں مودی نے اسرائیل کا ایک سچا اور پکا نمک خوار ہونے کا یقین دلوایا ہے۔

اب ذرا ان ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیجئے کہ جہاں سے ہوتے ہوئے اسرائیلی نمک خوار مودی فلسطین جا پہنچے تھے۔

عرب امارات: جی ہاں آج کل عرب امارات کھلم کھلا خلیج دنیا میں ایک ایسا پولیس مین بنا ہوا ہے کہ جس نے نہ صرف بحرین بلکہ یمن میں بھی جاری فوجی حملوں کی کمان سنبھال رکھی ہے اور یمن میں جاری یک طرفہ عرب بادشاہوں کی جنگ کی کمان کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اب مودی نے یقیناً یہاں پر اسرائیل کی خیرخواہی میں ان کو یہی پیغام دیا ہوگا کہ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر اس جنگ کو جاری رکھو، یہ خیال نہ کرنا کہ یمن میں مارے جانے والے ہزاروں معصوم انسان مسلمان ہیں یا انسان بھی ہیں۔ یقیناً مودی نے اپنے کشمیر کے تجربات یہاں اماراتی شاہوں کے ساتھ شیئر کئے ہوں گے تاکہ انہیں حوصلہ ملے کہ دنیا چاہے جتنی ہی مخالفت کرتی رہے لیکن کیونکہ اسرائیل کا تحفظ سب پر مقدم ہے اس لئے یمن میں جو جنگ مسلط کر رکھی ہے اسے روکنا نہیں، کیونکہ یمن کے عوام کا پہلا نعرہ تکبیر، دوسرا رسالت اور پھر مردہ باد امریکا اور مردہ باد اسرائیل ہے۔

اسی طرح اب ذرا اُردن کی با ت کریں کہ جو ہمیشہ سے ہی عالمی استعمار کی غلامی کرنے کو ہی اپنی عاقبت تصور کرتا آیا ہے اور انہی دنوں کہ جب مودی اردن کے دورے پر تھے، اردن میں اسرائیلی سفارتخانے کو ازسرنو کھولا گیا اور نیا اسرائیلی سفیر بھی متعین کیا گیا ہے۔ یہاں بھی یقیناً مودی نے اسرائیل کی زبان بولتے ہوئے ان عرب شہنشاہوں کو سمجھایا ہوگا کہ دیکھو نہ تو فلسطین کے مظلوموں کی بات کرنا اور نہ ہی کشمیر کی طرف آنکھ اٹھانا۔ اگر پاکستان سے کوئی تمہیں کشمیر پر حمایت کرنے کےلئے کہہ دے تو آنکھیں اور کان بند کرلینا۔

عرب امارات اور اردن میں اسرائیلی لوری سنانے کے بعد مودی فلسطین پہنچے اور فلسطینی صدر محمود عباس سے گرمجوشی کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت، فلسطینی عوام کے مفادات کو فراموش نہیں کرے گا۔ اس موقعے پر انہوں نے بھرپور تاکید کی کہ اسرائیل کے ساتھ تمام معاملات کو گفتگو و مذاکرات کے ساتھ حل کرلیں۔ یہ ایک اور واضح دلیل ہے کہ مودی کا دورہ درا صل اسرائیل کےلئے تھا نہ کہ بھارت کےلئے۔ مودی کے اس فعل نے بھارتی عوام کی تذلیل کی ہے کہ ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے والا ملک اور اس کا وزیراعظم ایک جعلی ریاست اسرائیل کا چپراسی بن کر خطے میں پیغام رسانی کرتا پھر رہا ہے۔

دراصل حقیقت تو یہی ہے کہ بھارت کے وزیراعظم مودی کا درجہ کسی چپراسی کم نہیں۔ لیکن افسوس ہوتا ہے بھارت کے عوام پر کہ جنہوں نے ایک چپراسی کو اپنا وزیراعظم بنا کر پوری دنیا میں اپنا وقار خاک کرلیا ہے۔

مودی نے حالیہ دنوں ان چار ممالک کا دورہ کرکے اسرائیل کے چپراسی کا کردار شاید اس لئے بھی ادا کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف امریکی صدر کے القدس سے متعلق آنے والے بیان کے بعد سے شدید دباؤ تھا، کیونکہ اس بیان کے بعد پوری دنیا نے جہاں امریکا و اسرائیل کی مذمت کی وہاں القدس کی تاریخی حیثیت کو بھی فلسطین ہی قرار دیا جس کے بعد جعلی ریاست اسرائیل میں شدید خوف و ہیجان کی کیفیت ہے اور اس کیفیت کی وجہ فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ ہے جو مسلسل جاری ہے اور مغربی کنارے میں اسرائیل کو اب شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فلسطینیوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب کسی بھی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے اور بالخصوص امریکا کو فلسطین سے متعلق کسی بھی قسم کے مذاکرات کا مینڈیٹ نہیں دینے دیں گے جو ماضی میں فلسطینی اتھارٹی یا محمود عباس دے چکے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ مودی نے بھی بارہا فلسطینی صدر سے کہا کہ وہ تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرلیں۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا دورہ فلسطین، بھارت و فلسطین تعلقات کم بلکہ اسرائیلی چپراس گیری پر زیادہ مبنی تھا۔

بہرحال عرب امارات، اردن اور فلسطین سے نکلنے کے بعد اب اسرائیلی چپراسی مودی مسقط گئے ہیں۔ مسقط کے بارے میں عرض ہے کہ اس وقت خلیج دنیا کا واحد عرب ملک ہے کہ جس نے نہ تو دوسرے عرب بادشاہوں کی طرح داعش بنانے میں امریکا کی مدد کی، نہ ہی فلسطین سے متعلق کوئی خیانت کی، نہ ہی دیگر عرب بادشاہوں کی طرح یمن کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ کا حصہ بنا، اسی طرح اور کئی ایک اقدامات ایسے ہیں جو مسقط اور یہاں کے حکمرانوں کو خطے کی امریکی و اسرائیلی غلام عرب ریاستوں سے منفرد کرتے ہیں۔

اب مودی کا یہاں آنے کا مقصد بھی واضح ہے کہ شاید ان کو ڈرایا دھمکایا جائے یا پھر یہ کہ اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدوں کا لالچ دے کر مسقط کو بھی دیگر عرب پٹھو ممالک اور ان کے بادشاہوں کے طرح اسرائیلی نمک خوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یقین قوی ہے کہ مسقط کی خوددار اور غیرت مند حکومت کسی بھی ایسے فیصلے یا اقدام میں شامل نہیں ہوگی جس کا براہ راست نقصان مسلم امہ کو پہنچتا ہو یا مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب بنے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایشیا کا ایک قاتل دوسرے غاصب اور قاتل کی بقاء کےلئے مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں سے ملتا پھر رہا ہے اور کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح اسرائیل کا تحفظ یقینی ہوجائے۔ جبکہ حقیقت میں یہ قاتل تو خود دسیوں ہزار مظلوم انسانوں کا قاتل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہاں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان عرب ریاستیں اور بادشاہتیں امریکا اور اسرائیل کا اربوں ڈالرز کا اسلحہ خرید کر یمن میں استعمال کر رہی ہیں۔ یمن کو بالکل غزہ کی طرح محصور کیا گیا ہے، جہاں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 80 لاکھ افراد کی زندگیاں موت کے قریب جاپہنچی ہیں۔

لیکن غزہ و فلسطین کو بھول کر، کشمیر کی مظلومیت کو بھول کر، برما کی مظلومیت کو فراموش کرکے، افغانستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو بھول کر، عراق میں امریکا کے ہاتھوں لاکھوں انسانوں کا قتل عام بھول کر یہ عرب ریاستیں اگر کوئی کام کررہی ہیں تو وہ داعش بنانے میں امریکا کی مدد ہے یا پھر آج کل شام میں النصرۃ نامی دہشت گرد گروہ کو ازسرنو کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ یا پھر پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی مدد کرکے پاکستانیوں کا قتل عام کروانے میں مصروف ہیں، یا پھر امریکا و اسرائیل سے اربوں ڈالرز کا اسلحہ لے کر یمن پر بمباری کرکے دسیوں ہزار مظلوم یمنی مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔

ان کے نزدیک فلسطین کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ اسرائیل اور بھارت جو چاہے کر​​تے رہیں لیکن یہ عرب بادشاہ تو مسلمانوں کا ہی خون بہائیں گے۔ جب مسلم دنیا کے حکمران امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی کرتے رہیں گے تو پھر مودی جیسے چپراسی بھی فلسطین کاز کا سودا کرنے کےلئے اسرائیلی نمک خواری کیوں نہ کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔